ماب لنچنگ: بویا وہی کاٹنا پڑیگا

ڈاکٹر عابد الرحمن

مودی جی کے وزیر اعظم بننے کے بعد گائے کے نام مسلمانوں کی جوماب لنچنگ شروع ہوئی تھی حکومت نے اسے روکنے کے لئے کوئی سخت اقدام نہیں کیا۔ وزیر اعظم بھی اس ضمن میں اول تو کافی عرصے تک خاموش رہے تھے پھر بولے بھی تھے تو اسکا کوئی اثر نہیں ہوا تھا اور وہ بھی بولنے سے آگے نہیں بڑھے تھے۔ کوئی سخت قانون نہیں بنایا تھا قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ریاستوں کو کوئی اسپیشل حکم نامہ جاری نہیں کیا تھا اور نہ ہی اپنے بول بے اثر ہونے کا کوئی نوٹس لیا تھا۔

 وجہ صاف ہے کہ ان کا مقصد بھی صرف بولنا تھا کیونکہ گائے کے نام پر مسلمانوں کے خلاف جب جب بھی کوئی کارروائی ہوگی چاہے وہ قانونی کارروائی ہو یا ورغلائی ہوئی بھیڑکی غیر قانونی کارروائی اسکا فائدہ مودی جی کی پارٹی بی جے پی اور ان کے اتحادیوں کو ہی ہوگا یہی وجہ ہے کہ مودی جی کے بولنے کے باوجود ان کی پارٹی کے لیڈران اور کارکن مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے نفرت انگیز مہم چلاتے رہے، پولس بھی مجرمین سے پہلے مظلومین اور مقتولین پر ہی کارروائی کرتی رہی۔ جو مقدمات درج ہوئے ان میں بھی ملزمین کی جانبداری کی خبریں آئیں۔ ان ساری باتوں سے لگتا ہے کہ بھیڑ کو گویا یہ پیغٖام دینا مقصود تھا کہ حکومت اسکے دھرم اور مذہبی عقائد کی محافظ ہے اور اس کے دشمنوں (مسلمانوں) کے خلاف اسکی ہر ممکن مدد کرنے کو بھی تیار ہے اور اس کا مقصد دراصل اپنا ہندو ووٹ بنک مضبوط کرنے اور اسے مسلمانوں سے ڈرا کر اور مسلمانوں کے خلاف اکساکر اپنے حق میں متحرک کرنے کا سوا کچھ نہیں۔

حکومت کے اس رویہ کی وجہ سے عوام میں لنچنگ ذہنیت مسلسل ترقی کرتی رہی انہیں یہ احساس ہوا کہ عوام کی اجتماعی کارروائی کے سامنے قانون کی کوئی حیثیت نہیں۔ اس ضمن میں ریاستی سرکاروں کا رویہ بھی مرکزی حکومت کی طرح خلاف معمول اوراپنی آئینی ذمہ داری کے بالکل الٹ رہا۔ ریاستی حکومتوں نے تو عزت مآب سپریم کورٹ کو بھی خاطر میں نہیں لایا۔ پچھلے سال سپریم کورٹ نے ریاستی سرکاروں کو حکم دیا تھا کہ وہ گؤ رکشا کے نام ہونے والی ماب لنچنگ کو روکنے کے لئے سخت اقدامات کریں اور ہر ضلع میں ایک سینیئر پولس افسر کو نوڈل افسر بنائے، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔اب اس ماب لنچنگ ذہنیت نے اپنا دائرہء کار بڑھا دیا ہے۔

 اب مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندو اور دوسری مذہبی اکائیوں کے لوگ بھی اس لپیٹ میں آنے لگے ہیں، پچھلے دو مہینوں میں بچہ چوری کی افواہ کے چلتے کم از کم بیس افراد ہجومی تشدد کا نشانہ بن کر ہلاک ہو چکے ہیں۔ اور اسی کے بعد ملک جاگا ہے سماج اور سول سو سائٹی کی آنکھ کھلی ہے اور احتجاج ہونے شروع ہو ئے ہیں۔ اسی کے بعد پولس کارروائیوں کی خبریں بھی آئی ہیں کہ ان معاملات میں پولس نے مظلوموں کے بجائے ظالموں پر کارروائی کر نے میں پہل کی ہے، ہجوم میں موجود زیادہ سے زیا دہ افراد کی گرفتاریوں اور ان میں سے بھی خاص ملزمین کی گرفتاری کی سنجیدہ کوششوں کی خوش کن خبریں بھی آئی ہیں جبکہ مسلمانوں کے خلاف گؤ رکشکوں کی دہشت گردی کے معاملات میں پولس کا رویہ اس کے بالکل الٹ ہوا کرتا تھا یا پھر انتہائی سرد۔مرکزی حکومت بھی اس معاملہ میں پریشان اور سنجیدہ دکھائی دے رہی ہے۔

اب تک کہیں نظر نہ آنے والی وزارت داخلہ بھی اچانک ظہور میں آگئی اور اس نے ریاستی سرکاروں اور مرکزکے زیر انتظام علاقوں کی حکومتوں کے نام حکم نامہ جاری کیا کہ’ بچہ چوری کی افواہوں کی وجہ سے ہونے والی ماب لنچنگ کے معاملات کی روک تھام کے لئے سخت اقدامات کئے جائیں۔ لیکن افسوس کہ حکومت اب بھی اپنے فطری تعصب سے باز نہیں آئی ہے۔ اس اڈوائزری کے ذریعہ مرکزی وزارت داخلہ نے بچہ چوری اور گؤ رکشکوں کی ماب لنچنگ کو الگ الگ کرتے ہوئے گویااس ماب لنچنگ کو ملک کے لئے خطرہ تسلیم کیا ہے جو بچہ چوری کی افواہ کی وجہ سے ہوئی اسے نہیں جو گؤ رکشکوں کی دہشت گردی کی وجہ سے ہوئی، یعنی اب بھی حکومت کی نظر میں ماب لنچنگ اس وقت تک کوئی خطرہ نہیں ہے جب تک اسکا شکار مسلمان ہوں وہ خطرہ اسی وقت ہے جب مسلمانوں کے علاوہ دوسرے لوگ بھی اس کی چپیٹ میں آنے لگیں، حکومت اور بر سر اقتدار بی جے پی کی اسی پالسی کو واضح کرتا ہوا ایک اور واقعہ یہ بھی ہوا کہ جھارکھنڈ میں ایک مسلم شخص کوماب لنچنگ کے ذریعہ قتل کر نے والے گؤ رکشکوں کو فاسٹ ٹریک کورٹ نے عمر قید کی سزا سنائی تھی اب ہائی کورٹ نے انہیں ضمانت پر رہا کیا تو بی جے پی نے ان کی تبریک( Felicitation )کا پروگرام منعقد کیا اور اس میں مرکزی وزیر جینت سنہا نے ان کی گل پوشی کی۔

ان ساری باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ گؤ رکشکوں کی دہشت گردی دراصل حکومت کی پروردہ ہے اور وہ اگر بڑھتی بھی رہے تو حکومت کو کوئی پروا نہیں حکومت اسے کوئی پرابلم نہیں سمجھتی بلکہ اسکی پشت بناہی کر کے اسے بڑھانا چاہتی ہے، لیکن حکومت کو یاد رکھنا چاہئے کہ اس نے اپنے مفادات کے لئے گؤ رکشا کے نام مسلمانوں کے خلاف ماب لنچنگ کی جس ذہنیت کو فروغ دیا یا کم از کم اسے روکنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی وہ مختلف حیلوں بہانوں سے اور مختلف شکلوں میں اپنا دائرہء کار بڑھاتی رہے گی۔ کل صرف مسلمان اسکا شکار تھے آج ہندوؤں میں کے ادیواسی، دلت، خانہ بدوش، اجنبی اور دوسرے علاقوں سے آئے کامگار بھی اسکا شکار ہو رہے ہیں۔ ان معاملات میں مسلمانوں نے بہت صبر سے کام لیا ہے دوسری اقوام بھی اسی طرح صبر کر کے بیٹھ رہے گی اسکی کوئی ضمانت نہیں۔

جھارکھنڈ معاملہ میں جب کورٹ نے ۱۱، افراد کو مجرم قرار دیا تھا تو مقتول علیم الدین انصاری کی بیوہ نے بڑی فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ اس کے باوجود کہ انہوں نے اسکے شوہر کی جان لی وہ نہیں چاہتی کہ انہیں سزائے موت ملے جبکہ دھولیہ ماب لنچنگ میں مارے گئے ایک شخص کی بیوہ کا کہنا ہے کہ انہیں (ملزمین )کو ہمارے حوالے کرو ہم ان کی لنچنگ کریں گے، انہیں موت سے کم کوئی سزا ہمیں انصاف نہیں دلا سکتی۔

یعنی حالات مسلسل اور تیزی سے بگاڑ کی طرف رواں ہیں اور اگر نفرت کا پھیلاؤ، لوگوں کا بھڑکاؤ، افواہوں کی کالا بازاری اور ملزمین کی پشت پناہی کرتی ہوئی سستی سیاست نہیں روکی گئی تو ملک میں قانون و انصاف کو شدید خطرہ لاحق ہوسکتا ہے اور آج اس پر سیاست کرنے والے اور اس ذہنیت کو پروان چڑھانے والے کل خود بھی اس کی چپیٹ میں آسکتے ہیں۔ ویسے فطرت کا قانون یہی ہے کہ جو بوؤ گے وہی کاٹنا پڑے گا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔