ہارون یحیٰی کے خلاف ملحدین کے اعتراضات اور ان کا جواب

تدوین و ترجمہ: ڈاکٹر احید حسن

ہارون یحیٰی دو فروری 1956ء کو انقرہ ترکی میں پیدا ہوئے۔ 1979ء میں وہ استنبول آگئے اور وہاں فلسفہ میں پی ایچ ڈی کے لیے داخلہ لیا۔ یہیں ان کا اسلام پسند طبقوں سے تعلق بنا جس کے بعد ان کی الحاد، نظریہ ارتقا، سوشلزم اور صیہونیت کے خلاف عالمی شہرت یافتہ تصانیف 1986ء کے بعد آنا شروع ہوئیں۔

ہارون یحیی کے خلاف کئی الزامات عائد کئے جا چکے ہیں اور وہ ہمیشہ ان الزامات کو عدالت میں غلط ثابت کر چکے ہیں۔ہارون یحیی اسلام دشمنوں کو ایسے ہی کھٹکتا ہے جیسے کسی کو اپنی بہن کا دوست کیونکہ اس نے الحاد اور ارتقا کو پوری دنیا میں ننگا کر دیا ہے۔

ہارون یحیٰی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ دہریت کے رد پر انہوں نے کمال کا کام کیا ہے۔ ان کی کتابیں کاپی رائیٹ سے آزاد ہیں اور www.harunyahya.com پر اردو میں میسر ہیں۔ حیرت یہ ہے کہ جس انسان کے اخلاص کا عالم یہ ہے اسی انسان پہ الزام لگایا جاتا ہے کہ اس نے پبلیکیشن ایجنسیوں اور فاؤنڈیشن کے ذریعے ناجائز اور غیر قانونی منافع حاصل کیے۔

ہارون یحی ترکی کے معروف قلم کار ہیں جو فری میسنری یہودی تحریک اور مادہ پرستی کی عالمی الحادی تحریک کے بہت بڑے ناقد ہیں۔ ہارون یحی نے اپنی اس کتاب میں ان تمام سائنسی حقائق اورمعروف سائنسدانوں کے اقوال کو جمع کیا ہے جو ڈارون کے نظریہ ارتقا کی سائنسی موت ثابت ہوئے ہیں۔ہارون یحی نے فوسل ریکارڈ سے بھی یہ ثابت کیا ہے کہ اس کائنات پر تخلیق کی ابتدا اچانک ہوئی ہے نہ کہ ارتقاء سے۔ آج واقعہ یہ ہے کہ ہارون یحی نے ڈارون کے نظریہ ارتقا کے فروغ میں مادہ پرستوں اور منکرین خدا کے مکر وفریب کی دھجیاں بکھیردی ہیں۔ بہر حال ڈارونی نظریہ ارتقا کے حاملین ملحدین، منکرین خدا اور مادہ پرستوں کی رات کی نیندیں اڑانے کے لیے عقلی، منطقی اور سائنسی دلائل پر مبنی ان کی بہترین کتابیں سامنے آئی ہیں۔

ان کی کئ کتابیں جن میں ارتقا کے خلاف کتابیں بھی شامل ہیں ویڈیو اور کتابی شکل میں انٹرنیٹ پہ میسر اور آسانی سے ڈاؤن لوڈ کی جا سکتی ہیں۔ان کو جدید دور کے عظیم ترین مسلم مصنفین میں شمار کیا جاتا ہے اور ان کا ٹی وی شو عرب دنیا میں بہت سے لوگ دیکھتے ہیں۔

ہارون یحیٰی تین سو کتابوں کے مصنف ہیں اور ان کی کتابوں کا دنیا کی ستر زبانوں میں ترجمہ کیا جا چکا ہے۔ 2009،2010،2011،2012ء میں جارج ٹاؤن یونیورسٹی امریکہ کے Christian Muslim Understanding نے Royal Islamic Strategic Studies Centre کے ساتھ انہیں دنیا کے سب سے مؤثر مسلمانوں کی فہرست میں شمار کیا۔

حقیقت یہ ہے کہ ہارون یحیٰی televangelism یعنی عیسائیت سے میڈیا کے ذریعے رابطے اور مباحثے کی وجہ سے مشہور ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے خلاف پاکستانی و عالمی ملحدین اور عیسائیوں نے ہمیشہ پروپیگنڈہ کیا اور ان کی شخصیت کو داغدار کرنے کی کوشش کی ہے جب کہ یہ الزام ہمیشہ جھوٹ نکلے ہیں۔ ان کی تحریروں نے نظریہ ارتقا اور الحاد کو اس طرح ننگا کیا ہے کہ ملحدین و اسلام دشمن طبقے نے ان کے دلائل کا جواب دینے کی جگہ ان کی شخصیت کو داغدار کرنے کی مذموم کوششیں کیں کیونکہ ان کی بےشمار کتابوں نے الحاد اور ارتقا کو دنیا میں ننگا کر دیا ہے۔ ان کے خلاف اتنا منظم پروپیگنڈہ کیا گیا کہ انھوں نے اپنی شخصیت کے خلاف الزامات کے خلاف گزشتہ دس سال میں پانچ ہزار دفعہ رجوع کیا ہے

جب کہ الزام لگانے والے ایک بار بھی ترک عدالت میں ان کے خلاف اپنے الزامات ثابت نھیں کر سکے۔ان کے خلاف جھوٹ پروپیگنڈے اور ان کی شخصیت کو داغدار کرنے کی وجہ سے اور ہارون یحیٰی کے خلاف ان الزامات کو ثابت نہ کر پانے پہ ترکی کی حکومت نے ایسا پروپیگنڈہ کرنے والی کئ ویب سائٹس کو بلاک کیا

کیونکہ ان کے ہارون یحیٰی کے خلاف الزامات جھوٹ اور صرف اس وجہ سے تھے کہ اس کی بےشمار تحریروں نے اسلام کو تقویت دی جب کہ ارتقا کو دنیا میں ننگا کر دیا ہے۔

ہارون یحیٰی نے یہودی فری میسنری اور دیگر عالمی استعماری تنظیموں کے خلاف بھی کئ کتابیں لکھیں جس پہ انہیں عالمی دباؤ پہ ترکی کی حکومت نے گرفتار کیا لیکن ان پہ کوئی الزام ثابت نہیں ہوسکا سوا یہ کہ وہ اپنی تحریروں میں ارتقا اور الحاد اور سوشلزم کے خلاف لکھتے ہیں۔ 1986ء میں عالمی دباؤ پہ انھیں یہودی فری میسنری کے خلاف کتاب
Freemasonry and Judaism

لکھنے پہ دس ماہ نفسیاتی اسپتال میں رکھا گیا لیکن مخالفین انھیں نفسیاتی مریض ثابت کرنے میں ناکام رہے ۔ان پہ ایک ترک صحافی Fatih Altaylı نے الزام لگایا تھا کہ انھوں نے استنبول کی میونسپلٹی سے کاروباری معاہدے کئے ہیں لیکن یہ الزامات  جھوٹ ثابت ہوئے اور ہارون یحیٰی نے اس صحافی کے خلاف عدالت سے رجوع کیا۔

1999ء میں ہارون یحیٰی کے خلاف یہ الزام عائد کیا گیا کہ وہ ذاتی مفادات کے لیے دھونس دھمکی کا راستہ اختیار کرتے ہیں اس پہ انھیں گرفتار کر لیا گیا لیکن یہ الزام بھی دو سال کیس چلنے کے بعد جھوٹ ثابت ہوا اور ختم کر دیا گیا۔

ہارون یحیٰی کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے والوں اور ان کی کردار کشی کرنے والوں میں سرفہرست عالمی ملحدین کے سرغنہ رچرڈ ڈاکنز کی ویب سائٹ اور WordPress.com  تھیں جن کے الزامات جھوٹ ثابت ہوجانے پہ ترکی کی عدالت نے انھیں ترکی میں بلاک کر دیا۔ 2010ء میں ان کو اسلامی دنیا کے سب سے زیادہ اثر و رسوخ رکھنے والے مصنفین میں شمار کیا گیا۔
The 500 Most Influential Muslims” (PDF). The Royal Islamic Strategic Studies Centre of Jordan. 2010. Retrieved 10 April 2012. ارتقا کے خلاف ان کی کتابوں کا عالمی ملحدین کوئی جواب نہ دے سکے اور ان پہ الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے اپنی کتابوں کا مواد دوسری کتابوں سے چوری کیا جب کہ انہوں نے جہاں جہاں سے تحقیق پیش کی اس کا حوالہ دیا۔ یہودی ہارون یحیٰی کے خصوصا خلاف ہیں کیونکہ وہ اپنی تحریروں میں ہولوکاسٹ کو غلط کہانی ثابت کر چکے ہیں۔
ہارون یحیٰی کے خلاف ہونے والی زیادتیوں کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک بار 1986ء میں انھیں صرف اس بات پہ گرفتار کر لیا گیا تھا کہ انھوں نے کہا کہ میں ابراہیم علیہ السلام اور ترکی کا روحانی فرزند ہوں۔

1991ء میں اس وقت کی سیکولر ترک حکومت کے ایک سکیورٹی اہلکار نے ان کی لائبریری میں گھس کر ان کی کتاب میں کوکین رکھ دی اور ان کو کوکین کے استعمال کے جرم میں گرفتار کر لیا گیا لیکن یہ الزام بھی جھوٹ ثابت ہوا اور ان کو رہا کر دیا گیا۔2008ء میں ان کی تنظیم پہ یہ الزام عائد کیا گیا کہ ان کے افراد خواتین سے جنسی زیادتی کرتے اور ان کی ویڈیو بناتے ہیں لیکن یہ کیس بھی ثابت نہ ہوا اور ختم کر دیا گیا۔ اب جولائی 2018ء میں ترکی کی پولیس نے ایک بار پھر ان پہ یہی الزامات لگا کر ان کو ان کے 235 ساتھیوں سمیت محبوس کیا ہے لیکن ان کے خلاف یہ الزامات نئے نہیں ہے اور وہ ہمیشہ ان سے بری اور صاف ثابت ہوئے ہیں۔

ہارون یحیٰی ہمیشہ اسلام دشمن عیسائیوں، یہودیوں اور ملحدین کے نشانے پہ رہے ہیں اور 1986ء سے اب تک ان کے رد الحاد، لبرلزم، سیکولرازم اور سوشلزم کے خلاف زبردست کام کی وقعت کم کرنے اور عوام کو ان سے بد ظن رکھنے کے لیے ہمیشہ ان کی شخصیت کو داغدار کرنے کی کوشش کی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ ان پہ لگائے جانے والے الزامات کی تصدیق کرنے والا ایک بھی گواہ، مدعی یا گروہ نہیں ہے اور ترکی کی عدالت اب تک لگائے جانے والے تمام الزامات کو مسترد کر چکی ہے۔ ہارون یحیٰی کے خلاف ارتقائیوں اور اسلام دشمنوں کی ویب سائٹس پہ بےشمار وہ الزامات موجود ہیں جن کی آج تک تصدیق نہیں ہوسکی اور جن کی تصدیق کرنے والا ایک بھی گواہ نہیں ہے۔

ان پہ یہ الزام بھی عائد کیا جا چکا ہے کہ انھوں نے اور ان کی تنظیم نے کام کرنے والی خواتین کو خفیہ کیمروں کے ذریعے بلیک میل کیا جب کہ یہ الزامات بھی ترکی کی عدالت میں جھوٹ ثابت ہو چکے ہیں۔ عدالت کی طرف سے اس الزام سے بریت اور کیس ختم کرنا اس کا ثبوت ہیں۔1999ء میں اس طرح کے تمام الزامات کو ترک عدالت نے مسترد کر دیا۔ جن لوگوں کو اس کیس میں گواہ بنا کر پیش کیا گیا تھا بعد میں عدالت میں یہ بات سامنے آئی کہ ان کو ترکی کی سیکولر حکومت نے پولیس اسٹیشن پہ زبردستی دستخط کرا کے عدالت میں گواہ بطور پیش کیا گیا تھا  لیکن عدالت میں یہ واضح ہوگیا کہ یہ سب لوگ جعلی گواہ تھے۔

ان گواہوں نے بعد ازاں عدالت میں ججوں کے سامنے  تسلیم کیا کہ ان پہ حوالات میں دباؤ دیا گیا تھا کہ وہ یہ الزامات ہارون یحیٰی صاحب پہ لگائیں اور دعوے پہ دستخط کریں، خود ان گواہوں نے اپنے الزامات کا انکار کیا کیونکہ یہ الزامات ان سے زبردستی دلوائے گئے تھے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ انھیں ہارون یحیٰی یا ان کے گروہ کے کسی فرد نے کوئی نقصان نہیں پہنچایا اور نہ ہی کوئی جنسی زیادتی کی۔ یہ بیانات آج بھی ترکی کی عدالتوں میں موجود ہیں۔ یہ الزامات منظم طریقے سے ہارون یحیٰی صاحب پہ سیکولر  Ergenekon Terror Organization اور Post modern coup کے منصوبے کے تحت عائد کیے گئے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ قانون کے مطابق ہارون یحیٰی کے خلاف زبردستی میں دلائے گئے ترکی کی اس وقت کی سیکولر پولیس کی طرف سے یہ بیانات قانون کے مطابق قابل قبول نہیں تھے لیکن پھر بھی ہارون یحیٰی پہ کیس چلایا گیا لیکن بعد ازاں وہ باعزت بری ہوئے۔

ہارون یحیٰی صاحب پہ ایک اور اعتراض یہ لگایا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنی حضرت مہدی  مہدی یا مسیحا سے مشابہت کی اور مہدی ہونے کا دعوٰی کیا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے کبھی ایسا دعوٰی نہیں کیا اور وہ اپنی ذاتی ویب سائٹ پہ اس الزام کی تردید کر چکے ہیں۔ اس بات کی ایک بھی گواہی موجود نہیں ہے کہ انھوں نے کبھی ایسا دعوٰی کیا ہے اور نہ ہی ان کے اس دعوے کی تصدیق ان کی ویب سائٹس، بےشمار ویڈیوز، مضامین، مکالموں، ٹی وی شوز اور کتابوں سے ہوسکی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کئ بار ہارون یحیٰی نے حلفیہ کہا ہے کہ کبھی بھی انھوں نے مہدی ہونے کا دعوٰی نہیں کیا اور نہ ہی وہ کریں گے۔ انھوں نے سب مشابہت کے باوجود خود کو کبھی مہدی نہیں کہا۔

ہارون یحیٰی پہ ایک اور الزام یہ لگایا جاتا ہے کہ وہ اسلام کی ایک اور گمراہی پہ مبنی شکل کے پیروکار ہیں جس کا اہل سنت والجماعت سے کوئی تعلق نہیں جب کہ ہارون یحیٰی کا اہل سنت والجماعت سے منسلک ہونا ان کی کتابوں سے صاف ظاہر ہے۔ اپنی کتاب Quick grasp of faith جلد اول کے صفحہ 63 اور 64 پہ انہوں نے نمازوں کی تعداد پانچ اور رکعتوں کی تعداد فرض سنت اور مؤکدہ چالیس تسلیم کی ہے۔ اپنی کتاب Basic Tenets of Islam صفحہ 81-83 میں انہوں نے ایک بار پھر واضح انداز میں یہ بیان کیا ہے کہ نمازوں کی تعداد پانچ اور رکعتوں کی تعداد چالیس ہے۔ ایک اور کتاب Perfected Faith کے صفحہ 24-25 پہ بھی انھوں نے یہی بات کی ہے۔ الٰہیات کے معزز پروفیسرز نے تسلیم کیا ہے کہ ان کا نقطہ نظر حنفی فقہ اور اہل سنت کے طریق کے بالکل مطابق ہے۔ پروفیسر مہمت بیرکدار جو کہ انقرہ یونیورسٹی میں کی Theology Faculty سے تعلق رکھنے والے اس پروفیسر نے ہارون یحیٰی پہ لگائے جانے والے الزامات کی ان الفاظ میں تردید کی ہے:

"مصنف یعنی ہارون یحیٰی کی کسی بھی کتاب میں اسلام کے دو بنیادی ذرائع قرآن و سنت کے منافی کوئی بات نہیں اور اس کے برعکس ہماری روایتی ترکی اسلامی فہم موجود ہے اور کوئی بات ایسی نہیں جو ہماری قومی اور مذہبی روایات کے خلاف ہو۔”
اس کےعلاوہ بھی الٰہیات یعنی تھیالوجی کے کئ پروفیسرز نے ہارون یحیٰی پہ لگنے والے ان الزامات کی تردید کی ہے کہ وہ اسلام کی حقیقی روح سے ہٹ کر مختلف اصولوں کی پیروی کرتے اور نظریات رکھتے ہیں۔ ان پروفیسروں میں پروفیسر ڈاکٹر صالح اکدیمر( انقرہ یونیورسٹی میں تفسیر قرآن کے شعبے کے اکیڈمی رکن) جنہوں نے ہارون یحیٰی کے بارے میں اپنی رائے 20 مارچ 2000ء میں دی، پروفیسر ڈاکٹر میولوت گنگر( انقرہ یونیورسٹی کے شعبہ قرآن کے چیئرمین) جنہوں نے ہارون یحیٰی کے بارے میں اپنی رائے 25 مارچ 2000ء میں دی، پروفیسر ڈاکٹر ہیرتن کرامان( یورپین انٹرنشینل اسلام یونیورسٹی کے اکیڈمی ممبر)، پروفیسر ڈاکٹر صائم یپرم( مارمارا یونیورسٹی کے شعبہ تھیالوجی کے سربراہ) جنہوں نے ہارون یحیٰی کے بارے میں اپنی رائے 20 اکتوبر 2000ء میں دی، پروفیسر ڈاکٹر ہیری کرباسوگلو( انقرہ یونیورسٹی کے شعبہ حدیث کے اکیڈمی ممبر) جنہوں نے ہارون یحیٰی کے بارے میں اپنی رائے 30 مئی 2000ء میں دی، اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر الہامی گولر( انقرہ یونیورسٹی میں شعبہ فلسفہ کے اکیڈمی ممبر) جنہوں نے ہارون یحیٰی کے بارے میں اپنی رائے 25 مارچ 2000ء میں دی، اسسٹنٹ پروفیسر عمر اوزسائز جنہوں نے اپنی رائے 29 فروری 2000ء میں دی، ایسوسی ایٹ پروفیسر مہمت پکاسی( انقرہ یونیورسٹی کے شعبہ تھیالوجی کے اسلامی سائنسز کے اکیڈمی ممبر جنہوں نے ہارون یحیٰی کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار یکم جون 2000ء میں کیا،شامل ہیں۔

ہارون یحیٰی پہ ایک اور الزام یہ لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے ایک ذاتی حرم بنا رکھا ہے جس میں کئ خواتین شامل ہیں جب کہ اس کی کوئی گواہی موجود نہیں۔ ہارون یحیٰی کی کمیونٹی جو دنیا بھر میں الحاد، سوشلزم اور ارتقا کے خلاف کتابیں شائع کر رہی ہے اس کے دنیا بھر سے ہزاروں مداح اور مخالف ہیں اور اس کے بارے میں کوئی مخالف کچھ بھی کہ سکتا ہے تاکہ مخالف کا مرتبہ دنیا میں کم کرکے اس کے علمی کام کی وقعت اور عوام میں اس کی محبت کم جا سکی تاکہ اپنے مذموم سیکولر اور الحادی اور ارتقائی نظریات کو جھوٹ ثابت ہونے سے محفوظ کیا جا سکے۔صرف ہارون یحیٰی نہیں، تاریخ میں یہ انبیاء جیسا کہ یوسف علیہ السلام، اولیاء اور علماء کے ساتھ ہوتا آیا ہے۔ چونکہ ہارون یحیٰی ایک مذہبی شخصیت ہیں اور ان کی کمیونٹی ایس آر ایف الحاد سوشلزم اور ارتقا کے خلاف عالمی شہرت یافتہ ہیں، لہٰذا مخالفین نے عوام میں ان کی وقعت کم کرنے کے لیے جنسی زیادتی کے جھوٹ الزامات عائد کیے۔ ہارون یحیٰی کی خواتین اور ان پہ مشتمل ذاتی حرم کا الزام سو فیصد جھوٹ ہے۔ یہ الزامات ان کے خلاف 12 نومبر 1999ء میں بھی ترک عدالت میں سامنے آئے تھے اور کیس میں شامل تمام خواتین نے ترک عدالت میں بیان دیا کہ یہ الزامات مکمل جھوٹ ہیں اور ہارون یحیٰی اور ان کی کمیونٹی یعنی ایس آر ایف کے تمام ارکان انتہائی نیک اور مذہب لوگ ہیں۔ اس بات کی تصدیق عدالت میں پیش ہونے والے گواہوں نے بھی کی۔ اس کی مزید تفصیل http://psychologicalwarfaremethods.com/responses-from-families-of-the-members-of-bav-community-to-families-making-groundless-allegations/#.U0E7URyhDhJ پہ موجود ہے۔

ہارون یحیٰی کے خلاف مسلمانوں میں نفرت پیدا کرنے کے لیے ملحدین اور اسلام دشمن عناصر کی طرف سے ایک اور الزام یہ بھی لگایا جاتا ہے کہ ان کی مداح خواتین میک اپ کی دلدادہ ہیں۔  حقیقت یہ ہے کہ ہارون یحیٰی کے مداحوں میں دنیا کے کئ کونوں سے مرد و خواتین شامل ہیں اور ترکی، یورپ اور ایشیا ہر علاقے کے ٹی وی شوز میں خواتین کسی نہ کسی طرح کا میک اپ استعمال کرتی ہیں اور ہر طرح کا لباس استعمال کرتی ہیں۔ یورپ اور امریکہ میں اس کو ایک شخص کی ذاتی زندگی کہ کر اس طرف توجہ نہیں کی جاتی اور جب کہ ہارون یحیٰی صاحب کے مداحوں اور قارئین میں ہر طرح کے لوگ اور خواتین شامل ہیں تو پھر ان کی ذاتی زندگی کا الزام ہارون یحیٰی صاحب کو دینا کہاں کی عقلمندی ہے جب کہ ہارون یحیٰی صاحب نے اپنی کسی کتاب یا لیکچر میں اس چیز کی ترویج نہیں کی۔

ہارون یحیٰی صاحب پہ ایک اور الزام یہ لگایا جاتا ہے کہ ہارون یحیٰی خود کو بادشاہ سمجھتے ہیں اور ترکی کے تحت اسلام کا عظیم اتحاد چاہتے ہیں جس کے سربراہ وہ خود ہوں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہارون یحیٰی صاحب نے امت مسلمہ کے اتحاد کی بار بار تلقین تو کی ہے لیکن انہوں نے یہ دعوٰی کبھی نہیں کیا کہ وہ بادشاہ ہیں یا خلیفہ بننا چاہتے ہیں۔ ان کی کسی بھی کتاب یا بات میں اس کا اشارہ تک موجود نہیں ہے۔ وہ تو خود اپنے سے عمر میں بڑے دوستوں کو میرا سلطان کہ کر مخاطب کرتے ہیں اور یہ وہ لفظ ہے جو ترکی میں کئ لوگ اپنے مخاطب کو عزت دینے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ہارون یحیٰی صاحب کے ساتھیوں میں ایک شخص بھی ایسا نہیں جس نے ان کو بادشاہ کا لقب دیا ہو اور اے 9  ٹی وی کے شرکاء نے بھی کبھی ان کو بادشاہ کہ کر مخاطب نہیں کیا اور ہارون یحیٰی نے ترکی میں ہمیشہ عوامی اور سماجی مسائل پہ آواز بلند کی ہے۔

ہارون یحیٰی پہ ایک اور الزام یہ لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے اور ان کی ایس آر ایف کمیونٹی نے کئ مالی بے ایمانیاں کی ہیں۔ ان جھوٹ الزامات کی بنیاد پہ ترکی کی Financial Crimes Investigation Board نے ہارون یحیٰی اور ان کے اثاثوں کی تفصیلی تفتیش کی اور اب جولائی 2018ء میں ایک بار پھر ہارون یحیٰی صاحب پہ وہی الزامات عائد کیے گئے ہیں جن کا جواب ہم اس مضمون میں دے چکے ہیں اور ترکی کی معاشی جرائم کی کمیٹی نے ماضی میں  ہمیشہ اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ہارون یحیٰی اور ان کے ساتھیوں کے اثاثے غیر قانونی ذرائع سے حاصل کردہ نہیں ہیں اور ماضی میں ترکی کی سرکاری عدالتیں ہارون یحیٰی کو ناجائز آمدنی کے الزام اور بدعنوان سیاستدانوں سے تعلقات کے الزام سے بری قرار دیتی آئی ہیں اور اس کی تفصیل یہاں ملاحظہ فرمائیں
http://psychologicalwarfaremethods.com/official-state-reports-refuted-the-allegations-of-unfair-earnings/#.U0EsAb8mzmI

32 سال میں تو ملحدین سے ہارون یحیٰی کے خلاف ایک الزام بھی ثابت نہیں ہوسکا دو سال جیل میں ڈلوا کر بھی ۔ اور دوسری بات اگر یہ الزام سچ بھی ثابت ہو تو اس سے کس طرح ثابت ہوتا ہے کہ ان کی کتابیں غلط ہیں۔ جب کہ ملحدین کے بڑے بڑے ملحدین کارل مارکس سگمند فرائیڈ سٹالن لینن سیکس اور جنسی زیادتی کے مجرم تھے۔ پھر تو پوری نفسیات اور سوشلزم کو بھی غلط ہونا چاہیے۔
ان شاء اللٰہ اب بھی وہ ان سب الزامات سے بری ہوں گے۔

ہارون یحیٰی 1986ء سے اب تک یعنی گزشتہ بتیس سال سے اسلام دشمن عناصر، ملحدین، ارتقائی ماہرین، مادہ پرستوں اور کمیونسٹوں کے منظم پروپیگنڈے کا شکار چلے آرہے ہیں کیونکہ انہوں نے عالمی طور پہ اپنی تحریروں سے مادہ پرستی، سوشلزم، کمیونزم، الحاد اور نظریہ ارتقا کو دنیا بھر میں غلط ثابت کر دیا ہے۔ کئ بار ان کی تحریروں اور کتابوں کی وجہ سے ان پہ الزام لگایا گیا کہ وہ نفسیاتی بیماری شیزو فرینیا کے مریض ہیں اور ان کو ترکی کی اس وقت کی سیکولر حکومت نے دس ماہ نفسیاتی ہسپتال میں بغیر کسی تصدیق کے اس لیے محبوس رکھا کہ انہوں نے فری میسن یہودیوں اور استعمار کے خلاف اپنی زبردست کتاب Judaism and Freemasonry مرتب کی جس نے دنیا بھر کی صیہونیت کو ہلا کر رکھ دیا۔ ان کو صیہونیت اور ارتقا کے خلاف کام سے روکنے کے لیے انتقامی کاروائیوں کا سلسلہ پہلے مسلسل انیس ماہ چلتا رہا تھا اور آخرکار ترکی کے  فوجی ہسپتال نے اس الزام کی تردید کی کہ ہارون یحیٰی ایک نفسیاتی مریض ہیں اور ان کو ڈاکٹروں نے جسمانی اور نفسیاتی طور پہ صحتمند قرار دیا۔ اس کی مزید تفصیل اس لنک پر موجود ہے
http://psychologicalwarfaremethods.com/adnan-oktars-sanity-report-issued-by-the-gulhane-military-medical-academy/#.U0E5WxyhDhI

ہارون یحیٰی صاحب پہ ایک اور الزام یہ لگایا جاتا ہے کہ ان کے مداح اپنے گھر والوں سے ٹھیک نہیں ہیں۔ جب کہ اس کی اصلیت یہ ہے کہ ہارون یحیٰی کوئی شیخ، قائد یا کسی مذہبی اصلاحی سلسلے کے پیر نہیں ہیں بلکہ وہ ایک مصنف اور تصورات کے انسان ہیں جن کے مداحوں میں ہر طرح کے لوگ شامل ہیں جو پڑھے لکھے، خود کفیل اور سمجھ دار ہیں اور ان کے ذاتی افعال کا ذمہ دار ہارون یحیٰی صاحب کو بالکل قرار نہیں دیا جا سکتا اورنہ ہی اپنی کسی کتاب یا لیکچر میں کسی کو ہارون یحیٰی صاحب نے ایسا کرنے کی ترغیب دی ہے۔

ہارون یحیٰی پہ ایک اور الزام یہ لگایا جاتا ہے کہ وہ کوکین کے استعمال کے عادی ہیں جب کہ یہ مکمل جھوٹ ہے اور ان پہ یہ الزام ان کی ایک کتاب میں کوکین رکھ کر Ergenekon Terror Organization نے عائد کیا تھا جو بعد ازاں عدالت میں جھوٹ ثابت ہوا اور ایک بار پھر ثابت ہوا کہ کچھ عناصر ہارون یحیٰی صاحب کے اسلام پسند اور الحاد اور نظریہ  ارتقا مخالف نظریات کی وجہ سے جان بوجھ کر ان کی شخصیت کو داغدار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور یہ الزامات کہ ہارون یحیٰی صاحب اور ان کے قریبی ساتھی کوکین استعمال کرتے ہیں مکمل جھوٹ ثابت ہوا ہے اور ہارون یحیٰی صاحب اپنے لیکچر ویڈیوز اور ٹی وی شوز میں کئ بار شراب تمباکو اور نشے کو مضر قرار دے چکے ہیں۔

ہارون یحیٰی پہ الزام کہ انہوں نے خفیہ کیمرے لگا کر خواتین کو بلیک میل کیا یہ بھی جھوٹ ثابت ہوا ہے اور بعد ازاں یہ بات نکلی کہ 1999ء میں اس وقت کی ترک حکومت نے ہارون یحیٰی صاحب اور ان کی کمیونٹی ایس آر ایف کے خلاف تفتیش کی لیکن کوئی بھی خفیہ کیمرا یا خلاف قانون بات ثابت نہیں ہوسکی اور عدالت کے پاس ایک بھی ثبوت نہیں تھا کہ ہارون یحیٰی صاحب ان غیر اخلاقی اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہیں اور آخرکار ترک عدالت نے اس الزام کو جھوٹ قرار دیا۔یہ دعوے عدالت میں موجود جب کہ آج تک ان کی ایک بھی گواہی نہیں ہے جب کہ پولیس نے بیگناہ ہارون یحیٰی اور ان کی ایس آر ایف کمیونٹی کے افراد پہ تشدد کیا جس کی اٹھارہ فارنزک میڈیسن رپورٹ موجود ہیں لیکن انسانی حقوق کے سارے دعویدار چپ رہے اور بیگناہ تشدد کرنے والے کئ پولیس افسران آج بھی عدالتی ٹرائل پہ ہیں۔

علاوہ ازیں ہارون یحیٰی اور ان کی علمی و آگاہی پہ مبنی الحاد، ارتقا اور سوشلزم کے خلاف کتابیں شائع کرنے والی ان کی تنظیم کے خلاف ایک شخص ایبرو سمسک کے الزامات بھی عدالت میں جھوٹ ثابت ہو چکے ہیں اور استنبول کی دوسری ہائی کریمنل کورٹ کے کیس نمبر 2006/26 کے تحت یہ الزامات جھوٹ ثابت ہوئے ہیں جب کہ مخالفین نے بوکھلاہٹ میں صرف یہی الزام عائد کیا کہ عدالت غلط استعمال ہوئی ہے جب کہ اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔

جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہر عدالتی کاروائی مکمل طور پہ عوام کے سامنے ہوئی اور ہارون یحیٰی صاحب نے ایبرو سمسک کے خلاف ہتک عزت کا دعوٰی کیا جو ان کے خلاف بار بار وہ الزامات عائد کر رہا تھا جو عدالت میں وہ ثابت ہی نہیں کر سکا۔ بندہ جب تک جاہل متعصب اور منافق نہ ہو ملحد ہو ہی نہیں سکتا۔ اور میں ملحدین کو چیلنج کرتا ہوں کہ ترکی کے ایک بھی سرکاری عدالت یا حوالے سے ہارون یحیٰی کو ملزم ثابت کردیں۔ اگر نہیں تو میں اور ہارون یحیٰی ان کی بہن کے دوست بنیں گے۔

ہارون یحیٰی پہ ملحدین کے عالمی سرغنے رچرڈ ڈاکنز کی طرف سے ایک  الزام یہ لگایا گیا کہ انہوں نے اپنی کتاب نقشہ تخلیق میں کیڈس مکھی کے ایک ماڈل کو پیش کیا حقیقی تصویر کی جگہ۔ جب کہ ہارون یحیٰی صاحب اس کی اصل تصویر دیں یا ماڈل، یہ بات طے ہے کہ یہ جانور آج بھی اپنے فوسل ریکارڈ کی طرح حقیقی طور پہ بھی موجود ہے اور نظریہ ارتقا کو رد کرنے والے بےشمار فوسل میں سے ایک ہے اور ڈاکنز ارتقا کو رد کرنے والے ہارون یحیٰی صاحب کے پیش کیے گئے تمام فوسل کو چھوڑ کے صرف ایک پہ شور کرتا رہا جب کہ آج بھی ارتقائی ماہرین کے دعووں کے برعکس کیڈس مکھی اپنے فوسل ریکارڈ کی طرح اصل شکل میں بغیر تبدیلی کے موجود ہے جس نے نام نہاد ارتقا کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ یہ صرف ایک مثال ہے جب کہ اپنی تصنیف جو اردو میں نقشہ تخلیق اور انگلش میں Atlas of creation کے نام سے میسر ہے، میں بیشمار ایسے فوسل پیش کیے گئے ہیں جو ارتقا کو ملحدین کا جھوٹ اور بکواس سائنسی نظریہ ثابت کرتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ ہارون یحیٰی اس صدی کے مظلوم ترین مسلم مصنف ہیں جن کی شخصیت کو اتنا داغدار کیا گیا کہ شاید ہی اس صدی میں کسی کی شخصیت کو اتنا داغدار کیا گیا ہو اور ان کے خلاف پروپیگنڈہ اس شدت سے ہوا کہ کئ راسخ العقیدہ مسلمان یہاں تک کہ رد الحاد کا کام کرنے والے بھی اس پروپیگنڈے کا شکار ہوگئے جب کہ ہمارا فرض یہ تھا کہ ہم ان الزامات کی تحقیق کرتے جو کہ اب جھوٹ ثابت ہو رہے ہیں اور کافروں، ملحدین اور منافقین کے پروپیگنڈے سے ہوشیار رہیں اور ان کی کسی بھی بات پہ اندھا دھند یقین بالکل نہ کریں۔

انصاف، ترقی، خوشحالی، امن اور انسانیت سب سے بڑا مذہب کا نعرہ لگانے والے اسلام اور اسلامی شخصیات کو گھٹیا ثابت کرنے کے لیے جھوٹ بولنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ لعنت ہو اللٰہ تعالٰی کی ان جھوٹ بولنے والوں پہ۔

حوالہ جات:

"Adnan Hoca’ya ‘cezai ehliyet’ şoku”. Milliyet. 8 March 2015
http://kitabosunnat.com/kutub-library/nazriairtaqaaikfaraib
http://m.harunyahya.com/en/Articles/184648/responses-to-groundless-claims-concerning

2 تبصرے
  1. اقبال بوکڑا کہتے ہیں

    JazakAllah

  2. انس بدام کہتے ہیں

    بہت خوب، اگرتکرار نہ ہوتا تو اور بہترین ہوتا۔

تبصرے بند ہیں۔