دینی مدارس: اہمیت، افادیت، ضرورت اور اصلاح

مسعود جاوید

دینی مدارس کی اہمیت اور افادیت کے موضوع پر کئی بار لکھ چکا ہوں لیکن آج ایک سوال مجھے پریشان کر رہا ہے کہ میاں  مدارس کی دفاع میں لکهتے ہو لیکن  کبھی ان کی اصلاح کی ضرورت پر اربابِ حل و عقد کی توجہ مبذول کرائی۔ کیا ان کی افادیت اور اہمیت کے ہیش نظر ان کی کوتاہیوں خامیوں اور ان مدارس کے بعض عہدیداروں کی غیر ذمہ دارانہ حرکتوں کو نظر انداز کردیا جائے؟  زخم پر نشتر لگانا  اس کا  بہتر علاج ہے  جبکہ نظر انداز کرنے سے  زخم اندر اندر سڑکر septic ہوجاتا ہے۔

پس منظر

ہندستان میں 1857 انقلاب برپا کرنے والوں میں علماء کی ایک بڑی جماعت پیش پیش تهی ( بغاوت اور غدر کا لفظ استعمال کرنے سے احتراز کرنا چاہیئے۔ انگریزوں کی نظر میں یہ غدر اور بغاوت تھا اس لئے انہوں نے اس کو mutiny کہا جبکہ ہم  اپنے ملک پر غیرملکی استعمار کے خلاف ایک جائز احتجاج کررہے تهے اس لئے وہ انقلاب تها۔لیکن افسوس ہمارے مورخین اور مصنفین  بهی اسے غدر ہی لکهتے رہے) اسی لئے انقلاب کی ناکامی کے بعد جب چہار دانگ ہند میں انگریزوں کا تسلط قائم ہوگیا تو علماء کی ایک بڑی تعداد کو انگریزوں نے قتل کر دیا پھانسی پر لٹکا دیئے گئے اور جو بچ گئے انہیں گرفتار کرکے کالا پانی مالٹا اور  جزیرہ انڈمان بهیج دیا گیا۔ دہلی اور آس پاس کے معزز خاندان تباہ ہو گئے مزید یہ کہ استعماری حکومت نے  ایک طرف اوقاف، جن کی آمدنی سے دینی درسگاہیں چلتی تھیں، ضبط کر لیا اور دوسری طرف مشنریاں عیسائیت کی تبلیغ شروع کردی۔پادریوں کی بہت بڑی جماعت یہاں بلائی گئی جو اسلام کو چیلنخ اور مسلمانوں کو مرتد کرنے کی مشن پر لگائی گئی تھی۔

اس پر آشوب دور میں جب ہندستان میں اسلام کی بقا کی کوئی ضمانت بظاہر نہیں تهی، مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ نے ہندوستانی مسلمانوں کی دینی تشخص کو بچانے کے لیے 21 مئی 1866 میں دیوبند میں ایک ” مدرسہ اسلامی عربی” کی بنیاد رکھی ایک انار کے درخت کے نیچے ایک استاذ اور ایک  طالب علم سے مدرسہ شروع کیا گیا جو بعد میں  دارالعلوم بنا -ایک تناور درخت جس کی شاخیں نہ صرف بر صغیر ہند بلکہ دنیا کے بے شمار ممالک میں پائی جاتی ہیں۔

مدرسے کا نصاب

دارالعلوم دیوبند کا نصاب خالص دینی کیوں تجویز کیا گیا ؟  اس بارے میں حضرت نانوتوی رح نے فرمایا :
"علوم جدیدہ کو شامل نہ کرنے کے منجملہ دیگر اسباب کے ایک بڑا سبب اس بات کا ایک تو یہ ہے کہ تربیت عام ہو یا خاص اس پہلو کا لحاظ چاہیئے جس طرف سے ان کے کمال میں رخنہ پڑا ہو۔ سو اہل علم پر روشن ہے کہ آج کل تعلیم علوم جدیدہ تو بوجہ کثرتِ مدارس سرکاری اس ترقی پر ہے کہ علوم قدیمہ کو سلاطین زمانہ سابق میں بهی یہ ترقی نہیں ہوئی ہوگی۔ ہاں علوم نقلیہ کا یہ تنزل ہوا کہ ایسا تنزل بهی کسی کا زمانہ میں نہ ہوا ہوگا۔ ایسے وقت میں رعایا کو مدارس علوم جدیدہ کا بنانا تحصیلِ حاصل نظر آیا۔۔ ۔۔ دوسرے یہ کہ زمانہ واحد میں علوم کثیرہ کی تحصیل سب علوم کے حق میں باعثِ نقصان استعداد ہوگی۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ تحصیل علوم جدیدہ کی ترغیب :    "اس کے بعد طلبہ مدرسہ ہذا کو  مدارس سرکاری میں جا کر علوم جدیدہ میں کمال پیدا کرنے کی سعی جاری رکهنی چاہیئے”(روداد 1290هجری)

کیا انگریزی زبان سیکهنا حرام ہے؟ 

جس دور میں یہ بات کہی گئی ہوگی اس کی وجہ سمجھ میں آتی ہے۔ برطانوی سامراج جب دین اسلام اور عقیدتا مسلمانوں کو مٹانے کے درپے تها تو انگریزی لباس انگریزی زبان اور انگریزی طور طریقے کی مخالفت کی گئی تاکہ سادہ لوح مسلمان جب عقلی دلائل سے مطمئن نہیں ہورہے ہوں تو مذہبی حلت و حرمت کا سہارا لے کر مسلمانوں کو عیسائیت کی طرف راغب ہونے سے روکا جا سکے۔ سفر کے لئے نکلنے سے قبل دہی کهانے سے معدہ درست رہتا ہے سفر میں اسہال ہوجائے تو کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن اس پر کم لوگ ہی توجہ دیتے ہیں اور عمل کرتے ہیں مگر غیر مسلموں کے یہاں سفر سے پہلے دہی کهانا نیک شگون ہے اب غیر مسلم خاص طور پر جو لوگ دهارمک  مذہبی ہوتے ہیں وہ دہی کها کر نکلتے ہیں۔ انگریزوں کی ظلم و زیادتی امرتسر قتل عام میں 400 لوگوں کی موت جیسے واقعات کو دیکھتے ہوئے گاندھی جی نے نمک اور برطانیہ سے درآمد اشیاء کا بائیکاٹ کا اعلان کیا اس ک خرید اور استعمال لوگوں نے چهوڑ دیا۔۔ ۔۔۔۔۔

علت اور معلول۔ ۔۔۔۔ لیکن جب وہ علت ختم ہوگئی تو معلول خود بخود رفع ہو جاتا ہے۔ لوگوں نے غیر ملکی اشیاء خریدنا اور استعمال کرنا شروع کردیا۔ لیکن افسوس انگریزوں سے نفرت اور انگریزی زبان کی حرمت کی علت ختم ہونے کے باوجود علماء نے اپنی سہولت کی خاطر اسے برقرار رکها۔ اسی لئے مدارس دینیہ کے نصاب میں انگریزی اور عصری علوم کو شامل نہیں کیا۔ جن اسباب کے مدنظر بانی دارالعلوم رح نے انگریزی ور علوم جدیدہ کو شامل نہیں کیا ان میں سے :

(1) بیشتر اسباب اب نہیں رہے۔ (2) ملک اب وہ ملک نہیں رہا جس میں اردو زبان اور مسلم تہذیب و تمدن کی حکمرانی ہو۔ اب یہ ایک آزاد خود مختار جمہوری سیکولر ملک ہے جس میں اکثریت غیر مسلموں کی ہے یہاں  کی سرکاری زبان ہندی ہے اور شمالی ہند کی بڑی آبادی ہندی لکهتی اور بولتی ہے جبکہ دوسرے صوبوں میں وہان کے لوگوں کی مقامی زبان ہیں مگر پورے ملک میں رابطہ کی زبان انگریزی ہے۔ (3) ایک ذمہ دار شہری ہونے کے لئے ضروری ہے کہ مندرجہ ذیل موضوعات کی بنیادی معلومات سے واقف ہوں۔ علوم مدنیہ Civic Science,   سماجیات Social Science,  تاریخHistory اور سب سے اہم دستور ہند Constitution of India اس کے علاوہ ہندستانی مذاہب و تہذیب Indian Religions Cultures General Knowledge , English اور Computer یہ موضوعات سال سشم سے قبل پڑهادی جائیں تاکہ اصل مقصد علم تفسیر، علم حدیث اور علم فقہ کے لئے سال سشم ہفتم اور دورہ کو فارغ رکها جائے۔

ایک دوسری وجہ یہ بهی ہے کہ دینی مدارس عوام کے چندہ کی رقم سے چلتے ہیں اور بعض چندہ دہندگان، اللہ ان کو جزائے خیر دے، کی تاکید ہوتی ہے کہ ان کی رقم محض دینی علوم کی تدریس پر صرف ہو۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان اصحاب خیر کو ذہن نشین کرایا جائے کہ قرآن و احادیث کی تعلیم سے اچها ایمان اور ضروری عصری تعلیم سے اچها انسان، ذمہ دار شہری اور اپنی کفالت کے لئے روزگار کا اہل بنانا بهی دینی کام ہے۔ مدرسوں سے فارغ التحصیل حضرات میں سے کتنے کو مدارس میں معلمی کی جگہ اور مساجد میں امامت کی جگہ مل سکتی ہے؟  ظایر ہے جب آسامیاں خالی نہیں ہوں گی تو یہ اپنے لئے خود مدرسہ کھول کر بیٹھ جائیں گے۔ ان کو خود کفیل بنانا اور  social empowerment کی بہترین شکل یہی ہے کہ ان کو مزید عصری تعلیم حاصل کرنے کے لائق بنایا جائے۔ تفقه فی الدین سب سے مطلوب نہیں ہے بلکہ ایک گروہ سے ولتکن منکم طائفة يتفقہون فی الدین۔ یہ گروہ اختصاص کرے اور فقیہ مفسر محدث  اور مفتی اور ادیب بنے باقی طلباء بنیادی اسلامی تعلیم کا ماہر ہوں جو کالج میں تجارت میں ملازمت میں رہتے ہوئے اپنے اخلاق اور علم سے دین کی تبلیغ کرے۔   (باقی آئندہ انشاءاللہ)

تبصرے بند ہیں۔