ہمارے ملک کی بیٹیوں ہم شرمندہ ہیں!

محمد حسن

ہمارے دیش میں انسانیت برہنہ ہے، انسان شرمسار ہیں، ناموس خطرے میں ہے،آبرو نیلام ہے، عزت کی بولیاں لگ رہی ہیں، شرافت پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں، شریف بدحال ہیں اورپاکی غلاظت میں تحلیل ہوری ہے۔ شیطنت کا زور ہے، بدی کا بازار گرم ہے، جنس کے حلال و حرام کا امتیاز عنقا ہورہا ہے، مجرموں کو تحفظ حاصل ہورہا ہے، سیاہ کاری کا غلبہ  زور پکڑتا جارہا ہے، آبروریزی  کا طوفان برپا ہے، ماضی نمناک اور حال ماتم کناں ہے،حق کی آواز دبانے میں ایڑی چوٹی کا زور ہے اور خاموش جرمی ماحول بنانے کی سازش ہے، غنڈہ  گردی  کی آندھی میں ہزاروں معصوموں کی جانیں  خلا میں لہرا رہی ہیں وہیں ان کے ساتھ درندگیت کا سلوک کیا جارہا ہے، ملک کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جہاں انسان اور انسانیت سسک اور بلک نہ رہے ہوں، کشمیر سے کنیا کماری تک کی یکجہتی کا نقشہ مخدوش ہے اور ہم آہنگی کی صدا بالائے طاق ہے۔ افسوس صد افسوس کہ ان معصوم بچیوں کو اپنا شکار اور نشانہ بنایا جارہا ہے جنہیں ابھی اپنے جنس کا بھی احساس نہیں جو گورے اور کالے کا فرق سمجھتے ہیں اور نہ ہی انسان اور جانوروں میں انہیں کوئی فرق محسوس ہوتا ہےلیکن ان ظالموں اور بھیڑیوں کے آنکھوں پر ایسا عینک لگ چکا ہے جس سے ان کو اپنا وجود بھی شیطان نظر آتا ہے او ر اپنے ماں کی آنچل اور بہن، بیٹی کی عزت  پر یلغار کر ڈالتے ہیں اور  خونی پنجوں کو ان کا سودا کر، انسانیت کی شبیہ بگاڑ ڈالتے ہیں اور بات کرتے ہیں سوچھ اور نرمل دیش کی جن کے سامنے بدی اور غلاظت کا پہاڑ بدبو لئے کھڑا ہے۔

بے شرموں!  ہوش کا ناخن لو،آشوب چشم کا علاج کراؤ، ذہن کی غندگی  پر  پٹرول ڈال کر جلا ڈالو، اپنے نفسیاتی امراض کو ٹھیک کراؤ، اپنے پاگل پن   کے دورےسے دوسروں کو خطرہ نہ پہونچاؤ، اپنے ماں کی آبرو نیلام مت کرو، گنگا  کو نرمل اور جمنا کو سوچھ رہنے دو، اپنی بہن، بیٹی کا سودا نہ کرو، کیا ملتا ہے تمہیں کسی معصوم کی زندگی اجاڑ کر، کیا حاصل ہوتا ہے تمہیں کسی کی پاکدامنی پر  ڈاکہ ڈال کر، کیا کرتے ہو تم کسی کے باغیچے جیسے گھر کو جلا کر، کیا سو چتے ہو تم کسی  پھول کوبے  خوشبو اور گلشن کو بے رونق بناتے وقت، کیا تمہیں کراہتے بے بس انسان کا دکھ سمجھ نہیں آتا !

بےغیرتوں!  کب تک تم اناؤ اور کٹھوعہ جیسے  پاک آشیانوں پر اپنے من کی آگ اور تن کی بھوک بجھاتے رہوگے!

کب تک شبنم تمہارے آس پاس ٹپکنے سے ڈرتی رہے گی، کب تک ہریالی  پر تمہارا خوف طاری رہے گا، کب تک تم انصاف کو ڈراتے رہو گے، کب تک تمہارے ظلم کی بالادستی قائم رہے گی، کب تک تم جنت نما زمین پر شعلے برساتے رہوگے، کب تک ہم  جنت میں جہنم کا نظارہ دیکھتے رہیں گے اور کب تک برف سے اٹھتے ہوئے شرارے ہمیں اپنی لپک میں لیتے رہیں گے، کب تک چلے گا تمہارا  یہ ابلیسی کھیل، کب تک گنگاؤ گے تم دہشت کے ترانے اور کب تک ایک باپ اپنی گڑیا کی عزت کی حفاظت کو لے کر سولی چڑھتا رہے گا، کب تک! کب تک!

  ہمارے ملک کی بیٹیوں ہم شرمند ہ ہیں، ہم شرمندہ ہیں کہ ہم نے بدی کے محور کی تشکیل کی ہے، ہم شرمندہ ہیں کہ تمہارے ظالم آزاد ہیں، ہم شرمندہ ہیں کہ ہماری اکثریت بھی لاچار ہے، ہم شرمندہ ہیں کہ انصاف بھی بک رہا ہے، ہم شرمندہ ہیں کہ تمہاری عزت اچھالی تو جارہی  لیکن انصاف کے آنکھوں پر ابھی بھی پٹی ہے، ہم شرمندہ ہیں کہ تمہیں عزت کی  زندگی نہ دلا سکے اور حد تو یہ ہے کہ تمہارے قاتل  محفوظ ہیں۔ ہمارے ملک کی بیٹیوں ہم شرمندہ ہیں اور بہت شرمندہ ہیں!

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔