ہم صحافی ہیں!

مدثراحمد

ہرسال یکم جولائی کو ملک بھر میں یوم صحافت منایا جاتاہے اور مختلف صحافی تنظیمیں اپنے وجود کا مظاہرہ کرنے اور اپنوں کے ساتھ کچھ وقت بتاتے ہوئے اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ہم صحافی ہیں اور سماج کے ذمہ داروں میں سے ہیں۔ صحافت ایک ایسا پیشہ ہے جس میں کام کرنے والے لوگ خود تو کم خوش رہتے ہیں لیکن دوسروں کی خوشی، غم، اچھے اور بر ے میں برابر کے شریک رہتے ہیں لیکن وہ اپنی شراکت کو ظاہر کئے بغیر ہی سب سے زیادہ محسوس کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ صحافت کو ایماندار اور شفاف پیشہ کہا جاتاہے اور اس پر عوام کا اعتبار ہوتا ہے، حالانکہ اس پیشے میں بھی بے ایمانوں اور مفاد پرستوں کی کوئی کمی نہیں ہے مگر چند ایک کی بات کو لے کر سب کو ایک ہی نظر سے دیکھنا درست نہیں ہے۔

فی الوقت دنیا بھر میں جنگیں چل رہی ہیں وہ بندوق، تلوار اور توپوں سے نہیں بلکہ اس سے خطرناک ہتھیار قلم سے کی جارہی ہیں اور قلمی جنگوں کی زد میں آج پوری دنیا آچکی ہے۔ ہم مانتے ہیں کہ آج دیانتدار اور سچے صحافیوں کی کمی ہے باوجود اسکے آج بھی لوگ صحافت سے پر امید ہیں کیونکہ بے ایمان اور جھوٹے صحافیوں کے درمیان کچھ حق پر ست و ایماندار صحافی بھی کام کررہے ہیں۔ دنیا بھر میں ہم جو حالات دیکھ رہے ہیں ان حالات میں اب اپنے آپ کو بھی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ جس طرح سے ہم نئی نسلوں کو ڈاکٹر، انجنیئر اور سائنسدان بنانے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں اسی طرح سے ہمارا مہذب معاشرہ اپنی نئی نسلوں کو صحافت کی باگ ڈور سنبھالنے کے لئے تیار کریں تو یقینا اچھے معاشرے کی بنیاد پڑ سکتی ہے۔

ویسے دیکھا جائے تو صحافی اپنے مفاد ات سے زیادہ دوسروں کے مفادات کی خاطر کام کرنے والوں میں سے ہوتے ہیں، یہ اپنے پڑھنے والوں سے صرف اس بات کی چاہ رکھتے ہیں کہ انکے لکھے ہوئے مضامین و تبصروں و خبروں پر اپنے تاثرات پیش کریں، اپنے خیالات کااظہار کریں اور جو لکھا گیا ہو اس کااثر ہواور اسکے منفی نتائج سامنے آئیں۔ جنگ آزادی کے موقع پر مجاہدین آزادی کا سب سے بڑا ہتھیا ر ہی صحافت تھا، تاریخ کا جائزہ لیاجائے تو ہمارے سامنے ایسی سینکڑوں مثالیں آئینگی جو صرف مجاہدین آزادی ہی نہیں بلکہ مجاہد قلم بھی تھے۔ مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا شوکت علی جوہر، مولانا محمدعلی جوہر جیسے صحافیوں نے اپنے قلم سے قوم کو انگریزوں کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے کام کیا آج بھی اسی طرز پر ملک کے حالات کو سدھارنے کے لئے سینکڑوں صحافی اپنے قلموں کی روشنائی بکھیر رہے ہیں لیکن افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ہمارے ملک میں اب ان جذبات کو رکھنے والے لوگوں کی کمی آچکی ہے، اب تک لوگ یہ کہتے ہیں کہ لکھنے والا ہی کیوں نہیں کرتا ؟۔یقینا لکھنے والا بھی کرسکتاہے لیکن لکھنے والا ہی کرنے لگے تو باقی لوگ کیاکرینگے۔

آج ملک کے جو حالات ہیں ان پر جو کچھ اخباروں میں لکھا جارہاہے، ٹیلی ویژن میں بتایا جارہاہے ان سب کو دیکھتے ہوئے اب تو عوام کو خود آگے بڑھ کر آنا چاہئے۔ فاشزم کا جو عروج ہورہاہے اس پر لگام لگانے کی اشد ضرورت ہے۔ رویش کمار، راج دیپ سر دیسائی، عزیز برنی، سہیل انجم جیسے لوگ اپنے قلم کا زور دار استعمال کرتے ہوئے عوام میں بیداری لانے کی کوشش کررہے ہیں، قلم کی چھبتی ہوئی نوک سے عوام کو اس بات کااحساس دلایا جارہاہے کہ اب سونے کا نہیں جاگنے کا وقت ہے مگر افسوس صد افسوس اب ہم صحافیوں کا قلم بھی بس انٹر ٹائنمنٹ ہوچکاہے۔

گوری لنکیش، شجاعت انصاری جیسے صحافی حق کے لئے اپنا خون بہا چکے مگر انکا خون عوام کے لئے دو منٹ کے مورن کے علاوہ کچھ اہمیت کا حامل نہیں رہاہے۔ سوچئے صحافی دوسرے پیشہ وروں کی طرح مالدار نہیں ہوتے، عوام کو بیدار کرنے سے انکا پیٹ نہیں بھرتا، انکے قلم سے نکلنے والے الفاظ تفریح کا سامان نہیں ہوتا، وہ اپنی جانوں کو دائو پر لگاکر اپنا کام کرتے ہیں۔ اپنے اہل خانہ کو اتنا وقت نہیں دیتے جتنا عوام کے لئے وقت نکالتے ہیں۔ اپنے گھر کے مسائل سے بڑھ کر انہیں سماج کے مسائل کو عوام کے سامنے پیش کرنا ہوتا ہے یہ سب وہ اپنے لیے نہیں بلکہ سماج کے لئے کرتے ہیں اگر سماج چاہتاہے کہ صحافیوں کا حق ادا ہوتو اسکے لئے سماج کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ حق کے لئے لکھے جانے والے ہر لفظ کا ساتھ دے۔ ہر بات کو اپنے ساتھ ہونے والی بات سمجھ کر کام کرے۔

یقینا ایسا کرنے سے سماج میں بہتری آسکتی ہے اور سماج بدل سکتاہے۔ چند ایک بکے ہوئے صحافیوں کا موازنہ ایماندار اور سچے صحافیوں کے ساتھ ہر گز بھی نہ کریں۔ اکثر ہم نے سنا ہے کہ اخبار والوں کا کیا ہے کسی کوبھی ڈرا دھمکا کر پیسے وصول کرلیتے ہیں، ہاں ایسے بھی صحافی ہمارے درمیان ہیں لیکن ہم انہیں صحافی نہیں بلکہ دلال کہتے ہیں ایسے دلالوں کے ساتھ ایماندار صحافیوں کا موازنہ کرنے سے ایماندار صحافیوں کے حوصلے پست ہوجاتے ہیں۔ ہم بس اتنا کہنا چاہینگے کہ موجود ہ دور کے طاقتور ہتھیار صحافت کا صحیح استعمال کرتے ہوئے حق کی لڑائی لڑیں۔ ایماندار و سچے صحافیوں کا ساتھ دیتے ہوئے ایسا انقلاب برپا کریں کہ فاشزم کا خاتمہ ہوجائے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. Shakeel Ahmed Khan کہتے ہیں

    Good article.

تبصرے بند ہیں۔