ہمیں بھی راہل گاندھی سے کچھ کہنا ہے!

حفیظ نعمانی

حسن کمال نہ صرف منجھے ہوئے صحافی ہیں وہ شاعر بھی ہیں اور مفکر بھی اور سماجی مصلح بھی انہوں نے کانگریس کے جواں سال صدر راہل گاندھی کو ایک کھلا خط لکھا ہے۔ اور یہ لکھ دیا ہے کہ وہ اُردو نہ جاننے کی بناء پر خود تو پڑھ نہیں سکتے لیکن ان کی یہ توقع خدا کرے پوری ہوجائے کہ کانگریس کے ایک ترجمان م افضل جو خود اردو کے پرانے صحافی ہیں وہ اس خط کو سنادیں یا اس کی روح کشید کرکے ان کو بتادیں۔

حسن کمال کی غزل میں اضافہ تو نہیں ، اسی بحر میں ہم خود کچھ کہنے یا لکھنے کے بارے میں کئی دن سے سوچ رہے تھے راہل گاندھی اس معاملہ میں خوش نصیب ہیں کہ شاید ایسے مسلمان کم ہوں گے یا نہ ہونے کے برابر ہوں گے جو ہاتھ اٹھاکر ان کے لئے بددعا کرتے ہوں۔ انہوں نے کانگریس کی صدارت اگر وزیرعظم نریندر مودی کے اقتدار سے پہلے حاصل کرلی ہوتی تو شاید ہی کوئی مسلمان ان کی فتح کے لئے دعا نہ کرتا۔ یہ ان کی خوش نصیبی ہے کہ ان کے بزرگ خانہ پنڈت نہرو سے ان کے والد راجیو گاندھی تک وہ تمام مسلمان جو پہلے 90  فیصدی کانگریس کے ساتھ تھے رفتہ رفتہ 10  فیصدی بھی اس کے ساتھ نہیں رہ گئے تھے۔ 1961 ء سے 1993 ء تک کانگریس کا ہر قدم مسلم دشمنی رہا اور وہ اترپردیش، بہار، مدھیہ پردیش سے ہریانہ تک جو کانگریس کے گڑھ تھے وہ صرف مسلمانوں کی زبردست مخالفت کی وجہ سے علاقائی پارٹیوں یا بی جے پی کے قبضہ میں آگئے۔ یہ نریندر مودی کا احسان ہے کہ انہوں نے آر ایس ایس کی کھیتی زور شور سے شروع کردی اور مسلمان جہاں کانگریس تھی وہاں کانگریس کے خیمہ میں آگیا یا علاقائی پارٹی میں چلا گیا اگر وہاں بھی کانگریس ہوتی تو اس کے پاس جاتا۔

گجرات میں جو ہوا کیا وہ صرف مودی جی کی وجہ سے نہیں ہوا؟ کہ راہل گاندھی نے مسلمانوں کے کسی مجمع میں ایک بھی تقریر نہیں کی اور نہ مسلمانوں سے کوئی اپیل کی لیکن گجرات کے مسلم علاقوں کے لوگوں نے بتایا کہ انہوں نے منصوبہ بند طریقہ سے کانگریس کو ووٹ دیئے جس کا ثبوت مسلم ممبروں کی شکل میں موجود ہے۔ یہی کرناٹک میں ہوا کہ جنتا دل ایس اگر محنت کرتی اور اس کے پاس وسائل ہوتے تو وہ سارے مسلمان ووٹ حاصل کرلیتی اور اگر وہ سابق وزیراعظم دیوگوڑا جیسے سیکولر لیڈر کی سرپرستی میں نہ ہوتی تو مسلمانوں کے سو فیصدی ووٹ کانگریس کو مل جاتے۔

حسن کمال کی طرح ہم بھی کانگریسی نہیں ہیں لیکن جب مقابلہ بی جے پی کا نہیں مودی جی سے ہوتا ہے تو نہ چاہتے ہوئے بھی کانگریس کی کامیابی کی دعا کے لئے ہاتھ اُٹھ جاتے ہیں۔ نریندر مودی تو مجبور ہیں وہ جن لوگوں کے گھیرے میں ہیں وہ یہ بھی برداشت نہیں کرتے کہ وزیراعظم مسلمانوں کو اُردو میں رمضان المبارک کی مبارکباد دے دیں۔ ان حالات میں راہل گاندھی اگر وزیراعظم بننا چاہتے ہیں تو وہ اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہ جہاں کوئی علاقائی پارٹی گلے سے لگائے ہوئے نہ ہو وہاں پوری طاقت لگاکر مسلمانوں کو پارٹی میں داخل کریں اور ان پر اعتماد کریں۔ اور اترپردیش، بہار اور بنگال جیسے صوبوں میں ان پارٹیوں سے چھیڑچھاڑ نہ کریں جہاں مسلمان کارکن عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔

راہل گاندھی اپنی ممّی سے بھی کہہ دیں کہ انہوں نے ایک بار تو یہ غلطی کی ہے کہ بغیر سوچے سمجھے کہہ دیا کہ ہماری پارٹی کو مسلمانوں کی پارٹی سمجھا جاتا ہے گویا یہ ان کی توہین ہے۔ انہیں سمجھادیں کہ کانگریس صرف اس وقت تک پورے ملک پر حکومت کرتی رہی جب تک مسلمان اس کے ساتھ تھے اور جب مسلمان اپنا سب کچھ برباد کرکے اُترپردیش میں ملائم سنگھ یادو، بہار میں لالو یادو، آسام میں مولانا بدرالدین اجمل، آندھرا میں اویسی جیسے علاقائی لیڈروں کے خیمہ میں چلے گئے تو مودی جی کو پائوں جمانے کا موقع مل گیا۔

کرناٹک میں اُردو کا ایک اخبار سالار برسہا برس سے نکل رہا ہے اپنے زمانہ میں وہ اکیلا اخبار تھا چند سال پہلے حیدر آباد کے سیاست نے بنگلور سے نکلنا شروع کیا لیکن سالار کی مقبولیت اپنی جگہ ہے اور پورے کرناٹک میں وہ پڑھا جاتا ہے۔ اس میں ہر دن اور کبھی دوسرے دن ہمارا مضمون ضرور چھپتا ہے اور بہت بڑا حلقہ ہے جو مضمون پڑھ کر فون کرتا ہے۔ ہم نے کرناٹک کے الیکشن کے زمانہ میں کسی بھی موضوع پر کچھ لکھا اور وہاں سے جو فون بھی آیا اس سے معلوم کیا کہ الیکشن کے بارے میں کیا اندازہ ہے؟ جواب دینے والوں کی اکثریت نے کانگریس کی کامیابی کی بات کہی۔ ان میں جس کے بارے میں اندازہ ہوا کہ وہ سیاسی ذہن کے ہیں ان سے جنتادل کے بارے میں معلوم کیا تو ان میں سے اکثر کا جواب یہ تھا کہ اس کا ایک علاقہ ہے وہ پورے کرناٹک میں نہیں ہے۔ اور کسی نے نہ تو یہ کہا کہ بی جے پی کی حکومت بنے گی اور نہ یہ کہا کہ جنتا دل 40  کے قریب سیٹیں لے آئے گی۔ جو حضرات مسلسل کہہ رہے ہیں کہ کانگریس کو جنتا دل سے الیکشن سے پہلے سمجھوتہ کرنا چاہئے تھا انہیں اس کا اندازہ نہیں ہے کہ یہ راہل کی غلطی نہیں ہے۔ یہ وزیراعلیٰ اور عام فضا کا اثر تھا کہ کانگریس کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔

مودی جی ہر الیکشن میں مسلمانوں کو اور اگر گجرات جیسا صوبہ ہو تو سیکولر ہندوئوں کو نشانہ بناتے ہیں اس کوشش سے انہیں کتنے ہندو ملتے ہیں یہ تو وہ جانیں لیکن مسلمان لنگر لنگوٹ کس کر کانگریس کے اُمیدوار کو جتانے میں لگ جاتاہے۔ اور یہ بات راہل گاندھی یا سونیا جی شاید نہیں جانتے کہ الیکشن میں دس مسلمان دس ہندوئوں کے برابر نہیں ہوتے بلکہ 25  ہندوئوں کے برابر ہوتے ہیں۔ وہ اپنی بے روزگاری مفلسی اور جذباتیت کی وجہ سے ہر الیکشن کو زندگی کا مقصد بنا لیتے ہیں۔ ہم جنوبی ہند کی تو بات نہیں کرتے شمالی ہند میں یہ ہوتا ہے کہ ہندو محلوں میں کم لوگ یاد رکھتے ہیں کہ کس پارٹی کا اُمیدوار کون ہے؟ اور مسلمان محلوں میں گھر کی باپردہ عورتوں کو بھی معلوم ہوتا ہے کتنی پارٹیاں لڑرہی ہیں اور اُمیدوار کون کون ہے؟ کانگریس کے م افضل، غلام نبی آزاد اور صوبوں کے مسلم لیڈروں کا یہ فرض ہے کہ مسز سونیا گاندھی کی اس ذہنیت کو بدلیں اور راہل گاندھی کو سمجھائیں کہ مسلمانوں کو ساتھ لئے بغیر وہ کبھی واپس نہیں آئیں گے اور مسلمان ایک دفعہ آگیا اور اسے زخم نہ لگے تو وہ ایک طاقت ہوگا اور ہندو جس کے لئے وہ ساری پونجی لٹائے دے رہے ہیں وہ مودی یا رام مادھو کی ایک آواز پر آپ لوگوں کو چھوڑکر چلا جائے گا۔ کانگریس کو اگر آخری جنگ لڑنا ہے تو ہر ذمہ داری دیتے وقت یہ دیکھیں کہ وہ کتنا سیکولر ہے اور مسلمانوں اور دلتوں کو پورے اعتماد میں لیں صرف احمد پٹیل ایسے نہیں ہیں جو سیاسی مشیر بن سکیں ایسے بہت سے مسلمان ہیں جن کو ذمہ داری دی گئی تو وہ دکھا دیں گے کہ وہ کیا کرسکتے ہیں ؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔