ہم چھٹیاں کیسے گزاریں؟

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی

انسان جب تک کسی عمل میں مصروف رہتاہے، اُس کے ذہن ودماغ پرخیالات کی یلغارنہیں ہوتی؛ لیکن جیسے ہی اُس کی مصروفیت ختم ہوتی ہے،خیالات کی یورش اُس کے ذہن ودماغ کومفلوج کرنے کرنے پرتُل جاتی ہے۔یہ خیالات عموماً دوطرح کے ہوتے ہیں، ایک وہ، جوبُری اشیاء کوریشمی رومال میں لپیٹ کرچاندی کی طشتری میں پیش کرتے ہیں ، دوسرے وہ، جواچھی چیزوں کوبوسیدہ اوربدبودارخرقۂ گداگرمیں تہہ کرکے سامنے لاتے ہیں ۔انسان (الاماشاء اللہ)چوں کہ ظاہرپرست واقع ہواہے؛ اِس لئے ہرچمکتی چیزکوسوناسمجھ لیتاہے؛ چنانچہ ریشمی رومال میں لپٹی ہوئی بُری چیز کی طرف لپکتاہے اوراُسے اپنے دامن میں ڈال لینے کی کوشش کرتاہے، جس کے نتیجہ میں اِس جہانِ آب وگِلْ میں نقصان اوراُس جہانِ شِیْروگُلْ میں خسران ہاتھ آتاہے۔

دونوجہان کے اِس نقصان اورخسران سے بچنے کے لئے سب سے پہلے ہمیں اپنی ظاہرپرستی کوترک کرناہوگا؛ کیوں کہ کسی بھی مقامِ بلندکوحاصل کرنے کے لئے سطحِ ارض کوچھوڑکرزیرِ تُراب اترناپڑتاہے،موتی ہمیشہ سمندرکی گہرائی میں دستیاب ہوتاہے، جب کہ جھاگ سطحِ آب پرتیرتارہتاہے۔

نہ جاظاہرپرستی پراگرکچھ مرتبہ چاہے

کہ دانہ خاک میں مل کرگل گلزارہوتاہے

آج کل اسکولوں اورکالجوں میں تعطیل کاموسمِ بہارہے۔ تقریباً سال بھرتعلیمی مصروفیات میں لگے رہنے کے بعدآزادفضاؤوں میں آزادپنچھی کی طرح سانس لینے کی فرصت نصیب ہورہی ہے؛ لیکن فرصت کے اِن شب وروز میں سوچوں کی یورش ہوتی ہے، جس کی فوج میں بھیس بدل کرہمارازلی دشمن(شیطان) بھی شامل ہوجاتاہے اورگیدڑ کی طرح گھات لگاکرہم وارکرنے کی کوشش کرتاہے؛ چنانچہ ہم جیسے ہی رادائے غفلت اپنے اوپرڈالتے ہیں ، اُس کاخطی نیزہ ہمارے دل کے پارہوجاتاہے، جس کے نتیجہ میں کبھی ہماری تعلیم نامکمل رہ جاتی ہے، کبھی ہم آورہ گردی کی راہ اپنالیتے ہیں اورکبھی تعلیم کے واسطے سے سیدھے راستے سے برگشتہ ہوجاتے ہیں ۔اوراِس طرح ہماری مثال’’دھوبی کاگدھا، نہ گھرکا، نہ گھاٹ کا‘‘کے مصداق بن جاتے ہیں ، نہ توگھرمیں ہماری عزت کی جاتی ہے اورنا ہی معاشرہ پروقارنظروں سے ہمیں دیکھتاہے، پھرایسی حالت میں ہم اپناذہنی توازن کھوبیٹھتے ہیں اوراپنے لئے ایسے راستے (خودکشی، لفنگابازی وغیرہ)کاانتخاب کرتے ہیں ، جس کی شریعت تواجازت ہی نہیں دیتی، معاشرہ بھی تھوتھوکرتاہے۔

خیالات کی یورش سے بچنے اورازلی دشمن سے محفوظ رہنے کے لئے ہمیں کچھ ٹھوس قسم کے ارادے کرنے ہوں گے اورایک لائحۂ عمل مرتب کرناہوگا، جس کے مطابق ہم اپنی پوری تعطیل گزارسکیں اورہمارے اِن ارادوں اورلائحۂ عمل پرکاربندہونے میں گھروالوں کوبھی ساتھ دیناہوگا۔اگرہم نے ٹھوس ارادے نہیں کئے اورگومگوں کی کیفیت میں پڑے رہے توہمیں ہماری سوچ اوردشمن اُس طرح درست پکڈنڈی سے نیچے دھکیل دیں گے ڈ جس طرح شیرِ نر اپنے دشمن کودھکیلتاہے۔

آیئے اب وہ لائحۂ عمل بھی دیکھتے چلیں ، جس کے مطابق ہمیں اپنی پوری چھٹیاں گزارنی ہیں:

(۱)  پنچ وقتہ نمازوں کی پابندی:

 ہمیں اپنے آپ سے یہ عہدکرناہوگاکہ ہماری کوئی بھی نماز قضاء نہیں ہوگی، خواہ ہم کہیں بھی رہیں ۔ سیروتفریح کے لئے جائیں یاشادی بیاہ میں شرکت کے لئے۔ کھیل کے میدان میں ہوں یاہاسپٹل کے وارڈ میں ۔دوستوں کے جمگھٹوں میں یابازارکے شورہنگاموں میں ۔ کہیں بھی ہوں بہرصورت نمازقضانہیں ہوگی۔

(۲)  قرآن مجیدکی تلاوت:

 سال بھرتعلیمی مصروفیات کی وجہ سے قرآن مجیدکی تلاوت کا موقع میسرنہیں ہوا۔ ابھی وقت فارغ ہے، کوشش کیجئے کہ روزانہ حسب ِسہولت ضرورقرآن مجیدکی تلاوت کی جائے اوراللہ اگرتوفیق دے جس زبان پرعبورہو، اُس زبان میں اُس کے ترجمہ کابھی اہتمام کیاجائے؛ تاکہ ہم یہ جان سکیں کہ ہمارے رب نے ہمیں کہاہے؟

(۳)  ضروری دینی تعلیم کا حصول:

 اگربنیادی دینی تعلیم سے بھی ہم کورے ہیں توہمیں اِس کے حصول کی انتہائی فکرکرنی چاہئے؛ کیوں کہ بنیادی دینی تعلیم کے بغیرتوہماراوضوبھی درست نہیں ہوسکتا، چہ جائیکہ نماز ! اِس کے لئے ہم صباحی ومسائی مکاتب میں جاسکتے ہیں یاپھراللہ اگرتوفیق دے تبلیغی جماعت میں چلے جائیں ، عملی تربیت بھی حاصل ہوجائے گی۔

(۴)  دینی اجتماعات میں شرکت:

 علاقہ یااطراف واکناف میں ہونے والے دینی اجتماعات میں شرکت کرنی چاہئے، وہاں تھوڑے وقت زیادہ نفع حاصل ہوجایاکرتاہے۔ اِسی طرح ہفتہ واری مجالس، مثلا: درسِ حدیث اوردرسِ قرآن کی مجالس میں حاضری دینی چاہئے کہ یہ بھی کم وقت میں زیادہ نفع بخش ہوتی ہیں۔

(۵)  دینی کتابوں کے مطالعہ کااہتمام:

وقت کی فراغت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہمیں دینی کتابوں کابھی مطالعہ کرناچاہئے، خصوصاً اُس ذات کی سیرت پڑھنی چاہئے، جس کی امت میں ہماراشمارہوتاہے۔ یہ اِس لئے بھی ضروری ہے کہ آج اُس قدسی صفت ذات پردشمن کیچڑ لگارہے ہیں ۔ ہم اگراُن کی سیرت پڑھیں گے تودشمن کومنھ توڑجواب دے سکیں گے۔ ورنہ دشمن کی طرف سے لگائے گئے الزام کے نتیجہ میں خوداُوبنے ڈوبنے لگیں گے۔

(۶)  جدید ذرائع سے استفادہ:

 آج کے اِس ترقی یافتہ دورمیں ہمیں جدیدذرائع سے فائدہ بھی اُٹھاناچاہئے، اگرہم کمپیوٹرسے واقفیت رکھتے ہیں اورانٹرنٹ کااستعمال کرسکتے ہیں توہمیں چاہئے کہ ہم دین کی اچھی باتیں اپ لوڈ کریں ؛ تاکہ دوسروں تک دین پہنچانے والے بن جائیں اوریہ اِس قدراہتمام اورزیادتی کے ساتھ کریں انٹرنٹ کی غلط چیزوں کی چمک ماندپڑجائے۔اگرہم نے اِس لائحۂ عمل کے مطابق زندگی گزارلی توانشاء اللہ اِس جہان کے نقصان اوراُس جہان کے خسران سے بچ جائیں گے۔ اللہ ہمیں اِس کی توفیق دے۔ آمین!

تبصرے بند ہیں۔