دار القضاء

مدثر احمد

طلاق ثلاثہ، خلع اور حلالہ جیسے معاملات جیسے ہی ہندوستانی حکومت کے درمیان باعث بحث بنے، اس کے بعد مسلم علماء اور دانشور ان کے حلقے میں ان شرعی امور کو لیکر بے چینی بڑھ گئی۔ حالانکہ ماضی میں بھی شاہ بانو مقدمے کے بعد ہندوستانی علماء، مسلم پرسنل لاء بورڈ اور عام مسلمانوں میں اس مدعے کو لیکر ایک تحریک چلی، جس میں مسلمانوں کو کامیابی حاصل ہوئی اور شاہ بانو کا معاملہ ہندوستانی پارلیمان میں نظر انداز ہوگیا۔ یہ بات اور ہے کہ شاہ بانو نے اس معاملے اورمقدمے کے بعد علماء سے رجوع کرتے ہوئے معافی مانگ لی تھی۔ لیکن اب پچھلے پانچ سالوں سے ہندوستان میں اگر مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے تو طلاق، خلع اور حلالہ کا رہ گیا ہے۔

ہندوستانی حکومت نے مسلم عورتوں کو آزادی نسواں اور حقوق نسواں کے نام پر ان تین مدعوں کو لیکر جس طرح سے ورغلایا ہے وہ شرمناک بات ہے۔ حالانکہ ہندوستان کے20 کروڑ مسلمانوں میں شایدہی 20 لاکھ مسلمان عورتیں ایسی ہونگی جو طلاق اور خلع کے مسئلہ سے متاثر ہوئی ہوں یا پھر اس سے بھی کم ہوئی ہوں۔ مگر ملک کے وزیر اعظم اورمرکزی وزیر برائے اقلیتی امور کو بس ان طلاق شدہ و ْخلع حاصل کرنے والی خواتین کی فکر ستانے لگی ہے۔ سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کے دورِ اقتدارمیں جسٹس سچر کمیٹی اور جسٹس رنگناتھ مشرا کمیٹی نے ہندوستانی مسلمانوں کے حالات پر تفصیلی رپورٹ پیش کی تھی، اس رپورٹ میں بتایاگیا تھا کہ ہندوستانی مسلمان روزگار، تعلیم، صحت کی سہولیات اور مذہبی تعصب کا شکار ہیں، ان کی باز آباد کاری کرنے اور انہیں پسماندہ طبقے سے ترقی یافتہ طبقے میں شمار کرنے کیلئے ریزرویشن، تعلیمی سہولیات، روزگار کے مواقع دینے کی ضرورت ہے۔ لیکن ان دونوں ماہرین نے اپنی رپورٹ میں کہیں بھی اس بات کاتذکرہ نہیں کیاکہ ہندوستانی مسلمانوں کو طلاق کے معاملے میں سہولت دی جائے، باوجود ا س کے نہ تو یوپی اے حکومت نے اس سمت میں کوئی خاص توجہ دی او رنہ ہی بی جے پی حکومت نے ان کمیٹیوں کی سفارشات کو بروئے کار لانا صحیح سمجھا۔ اب سچر کمیٹی اورر نگناتھ مشر اکمیٹی کی سفارش ردی کی ٹوکری میں جانے لگی ہے اور یہ سفارشات تاریخ کاباب بن جائینگی۔

ہندوستانی مسلمانوں کو جن چیزوں کی سہولت درکار ہے، ان پر حکومتوں کی توجہ کم ہے لیکن جن چیزوں کو خود اسلام نے سب سے نا پسندیدہ عمل قرار دیاہے اسی ترجیح دی جارہی ہے۔ ان معاملات میں نہ صرف حکومتیں اپنی سیاست کررہی ہیں بلکہ ہم مسلمان بھی آئے دن ان باتوں کو لیکر نہایت سنجیدہ ہونے لگے ہیں۔ حال ہی میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈکی خصوصی نشست کے بعد بورڈکے ایک رکن نے ہر ضلع میں دارالقضاء کے قیام کے تعلق سے بیان دیا، جس کے بعد سنگھ پریوار، حکومتی اداروں اور سیاستدانوں کے درمیان اس بات کو لیکر ایک لمبی بحث چھڑ گئی اور مسلم پرسنل لاء بورڈکے اس فیصلے کی مذمت کی جانے لگی۔ دراصل آج مسلمانوں کے درمیان دارالقضاء کے مراکز قائم کرنے کے بجائے موجودہ دارالقضاء کو موثر و بہتر بنانے کی ضرورت ہے، ہم دیکھ رہے ہیں اکثر و بیشتر دارالقضاء آج شرعی اعتبار سے کام کرنے کے بجائے مخصوص طبقوں کیلئے کام کررہے ہیں، بعض دارالقضاء ایسے ہیں جہاں پر جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کی طرح  فیصلے سنائے جاتے ہیں اور کئی مقامات پر قاضیان صرف نام کیلئے رہتے ہیں اور فتوے، ہدایت و احکامات جاری کرنے والے دارالقضاء کی سرپرست کمیٹیاں ہوتی ہیں۔

ہم نے بعض مقامات پر ایسی شکایتیں سنی ہیں جن میں کہا جاتا ہے کہ فیصلوں کے عوض نقد و ہدیہ لازمی قرار دئیے گئے ہیں، اگر ہدیہ یا نقد نہ دیا جائے تو فیصلہ ہی نہیں ہوتا۔ ایسے ہی حالات کی وجہ سے آج خواتین اپنے علاقوں میں دارالقضاء ہونے کے باوجود عدالتوں ا ور پولیس اسٹیشنوں کا رخ کررہے ہیں جس کی وجہ سے عدالتوں میں فیصلے اکثر اسلامی قوانین کے خلاف ہوتے رہے ہیں۔ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ ہماری عدالتوں میں بیٹھنے والے معزز جج صاحبان کو شریعت مطہرہ کے تعلق سے علم نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ شرعی قوانین کے ماہرین ہوتے ہیں، ایسے میں فیصلے وکلاء کی دلیلوں کی بنیاد پر دئیے جاتے ہیں۔ کچھ مقامات پر کچھ مسلم وکلاء طلاق اور خلع جیسے مقدموں کی جہاں پیروی کرتے ہیں وہ شریعت کو جاننے کے باوجود اپنے مؤکل کے حق میں لڑتے وقت یہ بات بھول جاتے ہیں کہ ان کی دلیلیں خلافِ شریعت بھی ہیں۔

خلع کے معاملے میں اگر شرعی احکامات کاجائزہ لیا جائے تو خلع لینے والی عورت کو خلع لینے کے بعد مہر واپس کرنا پڑتا ہے، اگر مرد چاہے تو اس مہر کو وہ عورت کیلئے ہی چھوڑ سکتا ہے۔ (صحیح بخاری5273کا حوالہ)۔ لیکن ہمارے یہاں طلاق لینے پر بھی مرد کو معاوضہ ادا کرنا پڑتا ہے اورخلع لینے پر بھی عدالتوں میں مرد کوکھینچ کراس قدر مجبور کردیا جاتا ہے کہ یہ عورت کو معاوضہ دے۔ بہت سارے ایسے واقعات عام ہورہے ہیں جس کی وجہ سے شریعت اور شرعی قوانین کی دھجیاں اُڑرہی ہیں۔ جب تک ان بنیادی مقامات پر اصلاح کا کام نہیں ہوتامفتیان، قاضی اور مسلم وکلاء میں ان شرعی امور وباریکیوں کے تعلق سے بیداری لائی نہیں جاتی اُس وقت تک دارالقضاء کو عام کرنے کا جو فیصلہ کیا گیا ہے وہ درست نہیں ہے۔

مسلم پرسنل لاء بورڈ کو نہ صرف دارالقضاء قائم کرنے کے تعلق سے توجہ دینے کی ضرورت ہے بلکہ نکاح، ازدواجی زندگی اور طلاق و خلع کے معاملات کی باریکیوں کو لوگوں میں عام کرنے کیلئے باقاعدہ مسجدوں کے منبروں کا استعمال کرنا چاہیے۔ آج مسجدوں کے بیشتر منبر ان بنیادی تعلیمات سے دور ہوگئے ہیں اور بعض تو آپسی رنجش و انانیت کے مرکز بنتے جارہے ہیں۔ اہل علم حضرات اس سمت میں فوری طور پر توجہ دیں تو مستقبل میں شایدہی دارالقضاء کی ضرورت نہیں پڑسکتی اور طلاق و خلع کے معاملات عام ہونے کے بجائے محدود ہوجائینگے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔