عصمت دری کے بڑھتے واقعات: ہم اور حکومت

 محمداظہرمدنی

عصر حاضر کے جدید علم سماجیات میں انسان کو سماجی حیوان (Social animal)سے تعبیر کیا گیا ہے۔ جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ انسان بھی در حقیقت ایک جانور ہی ہے۔ بس انسان دیگر جانوروں سے اس حیثیت سے ممتا ز اور برتر ہے کہ وہ سماجی زندگی گزارنے کا عادی اور خوگر ہے۔ موجودہ علم سماجیات نے کس بنیادپر انسان کوحیوان کہا ہے یہ ایک الگ تحقیقی موضوع ہے لیکن اس کی روشنی میں یہ آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے کہ جدید علم سماجیات کی تحقیق میں انسان بھی ایک جانور ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کبھی کبھی انسان کے اندر کا حیوان بے قابو ہو جاتا ہے اورانسان بالفعل بھی جدید علم سماجیات کی تحقیق کو ثابت کرنے لگتا ہے۔ بہیمانہ قتل،عصمت دری اور اس طرز کے دیگر غیرمہذب اور غیرانسانی ایسے افعال ہیںجو انسان کے جانور ہونے کو ثابت کرتے ہیں۔ انسان کے اندر کچھ ایسی فطری خواہشات ہیں اور کچھ آرزوئیں ہیں جن کی تکمیل کے لئے انسان ہر لمحہ سر گرداں رہتاہے لیکن کچھ سماجی بندشیں اوراصول و ضوابط اسے ایک محدود دائرے میں رہ کر ہی تکمیل کی اجازت دیتی ہیں۔ یہی سماجی بندشیں اور سماجی اصول ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر ایک مہذب معاشرے کا وجود ممکن ہوتا ہے۔ یو ںتو قرآن کریم تکریم انسانیت اور مقام انسانیت کے حوالے سے جو باتیں کی ہیں اس سے بنی نوع انسانیت کا مقام ومرتبہ دنیا کے تمام مخلوقات میں سب سے اعلی وارفع ہے اوریہی وہ مخلوق ہے جو حق وباطل،خیروشرمیں مکمل طور پر تمیز برتنے والی ہے۔ اور اپنے صفات محمودہ اور اخلاق عالیہ سے دوسرے مخلوقات سے جداگانہ حیثیت رکھتی ہے۔ قرآن کا تکریم انسانیت اور عزت وناموس کی حفاظت کے حوالے سے یہ سب سے بڑااعزاز ہے کہ ہم نے اولاد آدم کو بڑی عزت دی اور انہیں خشکی اور تری کی سواریاں دیں اور انہیں پاکیزہ چیزوں کی روزیاں دیں اور اپنی بہت سی مخلوق پر انہیں فضیلت عطافرمائی۔

یہ ایک فطری امر ہے کہ انسان کے لئے جو چیزیں سب سے زیادہ قیمتی ہوتی ہیں وہ اس کی حفاظت بھی اتنی ہی سر گرمی اور بیداری سے کرتا ہے۔ اس کے لئے قانون بنائے جاتے ہیں۔ اصول وضوابط مرتب کئے جاتے ہیں۔ اس کی خلاف ورزی پر سزائیں بھی تجویز کی جاتی ہیں۔ ایک مہذب وشائستہ معاشرے اور سماج میں انسان کے لئے اس کی عصمت و عفت سب سے قیمتی مانی جاتی ہے۔ عصمت کے تحفظ کے لئے انسان اپنی جان تک قربان کرنے کو تیار رہتاہے۔ لیکن اس کے باوجود آج معاشرے میں عزت و عصمت ہی سب سے سستی نظر آ رہی ہے۔ آئے دن  ملک کے گوشے گوشے سے عصمت دری اور آبرو ریزی کی آنے والی خبروں نے ایک مہذب انسان کی پیشانی پر شکن ڈال دیا ہے۔ اس پر قدغن لگانے کی تمام تر کوششیں بھی نا کام ثابت ہو رہی ہیں۔ حد تویہ ہے کہ سماجی حیوان کے ذریعہ عصمت دری کے واقعات بالغ خواتین کے ساتھ پیش آنا تو سمجھا جا سکتا ہے لیکن پانچ پانچ اور آٹھ آٹھ سال کی معصوم بچیوں اور ساٹھ ساٹھ سال کی بزرگ خواتین کے ساتھ درندگی کے واقعات نے سماجی حیوان کو جنگلی جانوروں سے بھی بد تر بنا دیا ہے۔ یہ سماج کے ایسے بیمار ذہنیت کے حامل افراد ہیں جو ایک مہذب سماج اور معاشرے کے لئے خطرناک ہیں۔ کچھ ماہ قبل دہلی اور ہریانہ میں دو معصوم بچیوں کے ساتھ پیش آئے واقعات نے انسانیت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ 2012میں ملک کی راجدھانی دہلی میں پیرا میڈیکل طالبہ کے ساتھ چلتی ہوئی بس میں اجتماعی عصمت دری کے واقعہ کے بعد ملک میںزبر دست غصہ نظرآیا تھااور خاص طور پر نوجوانوں نے مسلسل احتجاج اور دھرنوں کے ذریعہ اپنی ناراضگی کا اظہار کیا تھا، پوری دہلی ہفتوں تک ٹھہرگئی تھی، ایوان میں تمام کارروائیاں ٹھپ ہو گئی تھیں،بلکہ ملک ہی نہیں پوری دنیا میں اس واقعہ کی گونج سنائی دی اور سماج کے ہر طبقے نے اس حیوانیت کی مذمت کی۔ اس واقعہ کے بعد ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ شاید اب اس سنگین جرم پر قدغن لگ سکے اور ملک میں ایسے واقعات میں کمی آئے لیکن رپورٹیں بتاتی ہیں کہ اس سماجی حیوان نے کوئی سبق نہیں لیااور حالات جوں کے توں ہیں۔ اور آئے دن نت نئے طریقے سے اپنی حیوانی خواہشات کی تکمیل کے لئے سرگرداں ہیں، نہ سماج ومعاشرہ کا خوف ہے اور نہ تحفظ نسواں کا خیال، نہ ملک کے قانون وآئین کا پاس ولحاظ ہے اورنہ ہی عدلیہ کا احترام، غرض یہ کہ اپنے نفس کی تسکین کے لئے جو چاہے اور جسطرح چاہیں شتر بے لگام کے طرح گھوم رہے ہیں اور پوری دنیا میں ملک وملت وانسانیت کے وقار کو مجروح کررہے ہیں۔ العیاذ باللہ۔

اس وقت ملک میں عصمت دری خواتین کے خلاف ہونے والا چوتھا سب سے زیادہ عام جرم مانا گیا ہے۔ جرائم کے حوالے سے سرکاری اعداد و شمار جمع کرنے والے ادارے نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو نے 2015کی رپورٹ میں انکشاف کیا تھاکہ2012کے بعد 2015ء تک کے چار برسوں میں خواتین کے خلاف جرائم میں 34 فیصد کا اضافہ ہوا۔ رپورٹ کے مطابق اس سنگین جرم کا شکار ہونے والی خواتین میں چھ سا ل کی بچی سے لے کر ساٹھ سال تک کی بزرگ خواتین بھی شامل تھیں۔ رپورٹ کے مطابق 2015ء  میں عصمت دری کے چونتیس ہزار چھ سو اکیاون معاملات درج کیے گئے۔ 2016کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق ان واقعات میں 12.4فیصد کا اضافہ ہوا 34,651  سے بڑھ کر یہ تعداد 2016میں38,947  ہو گئی۔ مدھیہ پردیش اور اتر پردیش سر فہرست ریاستوں میں شامل ہیں جہاں عصمت دری کے سب سے زیادہ واقعات پیش آئے۔ رپورٹ کے مطابق متاثرہ خواتین میں سے33 ہزار سے زیادہ یا تقریباً 95.5 فیصد کی عصمت دری میں مبینہ طور پر ان کے رشتہ دار، عزیز یا جان پہچان والے ملوث تھے۔ آل انڈیا پروگریسیو ویمن ایسوسی ایشن کی سیکرٹری کویتا کرشنن کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ سرکاری رپورٹ میں پیش کی گئی یہ تعداد  درست نہیں ہے کیوں کہ بیشتر خواتین بدنامی کے خوف سے عصمت دری کے معاملات کو درج کرانے سے گریز کرتی ہیں۔

آئے دن عصمت دری کے واقعات میں اضافہ کا ذمہ دار کسی حدتک سماج میں آنے والی تبدیلیاں بھی ہیں۔ موبائل اور انٹر نیٹ کے بے تحاشہ استعمال نے ہمارے طرز زندگی کو بے حد متاثر کیا ہے۔ سماج میں منفی تبدیلیاںہوئی ہیں جس نے عصمت دری جیسی گھناونی وارداتوں کے لئے ماحول سازگار کیا ہے۔ لڑکے اور لڑکیوں کا آزادانہ اختلاط، والدین اور سر پرستوں کی جانب سے نوجوان نسلوںکے تئیں ترقی اور تعلیم کے نام پر لا پر وائی بھی کسی حد تک ذمہ دار ہے۔ سماج کی ایک بڑی اکثریت کی جانب سے’ لیو ان رلیشن شپ‘ اور رضا مندی سے جنسی تعلقات کو جائز تسلیم کئے جانے کا رجحان بھی اس بگاڑ کا سب سے بڑا سبب ہے اسی طرح شادی سے پہلے ایک دوسرے کو سمجھنے کے نام پرناجائزتعلقات قائم کرناہے۔ ایسے متعدد واقعات منظر عام پر آتے ہیں جہاں دس سال، پندرہ سال تک ساتھ رہنے کے بعدلڑکی کی جانب سے لڑکے پر عصمت دری کا الزام عائدکر دیا جاتاہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جس طرح بے جا پابندیاں انسانی سماج کومفلوج بنا دیتی ہیں اسی طرح بے جا آزادی بھی معاشرے اور سماج کے تانے بانے کو منتشر کردیتی ہے۔ سماج کو عصمت دری سے پاک معاشرہ بنانے کے لئے ہمیں صرف سرکار یا حکومتی اداروں پر بھروسہ نہیں کرنا چاہئے بلکہ ہمیں ذاتی طورپر بھی تحفظ کے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم صرف حکومت یا معاشرے کے غیر سماجی عناصر کو مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتے۔ جس طرح ہم گھرسے نکلنے سے قبل گھر واپس آنے تک کی فکر کرتے ہیں اسی طرح ہمیں گھر سے باہرنکلنے کے دوران ایسے بیمار ذہنیت کے افراد سے تحفظ کے لئے بھی ہوشیار رہنا ہوگا۔

2012ء میں راجدھانی میں پیش آئے عصمت دری کے واقعہ کے بعد ملک بھر میںایسی وارداتوںکو بڑے پیمانے پر میڈیا کی توجہ حاصل ہوئی اور ملک گیر پیمانے پر عصمت دری  اور ریپ کے خلاف آوازیں بلند ہوئیں۔ سخت قانون بنانے کامطالبہ کیا گیا بلکہ لوگوں کی جانب سے ایسے مجرموں کے لئے سزائے موت کا بھی مطالبہ کیا گیا۔ جس کی بنیاد پر حکومت نے عصمت دری اور جنسی تشدد کے جرائم کے لیے پینل کوڈ میں اصلاحات بھی کیں۔ بلوغت کی عمر میں تخفیف کرکے آئندہ کم عمر کے ملزمین کے لئے بھی سخت سزا کی تعین کی گئی۔ اس ایکٹ میں سخت نکات شامل کئے گئے۔ خواتین کے ساتھ کسی بھی طرح کے استحصال، چھیڑ خانی یہاں تک خواتین کو گھورنے تک کو بھی جرم کے زمرے میں شامل کیا گیا۔ لیکن اس کے باوجود لگا تار ایسی وارتوں میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں ہریانہ اسمبلی نے باقاعدہ طور پر بچیوں کے ساتھ جنسی جرائم انجام دینے والے  مجرموں کے لئے سزائے موت کی قرار داد کو منظوری دی ہے۔ ہم اس کی تائید کرتے ہیں لیکن ہمیں سخت سزا سے پہلے اس کے تحفظ اور ایسی وارداتوں کے لئے ماحول پیدا کرنے والے عناصر پر بھی غور کرنا چاہئے۔ کیونکہ اب تک کے تمام سخت قوانین سماج کے ان بیمار ذہن کے حامل لوگوں کو گھناونی وارداتوں سے روکنے میں نا کام ہیں۔ اس سے بآسانی سمجھا جا سکتا ہے کہ ان وارداتوں سے تحفظ کے لئے جس قدر سماج میں تبدیلی کی ضرورت ہے اسی قدر ہمیں ذاتی طور پر بھی سماج کے ان حیوان نما انسانوں سے ہوشیار رہنے کی بھی ضرورت ہے۔ ہمیں چاہئے کی تحفظ نسواں کے تعلق سے اسلامی تعلیمات کا بغور مطالعہ کریں اور عصمت دری اور اس قبیح اور مجرمانہ عمل کے لئے راستہ ہموار کرنے والے تمام راستوں پر قدغن لگایا جائے اور بفرض محال اس جرم عظیم کا ارتکاب ہوگیا تو ایسی صورت میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میںسزا متعین کی جائے۔ چونکہ یہ سزا اور قانون کسی مخلوق کا بنایا ہوا نہی ہے بلکہ ہم سب کے خالق ومالک حقیقی کا بنایا ہوا ہے اور وہ ہمارے نفوس اور طبعیت وفطرت کو اچھی طرح جانتا ہے، اللہ تعالی ہم سب کا حامی وناصرہو۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔