ہم کب بیدار ہوں گے!

مطیع اللہ مطیعؔ

اگر کسی ندیم نامی فلا ں فلاں غریب اور لاچار لڑکے کو اگر ہم اچھی خاصی رقم خرچ کرکے ڈاکٹر یا انجینئر بناتے ہیں، تو وہ ہماری قوم کو کیا دے گا،سماج یا سوسائٹی میں پہلے ہی سے لاکھوں ڈاکٹرس اور انجینئرس موجودہیں، انھوں نے ہماری قوم کو کیا دیا،انھوں نے تو ہماری قوم سے علاج اور تعمیر کے نام پر موٹی موٹی رقمیں لیکر اپنا ہی اُلّو سیدھا کیا، اپنے ہی عیش و عشرت میں لگے ہوئے ہیں۔ جو ندیم سے پہلے ڈاکٹرس اور انجینئرس بنے ہیں، وہ اپنی دولت کے بل بوتے پر مغربی کلچر کے عاشق بن گئے، انھیں اب نہ حمد یاد ہے، نہ نعت یاد ہے اور نہ ہی وہ علامہ اقبال کی لب پہ آتی ہے دعا پڑھنے کی زحمت کرتے ہیں، مگر انھیں پاپ سانگ بالکل یاد ہے، کیونکہ ان کے گھروں میں پاپ سانگ سے ہی ہر صبح طلوع ہوتی ہے، یہاں تک کے نمازسے وہ کوسوں دور ہوگئے ہیں، مسجد کا پتہ پوچھنے پر انھیں مسجد کا پتہ معلوم ہوتا ہے، ان کی عورتیں اور بہو بیٹیاں بیوٹی پارلر جاکر ہزاروں کا میک کرکے آتی ہیں، اپنے بال سیٹ کرواتی ہیں پھر، وہ نماز کیلئے وضو کیسے کریں گی۔ ندیم کو بھی انجینئر یا ڈاکٹر بنا نا سماج اور معاشرے کیلئے مضر ثابت ہوگا، ان کی چال ڈھال دیکھ کر ہمارے معاشرے میں نوجوان طبقہ بھی گمراہ ہوسکتا ہے۔ جو لوگ دوسروں کی امداد پر، زکواۃ کی رقم لیکر ڈاکٹرس اور انجینئر بنے ہیں، ان کی اب غیرت مر گئی ہے، ان کی آنکھوں کا پانی مر گیا ہے،وہ سماج اور ہماری قوم کو حقیر اور ذلیل سمجھنے لگے ہیں۔ سماجی اداروں کو چاہیے کہ وہ ڈاکٹرس اور انجینئرس بنانے میں اپنی رقومات کو صرف نہ کریں بلکہ قوم کو بیدار کرنے میں اپنی محنت،وقت اور دولت صرف کریں۔ جب قوم بیدار ہوگی تب ہی ہمارے معاشرے کی ہمارے ملک کی ترقی ممکن ہے ورنہ ہماری پستی اور بربادی کی پوری دنیا منتظر ہے۔

یہ ہمارا مشاہدہ ہے کہ ہمارے سماج میں لوگ علماء کی تقریریں سالوں سال سے سنتے آرہے ہیں، دینی اور مسائل کی کتابوں کی ورق گردانی کرتے کرتے تھک گئے، اب علماء کی تقریریں ہمارے ذہنوں پر بار گزرتی ہیں، مگر اس کے باوجو د ہماری قوم کو جو بیدار کرنے کی ضرورت ہے اس کے دور دور تک کوئی آثار یا علامت نظرنہیں آتی۔ ہمارے عمل کی رفتار زیرو کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔ علماء حضرات جو لاکھوں کا مجمع لگا کردھواں دھار تقریریں کرتے ہیں اور اپنے علم و دانش کا مظاہرہ کرتے ہیں، اگر ہمارے علماء ہماری قوم کو بیدار کرنے سے قاصر ہیں، انھیں عمل کی طرف گامزن کرنے سے قاصر ہیں تو ان کی تقریریں بے سود ہیں، ان علم اور دانشمندی کسی کام کی نہیں۔ اس بات سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ صرف علماء کی تقریریں قوم کی تقدیریں نہیں بدل سکتی، بلکہ ہمیں ایک ایسا حوصلہ مند اور با شعور قائد چاہیے جس کے اشارے پر قوم اپنی سمت کا تعین کرسکے۔ ابھی ہمیں اس بات کی خبر ہی نہیں کہ ہمیں کس سمت میں سفر کرنا ہے، اور راہ میں کیا کیا دشواریاں حائل ہوں گی، ان دشواریوں کس حکمت عملی کے ساتھ دور کیا جاسکتا ہے۔ چند سال قبل نیپال میں جو انقلاب آیا تھا، وہ انقلاب لانے والی ایک غریب اور کمزور قوم تھی، بھوکے پیاسے رہ کر اپنے اند ر اپنے حقوق حاصل کرنے کاجذبہ ان کے دلوں میں چنگاری کی فروزاں کرکے وہ زندگی گزار رہے تھے، انھیں صحیح وقت کا انتظار تھا۔ صحیح وقت پر انھوں نے نیپال کی بادشاہت کا، ان کے جابرانہ رویے کا اینٹ کا جواب پتھر سے دیا،ان کی بادشاہت کا قلمع قلمع کردیا۔ انھیں نیست نابود کردیا۔ ہمیں آج تک اس بات کا علم نہیں کہ ہمیں کس سمت جانا تھا، ہم کس سمت جارہے ہیں، علماء حضرات کو کیا کرنا تھا علماء حضرات کیا کررہے ہیں۔ علماء خود ایک پلیٹ فارم پر نہیں، ایک جھنڈے تلے نہیں، جبکہ انھیں معلوم ہے، ایک اللہ ہے، ایک اللہ کی کتاب ہے، ایک ہی کلمہ پڑھنے والے ہم ہیں۔ پھر ہم فرقوں میں کیو ں بٹ گئے، پھر ہم مسلکوں میں کیوں بٹ گئے۔ حکومت کس کو کرنی تھی، حکومت کون کرتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے جب ہماری قوم بیدار تھی تو ہمارے سروں پر تاج اور گوہر پائوں کے نیچے،زرا سی غفلت سے تاج عجائب گھروں کی زینت بن گئے، اب ہمارے سرو ں پہ خاک، کنکر پائوں کے نیچے۔

علما ء حضرات صرف جینا چاہتے ہیں۔ غریبی میں مفلسی میں انھیں جینا پسند ہے، انھیں پستی کی طرف جانا پسند ہے، دین کو علماء نے پڑھ لیا، سمجھ لیا، مگر عمل سے کوسوں دور ہوگے، کسی مدرسے میں ملازمت کرلی، گھر گھر جاکر ناظرانہ قران پڑھانے لگ گئے، بس ان گنے چنے کاموں کو ہی وہ اپنی ذمہ داریاں سمجھ بیٹھیں ہیں۔ اگر یہی انداز ہمارے علما ء کا رہا تو ہماری قوم کا خدا حافظ۔ آج بھی وقت ہے سنبھلنے کا اور سنبھالنے کا۔ علماء اگر اپنی ذمہ داریوں سے کنارہ کش ہونے لگیں گے توپھر یہ قوم بھی لڑکھڑانے لگے گی۔ تاریخ کا جائزہ لیجئے، بھوکے پیاسے صحابیوں نے کئی دنوں تک دشمنوں کا مقابلہ کیا، چاہیے وہ جنگ بدر ہو یا پھر جنگ احد ہو۔ حکومت اور اہل اقتدار اپنے قوانین کے مطابق کام کرتے ہیں، علماء ک و چاہیے کہ بے خوف ہوکر دین کے قوانین کے مطابق محوء عمل رہے، نصرت اللہ کی طرف سے ہوگی، کیا تم ابابیلوں کا لشکر بھول گئے ہو۔ کیا تم نے جنگ حزاب کو نہیں پڑھا، کہ دہشت سے تمھارے قلوب منہ کے بل آرہے تھے، بھوک اور سردی سے مرے جارہے تھے، پھر بھی اللہ نے تمھیں نصرت عطا کی۔ اس کے باوجود تم دہشت اور خوف میں مبتلا ہو۔

علماء حضرات یہ بات دھیان میں رکھیں کہ اب تقریریں بہت ہوئی اب قوم کو عمل کرنے کا درس دیں، قوم کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ چند چھوٹے موٹے سماجی کام کرکے، کسی غریب کو کاپیاں دے کر،کسی بیوہ کو راشن دے کر کسی غریب اور نادار لڑکی شادی کراکے اخبار میں تصویریں شائع کراکے آپ کی زندگی کا مقصد پورا ہوا ہے یہ سراسر غلط بات ہے، آپ کی ناسمجھی ہے۔ قوم کو جھنجھوڑنے کی ضرورت ہے، وقت کا تقا ضہ ہے کہ قوم میں بیداری کی روح پھونکی جائے۔

خدا نےآج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی

نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا

تبصرے بند ہیں۔