ہم مایوس نہیں ہیں، لیکن..!

عالم نقوی

گنتر ولیم گراس جرمنی کے   ایک مشہور  ہمہ جہت ادیب، شاعر، مصور اور ناول نگار  دانشور تھے۔ ۱۹۹۹ میں انہیں ادب کا نوبیل انعام ملا تھا۔ تین سال قبل اٹھاسی برس کی عمر میں ۱۳ اپریل ۲۰۱۵ کو جرمنی ہی میں ان کا انتقال ہو گیا۔ کافی عرصہ ہوا ان کی ایک نظم پڑھی تھی۔ داشتہ آید بکار والے ذخیرہ کاغذات میں آج وہ پرچہ نکل آیا۔ اب پہلے اس آزاد نظم  کا آزاد اردو ترجمہ پڑھ لیجیے:

’’وہ،جو ضرور کہا جانا چاہیے۔ ۔ اپنے احتجاج میں تنہا کیوں ہوں ؟ آخر میں اپنی اس ضعیف ا لعمری میں۔ روشنائی کے آخری قطروں کے ساتھ۔ اپنے احتجاج میں تنہا کیوں ہوں ؟۔ اسرائیل کی ایٹمی طاقت خطرناک ہے۔ اُس اَمنِ عالَم کے لیے۔ جو پہلے ہی سے کمزور ہے۔ ۔ آج یہ احتجاج اس لیے ضروری ہے کہ کل کہیں بہت دیر نہ ہو جائے ! ‘‘

جاوید چودھری نے  اپنے ایک حالیہ کالم میں لکھا ہے کہ ۵۹۰ ء میں لیتھولک  کلیسا کے اسقف اعظم پوپ گریگوری اول نے سات خوفناک گناہوں کی فہرست جاری کرتے ہوئے بتایا تھا کہ انسان اگر  لالچ، ہوس، بسیار خوری، کاہلی، شدید غصہ، حسد اور تکبر   سے باز رہے تو شاندار، بھر پور اور مطمئن زندگی گزار سکتا ہے۔ گاندھی جی نے ۱۹۲۵ ء میں سات سماجی گناہوں کی فہرست جاری کرتے ہوئے لکھا  کہ کوئی بھی معاشرہ ان اجتماعی گناہوں سے اجتناب کیے بغیر ایک اچھا معاشرہ نہیں بن سکتا۔ وہ  ساری زندگی ایک مثالی سماج کی تعمیر کے لیے کوشاں رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اصولوں کے بغیرسیاست، کام کے بغیر دولت، ضمیر کے بغیر خوشی، کردار کے بغیر علم، اخلاقیات کے بغیر تجارت، انسانیت کے بغیر سانس ، اور قربانی کے بغیر عبادت گناہ ہیں۔

اسی طرح مہاتما گاندھی کے ہم عصر قائد اعظم نے  بھی اپنے پیَرَوُوں کے سامنے ایک مثالی نمونہ پیش کیا لیکن افسوس یہ ہے کہ دونوں کے نام لیواؤں نے اپنے لیڈروں کی ایک نہ سنی ۔ قائد اعظم نے پوری زندگی وقت کی پابندی کی۔ کبھی کوئی قانون نہیں توڑا۔ کبھی رشوت نہیں لی اور نہ کبھی کسی کو  رشوت دی۔ انہوں نے کبھی متعصبانہ اور غیر عادلانہ اقربا پروری نہیں کی۔ پوری زندگی اپنے مذہبی رجحانات کی نمائش بھی نہیں کی۔ عہد اور وعدے کی پابندی جان سے بڑھ کی۔ کبھی کوئی معاہدہ نہیں توڑا۔ کبھی سرکاری  پروٹوکول نہیں لیا اور کبھی سرکاری رقم نہیں کھائی۔ کبھی ٹیکس کی  چوری نہیں کی۔ کبھی اپنی آمدنی نہیں چھپائی۔ کبھی اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ کبھی کسی کا حق نہیں مارا۔ اور پوری زندگی کبھی کسی شخص کے ساتھ بد تمیزی نہیں کی۔

لیکن ہم دوسروں کے جھوٹ اور منافقت کا رونا کیا روئیں کہ ہم جو صادق و امین اور رحمت للعالمین نبی کی امت اور کتاب ہدایت کے وارث ہیں پوری دنیا میں دو عملی اور منافقت کے شکار ہیں۔ ہم وہ ہیں جن کا ایمان  ہمارے منہ اور حلق سے نیچے نہیں اتر سکا ہے، اسی لیے عمل اور کردار میں اس کا پرتو نظر نہیں آتا۔ ہم تبلیغ  دین، اور جہاد  فی سبیل اللہ کے نام پر بغیر حق، بیشتر اپنے ہم مذہبوں ہی کا خون بہاتے پھرتے ہیں اور جب  بھی کفر و شرک اور ظلم و منافقت کے خلاف ’قیام ‘ کا وقت آتا ہے  تو عبادت کے نام پر سجدے میں گر جاتے ہیں ! اقبال ؒ نے جو بات قریب سو سال قبل کہی تھی وہ نہ صرف آج بلکہ ہماری ہزار سالہ تاریخ کا حصہ ہے کہ ؛

یہ مصرع لکھ دیا کس شوخ نے محراب مسجد پر

یہ ناداں گر گئے سجدے میں جب وقت قیام آیا !

 موجودہ حالات میں جن کی سنگینی میڈیا پر ہمیشہ حاوی رہتی ہے، مغرب سے مشرق اور شمال سے جنوب تک غیر مسلمین میں بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جنہیں اسلام سے  خوف تو درکنار کوئی شکایت  بھی نہیں،انہیں شکایت ہے اور ڈرتے ہیں تو صرف اُن مسلمانوں سے جو بے عمل ہیں جن کے کردار میں کتاب ہدایت قرآن اور نبی کریم ﷺ کے اُسوَہءِ حسنہ کی کوئی جھلک نظر نہیں آتی !

البتہ ہم مایوس اس لیے نہیں  اور اپنی امکانی کوشش کو اس لیے ترک نہیں کرتے کہ وہ حی و قیوم رب کائنات سب دیکھ رہا ہے اس کے احاطہ ء علم سے کچھ باہر نہیں۔ اُسی نے مستضعفین فی الا رض  سے  دنیا کی  امامت  کا وعدہ کیا ہے جو کل نہیں تو پرسوں پورا ہو کے رہنا ہے،ان شا ء اللہ ۔

ہم اپنا یہ کالم بزرگ محترم پیام اعظمی کی اس نظم پر تمام کرنا چاہتے ہیں جو انہوں نے نظیر اکبرآبادی کی کی مشہور نظم ’سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارہ ‘ کے وزن و آہنگ پر کہی ہے :

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب آنے والا آئے گا

اک روز یہ منظر بدلے گا اک دن یہ چمن لہرائے گا

یہ دھرتی سونا اُگلے گی، یہ چرخ گُہر بر سائے گا

گلشن میں چلے گی ایسی ہوا سب دور خزاں مٹ جائے گا

 اکدن یہ نظام ظلم و ستم خود ظالم کو رُلوائے گا

خنجر کا کلیجہ کانپے گا تلوار کا سر چکرائے گا

سب ٹھاٹھ پڑا رہجائے گا جب آنے والا آئے گا

کیا تیرو کماں کیا نوک ِ سِناں، کیا گُرز ِ گراں کیا تیغ ِ دو دَم

 کیا ٹینک اور کیسے میزائل کیا راکٹ کیسے ایٹم بم    

 سامانِ ہوس اسباب ستم ظالم کی زباں رُشدی کا قلم

 انساں کا لہو پینے والے انسان کی صورت میں یہ صنم

کھل جائگا ایک اک کا بھرم جب پردہ وہ سرکائے گا

 سب ٹھاٹھ پڑا رہجائےگا جب آنے والا آئےگا

 گونجے گی صدائے جَعَلَ حَق جب سورج چاند ستاروں سے

 کچھ کر نہ سکیں گے اہل ہوس جب مصنوعی سیاروں سے

 ٹکرائیں گے خود ہی آپس میں جب ظیارے ظیاروں سے

 دم بھر میں نکل جائےگی ہوا طاقت  سبھی کے غباروں سے

 جب زور ِاِلٰہی کا وارث  اپنے طاقت دکھلائے گا

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب آنے والا آئے گا۔

چھوٹے گا طلسم ِ لعل و گُہر، پھوٹے گا مقدر ڈالر کا

 نیزوں کی چمک بجھ جائے گی، بہہ جائے گا پانی خنجر کا

اے اہل جفا کیوں کرتے ہو یوں چرچا  اپنےلشکر کا

 تم مرحب و عنتر کے بیٹے، وہ لعل ہے شیر ِداوَر کا

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب آنے والا آئے گا

مانا کہ ابھی ہیں تشنہ دہن صحرا صحرا گلشن گلشن

 مانا کہ ہیں صدیوں کے پیاسے یہ لعل و گہر یہ سرو سمن

پتی پتی ہے خشک چمن ڈالی ڈالی ہے تشنہ دہن

اللہ کی رحمت سے لیکن مایوس نہ ہوں ارباب چمن

وہ بادل اُٹھنے والا ہے جو سب کی پیاس بجھائے گا

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب آنے والا آئے گا !  

تبصرے بند ہیں۔