قصۂ یوسف: ایک ایمان افروز داستان

ابوفہد

سورۂ یوسف میں یوسف علیہ السلام کا قصہ شروع ہونے سے پہلےتین آیتیں بھی آئی ہیں جو گویا اس قصے کی تمہید ہیں، ان کا ترجمہ یہ ہے:

’’الف،لام،را۔ یہ روشن کتاب کی آیتیں ہیں۔ ہم نے اس (قرآن) کو عربی زبان میں نازل کیا ہے تاکہ تم سمجھ سکو۔ اے محمد! ہم تمہیں ایک بہترین قصہ سنا رہے ہیں، اس قرآن کے توسط سے، جو تمہاری طرف وحی کے ذریعہ نازل کیا جارہا ہے۔ آپ ابھی تک اس قصے (کی تفصیلات) سے واقفیت نہ رکھتے تھے۔ ‘‘

پہلی آیت میں یہ وضاحت ہے کہ یہ آیتیں جن کے توسط سے یوسف کا قصہ بیان ہونے جارہا ہے وہ روشن کتاب کی آیتیں ہیں،جو اپنے مفاہیم ومطالب کے اعتبار سے واضح اور اعلیٰ درجے کی کتاب ہے۔ یہ گویا اس قصے کے حقیقی ہونے کی سند ہوئی۔ یعنی یہ کوئی عام قصہ یاواقعہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک حقیقی قصہ ہے، جوقرآن کے ایک جزو کے طور پربیان کیا جارہا ہے۔

دوسری آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ لوگوں سے مخاطب ہے اور فرماتا ہے کہ ہم نے اس قرآن کو عربی زبان میں نازل کیا ہے تاکہ تم سمجھ سکو۔ یہاں عربی زبان کے بیان کی تخصیص کی تین وجوہات سمجھ میں آتی ہیں۔ ایک یہ کہ قرآن اہل عرب کی اپنی زبان میں نازل کیا گیا تھا نہ کہ کسی اور قوم کی زبان میں، جسےوہ سمجھ نہ سکتے ہوں۔ دوسری یہ کہ عربی ایسی زبان ہے جونزول قرآن کے وقت اپنی ترقی یافتہ شکل میں تھی اور اپنی وسعت و نزاکت اور ادبی شان کی وجہ سے اس مرتبے پر فائز تھی کہ اس میںاعلی سے اعلیٰ اور نازک سے نازک مضامین و واقعات بیان کئے جاسکتے تھے۔ اور تیسری یہ کہ قرآن کی یہ آیتیں اسلوب ِ بیان کی سطح پر اعلیٰ ادبی معیار کی ہیں۔ بظاہر ایسی کوئی وجہ نہیں رہ گئی تھی، جسے بہانہ بناکر کوئی یہ کہہ سکتا تھا کہ یہ قرآن تو ہماری سمجھ میں ہی نہیں آتا۔

تیسری آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ حضرت محمد ﷺ سے مخاطب ہے اور فرماتا ہے کہ آج ہم تمہیں سب سے بہترین قصہ سنانے جارہے ہیں۔ یعنی ایسا قصہ جو حقیقی زندگی سے بھی تعلق رکھتا ہے اور اس میں دلچسپی کا بھی پورا سامان ہے۔ اس میں نصیحت بھی ہے اور تدبیر بھی۔ اس میں یہود ونصاریٰ کا جواب بھی ہے، حضرت محمد ﷺ کی تسلی کا سامان بھی ہے اور امت کے لیے یہ قصہ نشانِ راہ بھی ہے۔ کہ سخت سے سخت ترین حالات میں امت کو کیا رخ اختیار کرنا ہے۔ بحیثیت ایک فرد بھی اور بحیثیت ایک امت بھی۔

اس طرح پہلی آیت سورۂ یوسف کی آیات سے متعلق ہوئی، دوسری قرآن سےاور تیسری قصۂ یوسف علیہ السلام کے متعلق۔ ان تین آیتوں کے بعدیوسف علیہ السلام کاقصہ شروع ہوتا ہے، جسے خود قرآن نے ’احسن القصص‘ کہا ہے۔ یہ قصہ کئی لحاظ سے احسن القصص ہے ایک تو اس لحاظ سے کہ اس قصے میں واقعات نگاری کے تمام فنی لوازمات اور اسرار ورموز بھی پوری طرح بروئے کار لائے گئے ہیں۔ دوسرے اس لحاظ سے بھی کہ اتنی تفصیل اور اس قدر حسن وخوبی کے ساتھ خود قرآن میں بھی کوئی اورقصہ بیان نہیں کیا گیا۔ قرآن میں دوسرے انبیاءکے قصے بھی ہیں مگر وہ ایک تو مختصر ہیں اور دوسرے یہ کہ وہ متفرق اور منتشر بھی ہیں۔ نزولی اعتبار سےیہ قصہ یہود کے ایک سوال کا جواب ہے،بیانیے کے اعتبار سے ایک خواب اور اس کی تعبیرپر مشتمل ہے۔ پلاٹ کے اعتبار سے یہ کسی ناول کے پلاٹ کی طرح ہے اور تاریخی اعتبار سے ایک مستند تاریخی حوالہ بھی ہے۔ یہ قصہ ایک سچے خواب سے شروع ہوتا ہے اور پھر اس کے خواب کی تعبیر پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ اس میں ایک پوری تہذیب ہے اور کم وبیش دو نسلوں کے برابر امتداد زمانہ کو محیط ہے۔ اس قصے میں کئی اتار چڑھاؤ بھی آئے ہیں، کئی جگہ ایسا لگتا ہے کہ یہ قصہ یہیں ختم ہوجائے گا۔ مگر قاری کے خیال کے بر عکس قصہ آگے بڑھتا ہے اور اس کی حیرتوں میں اضافہ کرتا ہے۔

کئی قلم کار اس قصے کو حسن وعشق کے حوالے سے پیش کرتے ہیں مگر سچ یہ ہے کہ یہ قصہ ایک خوبرو نواجوان کی ایمان افروز داستان ہے۔ یہ داستان ہے اس کی اعلیٰ قابلیت کی، خدا داد ذہانت کی، تنظیم و تدبیر کی صلاحیت کی اورسب سے بڑھ کر اس کی پاکدامانی کی۔ یہ قصہ یوسف علیہ السلام کی خلوت وجلوت کی زندگی کو بیان کرتا ہے۔ اور یہ بتاتا ہے کہ یوسف علیہ السلام جب کنوئیں کی تاریکی میں بے یارومددگار تھے اور جب جیل کی چہار دیواریوں میں قید تھے وہ تب بھی اللہ کے ساتھ لو لگائےہوئے تھے اور جب ملک مصر کے سب سے اعلیٰ مقام پر فائز ہوگئے تب بھی وہ اللہ کے سامنے اسی طرح عاجزودرماندہ تھے۔ انہیں نہ تو کنوئیں کی تاریکی نے مایوس کیا، نہ جیل کی اونچی اونچی دیواروں نے ان کے ایمان میں نقب زنی کی اور نہ ہی کرسی وصدارت نے انہیں کبروغرور میں مبتلا کیا۔ وہ از اول تا آخر اللہ کے عاجز ودرماندہ بندے اور انسانوں کے غم گسار بلکہ خدمت گار بنے رہے۔

تبصرے بند ہیں۔