ہماری معیشت پر چین کی نظر :ہم بے خبر وہ با خبر

رحمت کلیم امواوی

ہندوستان اور پاکستان کے مابین زبانی جنگ دونوں ملکوں کی آزادی کے پہلے دن سے ہی جاری ہے۔جب یہ جنگ تیز ہو جاتی ہے تو ایک دوسرے کے خلاف زہر اگلنے لگتے ہیں اور جب سرد پڑ جاتی ہے تو دونوں ملکوں میں بیٹھے محبت کے سوداگر سرحدی دیوار پھاند کر ایک دوسرے سے محبت اور ایک دوسرے کی خیرا خواہی کا دم بھرنے لگتے ہیں ۔سچائی تو یہ ہے کہ دونوں ملکوں کی عوام آپس میں مل جل کر باہمی اخوت و بھائی چارگی کے ساتھ پر امن فضا میں سانس لینا چاہتی ہیں ۔لیکن یہ بھی سچ ہے کہ

محبت کرنے والوں میں یہ جھگڑا ڈال دیتی ہے
سیاست دوستی کی جڑ میں مٹھا ڈال دیتی ہے
دونوں ملکوں کی سیاست کی تعریف اگر آپ ایمانداری سے کرنے کی کوشش کریں تو شاید آپ ایک بھی جملہ پوری طرح سے مطمئن ہو کر نہیں کہہ پائیں گے۔یہ حقیقت ہے کہ دونوں ملکوں کی سیاست ایک دوسرے کی مخالفت اور ایک دوسرے سے محبت کی بنیاد پر چلتی ہے اور یہ سلسلہ چلتا رہے گا ،ایسا نہیں ہے کہ آج دونوں ملکوں کے مابین تلخیاں شباب پر ہے تو کل بھی یہی صورتحال رہے گی ۔ایسا ہر گز نہیں ہے ۔دونوں ملکوں کے باہمی رشتے موسم کی طرح بدلتے رہے ہیں اور آگے بھی ایسے ہی بدلتے رہیں گے ۔کیونکہ دونوں ملک اپنے آپ کو اکیلا نہیں محسوس کر تا ہے۔بھارت اس خوش فہمی میں ہے کہ کچھ بھی ہو جائے امریکہ ہمارے ساتھ ہے اور اس کا ساتھ رہنا ہماری مضبوطی اور طاقت کیلئے کافی ہے ۔ادھر پاکستان یہ سوچ کر خوش ہے کہ ہمارے ساتھ چین ہر وقت کھڑا ہے اس لئے مجھے کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ چین ہندوستان کے خلاف ہے ۔چونکہ وہ پاکستان کے ساتھ ہر اس محاذ پر کھڑا دکھائی دے رہا ہے جہاں ہندوستان پاکستان کو گھیرنے کی کوشش کرتا ہے چین کی وجہ سے پاکستان کو گھیرنے میں ہندوستان کامیاب نہیں ہو پاتا ہے۔یعنی ہمیں یہ مان لینا چاہیے کہ ہمارا مضبوط حریف پاکستان نہیں چین ہے اور یہ بات صداقت پر مبنی ہے کہ چین ہندوستان کو گاہے بگاہے کمزور کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے اور آج بھی کر رہا ہے۔اس کی واضح دلیل این ایس جی ممبر شپ میں بھارت کی شمولیت کی راہ میں چین کاپتھر بننا ہے۔بھارت نے نیو کلیئر سپلائر گروپ میں شامل ہونے کیلئے اپنے سارے حربے کا استعمال کر لیا لیکن چین نے ہماری کسی بھی کوشش کو کامیاب ہونے نہیں دیا ۔ اس کے بالمقابل وہ پاکستان کی ممبر شپ کی وکالت کرنے لگا ۔اب چین کی اس حرکت سے ناراض ہندوستان نے پاکستان کو ایک نئے طریقے سے گھیرنے کی کوشش کی ۔ابھی پٹھان کورٹ ایئر بیس کا زخم مندمل بھی نہیں ہوا تھا کہ اڑی میں ایک اور دہشت گردانہ سانحہ رونما ہواجس میں ہمارے 19جوان شہید ہوئے ۔جانچ ایجنسیوں کے مطابق حملہ آور جیش محمد اور لشکر طیبہ سے تھے ۔اس حملے کے بعد بھارت نے پاکستان میں بیٹھے جیش محمد کے بانی مسعود اظہر کو دہشت گردوں کی لسٹ میں شامل کرنے کی تجویر اقوام متحدہ میں پیش کی ۔سلامتی کونسل ممالک کے کل پندرہ ممبران میں سے واحد چین ایسا ملک تھا جس نے بھارت کے اس تجویز کی مخالفت کی اور یہاں بھی ہندوستان کو کامیابی نہیں ہونے دیا۔دونوں ملکوں کے بیچ تلخیا ں ساتویں آسمان پر پہنچ گئیں ۔اڑی حملے کی جانکاہ تصویر نے ہندوستان کو بے چین کر رکھا تھا ۔پھراس نے بھی سرجیکل اسٹرائک کرکے پاکستان کے ہوش ٹھکانے لگا دیے ۔اس بیچ ہندوستان کے نام نہاد محب وطن کی حب الوطنی غبارے کی طرح پھولنے لگی اور انہوں نے پاکستان اور چین کا بائیکاٹ کرنا شروع کردیا۔پاکستان سے آلو پیاز آتے جاتے رہے لیکن وہاں کے فلمی آداکار وموسیقاروغیرہ پر پابندی لگا کر حب الوطنی کا جھوٹا ،ننگا ناچ ناچنے لگے ۔کرن جوہر کی فلم ’اے دل ہے مشکل ‘میں پاکستانی اداکار فواد خان کی موجودگی نے اس فلم کو کتنے دنوں تک میڈیا میں بحث کا موضوع بنائے رکھا اس پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔اب باری آئی چین کی ۔نئے نئے محب وطن کی ایک ٹیم نے ہندوستانی عوام کے درمیان یہ کہتے ہوئے اس بات کو پھیلانے کی کوشش کی چین ہندوستان کے خلاف ہے اورپاکستان کی ڈہشت گردی میں وہ اس کا ساتھ دے رہا ہے اسلئے اب ہمیں ان کے سبھی پروڈکٹس (اشیاء)کا بائیکاٹ کرنا چاہیے۔تاکہ وہ اس حرکت سے باز آئے۔دیوالی کا تہوار بہت قریب تھا چین کے پٹاخے اور قمقمے کا بائیکاٹ کرنے کیلئے بڑے بڑے پروگرام جگہ جگہ پر منعقد کئے گئے ۔لیکن دیوالی پر ان لوگوں کے ہی چھت پر اپنے ملک کی مٹی سے تیار دیپ کی جگہ چین کی ایل ای ڈی چمچما رہی تھی۔اب شاید یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ محب وطن کا دم بھرنے والوں نے کس قسم کی حب الوطنی کا ثبوت دیا۔ان تمام باتوں کے درمیان چین کو سمجھنا ہمارے لئے آسان نہیں لگ رہا ہے چونکہ ایک طرف وہ ہندوستانی بازار کو اپنے سامان سے پوری طرح سجا دیا ہے وہیں دوسری طرف جب ان کے سامان کے بائیکاٹ کی خبر چین سرکار کو ملتی ہے تو بلا ساختہ وہ یہ کہتا ہے کہ اس کا نقصان ہندوستان کو ہوگا ہمارے ملک کو نہیں ۔سوچنے والی بات یہ ہے کہ اگر چین اس بے باکی سے یہ بات کہہ رہا ہے تو کہیں نہ کہیں اس کا مضبوط کار ن بھی ہوگا۔ٹی وی پر ایک ماہر اقتصادیات سے جب اینکر نے یہ سوال پوچھا کہ چین کا یہ کہنا کہ اگر ہمارے پروڈکٹس کا بائیکاٹ کیا گیا تو سیدھا نقصان ہندوستان کو ہوگا ہمیں نہیں ۔اس میں کتنی سچائی ہے؟پینل میں موجود اس ماہر اقتصادیات نے بے ساختہ طور پر کہا کہ چین کی بات اپنی جگہ صدفیصد صحیح ہے۔آپ ایک ٹی چینل چلارہے ہیں ۔اتنی بڑی بڑی مشینیں لگی ہوئیں ہیں ۔آپ یہ بتائیں کہ ان میں سے کتنی مشینیں چین کی بنی ہوئی ہیں ؟اینکر کچھ دیر کیلئے مسکرایا اور آگے بڑھنے کی کوشش کی پھر اس شخص نے کہا کہ ہر جگہ چین موجود ہے چاہے یہ آپ کا اسٹوڈیو ہو یا آپ کا اپنا گھر۔غور کرنے والی بات یہ ہے کہ چین اپنے پروڈکٹس سے ہمارے گھر کو بھر کر اس نے کتنا کمایا اس کااب تک کوئی صحیح حساب نہیں مل پایا ہے لیکن یہ صحیح ہے کہ اگر ہم نے چین کے سامان کا استعمال بند کر دیا تو ہماری معیشت اوندھے منہ زمین پر آگرے گی۔کمال کی بات تو یہ ہے کہ چین گاہے بگاہے اس بات پر خوش بھی ہوتا ہے کہ ہندوستانی بازار پر ہمارا قبضہ ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن ہمیں اس بات کا اب تک اندازہ نہیں ہے کہ ہماری معیشت پر چین کی نظر ہے۔ آئیے ایک اور مثال دیکھئے ۔ان دنوں ہمارے وطن عزیز پر کیش لیش ملک بننے کا بھوت سوار ہو گیا ہے ۔کیش لیش انڈیا کی آواز اب دھیرے دھیرے بلند ہوتی نظر آرہی ہے۔حالانکہ اس کھائی کی طرف کوئی نہیں جھانکتا کہ جس ملک کی 70فیصدآبادی گاؤں دیہات میں رہتی ہو اور جنہیں موبائل کا استعمال کرناصحیح سے نہیںآتاہو،ان کے ہوتے ہوئے کیش لیش انڈیا کاخواب شرمندہ تعبیر ہونا فی الحال کسی معمے سے کم معلوم نہیں ہو رہا ہے۔بہر کیف میٹرو سٹی میں کیش لیش انڈیا کی آواز تیز ہے اور لوگ کوشش بھی کر رہے ہیں۔پرانے نوٹوں کی منسوخی نے لوگوں کو اس کیش لیش انڈیا کی طر ف بڑھنے کیلئے وقتی طور پرمجبور کردیا ہے جس کی وجہ سے بڑے شہروں میں ایک نام ہر جگہ سنائی دے رہا ہے اور وہ ہے ’پے ٹی ایم‘۔
پے ٹی ایم دراصل آن لائن روپئے کی ادائیگی کا ایک اپلی کیشن ہے یا یوں کہیں کہ یہ ایک ایسا سسٹم ہے جس کی مدد سے ہم چیزوں کی قیمت آن لائن ادا کر سکتے ہیں۔اب ایک نظرمیں آپ پے ٹی ایم کی حقیقت کو بھی سمجھ لیں تاکہ آپ یہ آسانی کے ساتھ اندازہ لگا لیں کہ چین ہماری معیشت پر کیسے قبضہ کرتا جا رہا ہے۔سن 2010میں پے ٹی ایم ایک پری پیڈ موبائل ریچارج ویب سائٹ کے طور پر شروع ہوا اور 2014میں اس کمپنی نے پے ٹی ایم ولیٹ(Paytm Wallet) لانچ کیا ۔یعنی اب اپنا پیسہ یہاں اس ویب سائٹ کے اکاؤنٹ میں رکھ سکتے ہیں ۔ایک سروے کے مطابق اب تک 100ملین سے زائد لوگوں نے اپنا اکاؤنٹ اس ویب سائٹ پر بنا لیا ہے اور دس ملین سے زیادہ لوگوں نے اس کمپنی کاموبائل ایپلی کیشن ڈاؤن لوڈ کر رکھا ہے۔2015میں اس کمپنی کو ریزرو بینک آف انڈیا نے فرسٹ پیمنٹ بینک (First Payment Bank)کا لائسنس جاری کیا اور آج یہ پے ٹی ایم میٹرو سٹی کی جان بنتا جا رہا ہے۔لیکن شاید آپ اس سچائی سے ناآشنا ہیں کہ اس پے ٹی ایم کمپنی میں 25فیصدشیئر چین کا ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ پے ٹی ایم جس کا یومیہ منافہ کروڑوں میں ہے اس کا ایک حصہ چین کو جا رہا ہے۔چین کی مشہور بزنس کمپنی ’علی بابا گروپ‘نے سن 2015میں اس پے ٹی ایم کمپنی کا 25فیصدشیئر خریدلیا جس کے نتیجے میں پے ٹی ایم کے ذریعے ہونے والی تجارت کا ایک حصہ چین کے کھاتے میں جا رہا ہے۔سوچنے والی بات تو یہ ہے کہ جس را ت ہمارے وزیر اعظم نے پرانے پانچ سو اور ہزار کے نوٹ پر پابندی عائد کرنے کا فرمان صادر کیا مشہور سینئر صحافی پریتیش نندے کے مطابق رات کے ۸ بجے مودی نے نوٹ بندی کا اعلان کیا اور اس اعلان کے ڈیرھ گھنٹے بعد علی بابا گروپ نے اپنے یہاں پے ٹی ایم کا اشتہار نریندر مودی کی تصویر کیساتھ شائع کیا تھا۔اب یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ اشتہار کس خوشی میں علی بابا گروپ نے دیا تھا۔اس کے علاوہ آن لائن شائپنگ کی سائٹ اسنیپ ڈیل(Snapdeal) کو شاید آپ جانتے ہوں گے ۔آپ کو بتا دیں کہ اس کمپنی میں بھی علی بابا گروپ نے پانچ سو ملین ڈالر لگایا ہے اور اس طرح کی اور بھی کئی بڑی بڑی کمپنیوں میں چین کی شراکت ہے اور وہ ہماری کرنسی پر دھیرے دھیرے حاوی ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
بہر کیف جب اس طرح کی بات عام لوگوں کے بیچ کی جاتی ہے کہ ہمارے بازار پر چین پوری طرح حاوی ہے تو ایک جواب فوراً سننے میں یہ آتا ہے کہ اگر ہم ایکسپورٹ امپورٹ نہیں کریں گے تو پھر ہماری معاشی حالت کیسے سدھرے گی، ہماری معیشت مضبوط نہیں ہو پائے گی۔لیکن ایسے بھولے بھالے لوگوں کو کون سمجھائے کہ ہمیں ہمیشہ ایک آپشن رکھنا چاہیے ،ہمیں خود نئی نئی ضرورت کی چیزیں تیار کرنی چاہیے ۔ایکسپورٹ امپورٹ ضروری ہے لیکن اس کو مجبوری نہ بننے دینے پر ہی کسی بھی ملک کی معاشی خودمختاری باقی رہتی ہے ۔اگر ہم اس طرح سے اپنے بازار کو چین کے سامان سے سجائیں گے اور اپنے گھر میں کچھ تیار نہیں کریں گے تو سامنے والے کیلئے کھیل آسان ہو جائے گا کہ وہ جب چاہے آپ کی دوکان اور آپ کی دنیا اجاڑ دے اور آپ منہ دیکھتے رہ جائیں ۔یاد رکھیئے چین ایک شاطر ملک ہے اور شاطر لومڑی کی کہانی اگر آپ نے سنی ہوگی تو مجھے یقین ہے آپ اس بات کو سمجھ جائیں گے کہ چین صرف پاکستان کو قرض اور ساتھ دے کر اپنا غلام نہیں بنا رہا ہے ۔ہمارے ملک کی معیشت پر بھی نظر رکھ رہا ہے اور موقع بہ موقع اپنی چال چلتا دکھائی دے رہا۔اس لئے ہماری حکومت کوچاہئے کہ وہ ہوش کے ناخن لے تاکہ وقت رہتے ہم چین کی چال سے بچ سکیں۔ہمارے یہاں بھی کسی چیز کی کمی نہیں ہے نا ہی وسائل کی اور ناہی صلاحیت کی۔اس لئے زیادہ سے زیادہ کوشش کرنی چاہئے کہ ہم اپنے بازار میں اپنی چیزوں کو بڑھاوا دیں تاکہ چین کا سامان ہماری مجبوری نہ بنے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔