ہم کیا کر رہے ہیں؟

دستگیر نواز

آج بھی کہیں کسی تقریب میں شرکت کر آتا ہوں،  توکئی دنوں تک اُسکے منظر آنکھوں کے سامنے رواں دواں رہتے ہیں۔ دل میں ایک کرب سا محسوس ہوتا ہے۔ دماغ میں بارہا  ہمارے والد محترم الحاج سرتاج محمد خان قادریؒ ( بانی محمدی قبرستان و عیدگاہ پنشن پورہ لنگر حوض) کے الفاظ ایک طوفان سااُٹھاتے ہیں۔   آپ کے وصال کے کئی سال گزرجانے کہ بعد بھی یوں لگتا ہے۔ یہ آج ہی کہی گئی ہوئی بات ہو۔ اکثر اس طرح کی تقاریب دیکھ کر وہ کہا کرتے تھے، ’سب پیٹرو ڈالر کا کمال ہے ‘ غور کرتا ہوں تو لگتا ہے،  یقیناً ایسا ہی ہے۔

بھلے ہی آج ہمارے ملک۔ ہمارے شہر میں انگنت ملٹی نیشنل کمپنیوں کی بھر مار ہو چکی ہیں۔  جس سے ہمارے نوجواں تو فایدہ اُٹھا ہی رہے ہیں، بلکہ چند  ایں،  آر، آئی بھی اس سے استفادہ کر رہے ہیں۔  جو بھی ہمارے نوجواں ملازمت کر رہے ہیں، کسی بھی طرح کا بزنیز ہو، یا پھر کوئی بھی معاشی مصروفیات ہو، کئی نہ کئی راست یابلا راست سبھی کا واسطہ  پیٹرو ڈالر سے ضرور جا ملتاہے۔

کیا یہی انداز تھے ہمارے، تقاریب منانے کے۔ خوشیاں کیا ہم اسی طرح آج سے قبل بھی منایاکرتے تھے۔ شادی، ولیمہ اور دیگر تقاریب میں بے تحاشاپیسہ پانی کی طرح بہاتے تھے۔ محنت و مشقت سے کمائی ہوی دولت یونہی برباد کرتے تھے ہم۔ روپیہ، پیسہ، اسی طرح فضول خرچی کی نظر ہوتا تھا ہمارا۔ بیس پچیس سال پرانے دورکے واقعات  جب ہم  اپنے بزرگوں سے سنتے ہیں تو عجیب کم لگتا ہے او ر بُرا بہت لگتا ہے۔  یہ تمام واقعات افسوس کے ساتھ جب بھی کسی بزرگ کی زبانی سنتے ہیں تو بہت ہی دکھ ہوتا ہے۔ کسی بزرگ نے کہا ہماری تقاریب کی دنیا مثال دیتی تھی۔ لوگ شرکت کر کے مسرور ہوتے، ہر طرف پُر سکوں ماحول بنا ہوتا، اُن تقاریب میں ہمیں خلوص، محبت، انکساری سے خاطرداری کرتے ہوئے میزباں ملتے۔ تو  دوسری طرف  با ادب، باکردار، احساس و اخلاص کے ساتھ ایک دوسرے کی خوشیوں میں خوش ہو تے ہو ے مہماں ہوتے تھے۔

اچانک حیدرآباد کا ماحو ل بدلہ ہر گھر سے کوئی نہ کوئی بڑا یا چھوٹافرد گلف کا رُخ کر نے لگا۔ دیکھ تے ہی دیکھ تے حیدرآباد کی چمک دمک میں گلف کرنسی کی چاندی چمکنے لگی۔ پھر کیا تھا بس رشتے ناطے بھی روپے اور ریال کے تقابل کی نظر ہو گئے۔ شادی کہ لئے صرف اُنہی لڑکوں کو ترجیح د ی جانے لگی جو گلف میں نوکر ہو۔ یہاں کے اچھے سے اچھے رشتے گلف والوں کہ سامنے ماند پڑگئے۔ یہیں سے شروع ہوی حیدرآبادی تہذیب، تمدن، روایات، رسم و رواج، اخلاقی کردار کے زوال کی داستاں۔

حیدرآبادی جب سے صرف بیرونی ممالک میں ملازم لڑکوں کو تر جیح دینے لگے۔ تب سے آج تک وہی سلسلہ جاری ہے۔ ہوا یوں کہ شادی  کے لیے کوئی خاص دن، مہینہ، تاریخ مخصوس نہیں رہے، کیوں کے لڑکے کا دورہ حیدرآباد ہوگاتب ہی شادی ہوگی۔ بس پھر کیا تھا۔ یہ ہمارا پہلا قدم تھا، جو ہم اپنی روایات کو توڑنے اُٹھائے تھے۔ جب سے آج تک یہ سلسلہ چلا آرہا ہیں۔  دیکھ تے ہی دیکھتے  نہ جانہ کتنے رشتے صرف پیٹرو ڈالرکی چمک دمک پر طے پائے جو کسی بھی طرح سے مناسب نہ تھے بلکہ ایک دوسرے  کے برعکس تھے۔ لیکن گلف والوں کے ولیمہ کی شان و شوکت، پیسہ کی فضول خر چی دیکھ کر ہر کوئی اپنی لڑکی انہیں ہی دینے کے لئے بے چین رہنے لگے اورجس کسی کی قسمت میں یہ خوشی نہ تھی اُس نے گلف والوں کو بُرا بھلا کہے کر اپنی تسلی کرلی۔

آج حالات کچھ اور ہی ہیں۔ کل جورشتہ NRI&NRE  کے کارڈ پرطے پائے تھے، اُن میں سے نا جانہ کتنے کبھی کے ختم ہو گئے، کچھ ا ٓج بھی ختم ہو رہے ہیں۔  اس بات کا ثبوت آئے دن اخبارات کا داغ بنتے ہوے طلاق کے اشتہارات ہیں۔ جس عمل کو اسلام نے سخت نہ پسند کیا وہی عمل آج ہم میں عام ہوگیا ہیں۔  ہان کچھ جوڑے خو ش گوار زندگی بسر کر رہے ہیں۔ جہیز کو کچھ اس طرح سے اپنے آپ پہ مسلط کر لیا گیا، کہ آج ہم کو اس کے بدتریں نتائج کا سامناکرنا پڑرہا ہیں۔ آج  بھی نہ جانے کتنی لڑکیاں اس لعنت کی وجہ سے ٹھکرائی جا رہی ہیں اور کئی شادی شُدہ  زند گیاں تلخیوں میں بسر ہو رہی ہیں۔  اسی جہیز کی بدولت ہماری ماں،  بہن، بیٹی، بے پردہ  ہو کر عدالت کی لت میں پڑگئی، جہیزی مقدمات نے سرے بازار لاکھڑا کر دیا۔ اس سے قبل ہی ہم بے پردگی کہ عادی ہو چکے تھے، Videography کے ذریعہ، پھر بھی ہم میں یہ وبا اپنی جڑیں مضبوط کرتی چلی گئی۔

جہیز اور وڈیوگرافی کی وبا کیا کم تھی۔ کہ ہم اور بیماریوں میں مبطلہ ہو گئے۔ بیانڈ باجہ اور آتش بازی، ان کارِ شیطانی پر ہم پیسہ یوں لُٹارہے ہیں خدا خیر کرے، آتش بازی میں جلتاہوا پیسہ دیکھ کر ہمیں تو کوئی افسوس ہو ناہو، ہاں دیوالی ضرور شرما رہی ہے۔ ان بیماریوں نے اتنی شدّت سے شہر حیدرآباد کو اپنی لپیٹ میں لیا ہیں،  اتنی شدّت موسیٰ ندّی میں آئی طغیانی بھی نہ لی ہوگی، اس شدّت کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ شہر حیدرآباد کا یہ حال ہوگیا ہے کہ کسی سڑک پر، کسی محلہ میں کوئی بارات دیکھ کر یہ اندازہ نہیں لگایا جاسکتا ہے۔ یہ کس کی بارات ہیں،  ہاں اس ملک میں کچھ Secular ہے تو بس یہ بارات ہیں۔

ہم تمیز ہی نہیں کر پاتے ہیں کہ کس مذہب سے تعلق ہیں ان باراتیوں کا، ایک جیسی پگڑیاں، بیانڈ باجہ اور آتش بازی وہی بے ہودہ قسم کا ناچ، سب کا سب ایک جیسا انداز، اذان ہو یا جنازہ گزرے کوئی پرواہ نہیں۔ بس خوشیاں منائی جا رہی ہیں۔  نکاح، کھانا، رخصتی، میزبانی، مہمان نوازی سب درہم برہم۔ پھر رات تمام محلہ والوں کی نیند حرام، پڑوس میں کوئی بیمار ہو یہ بھی خیال نہیں۔ یہ سلسلہ دوسرے روز بھی چلتا ہیں، دلہے کے لیے ہار لیے جانے کا پروگرام ہیں۔ شادی خانہ کا عالم تو کسی مچھلی مارکٹ سے کم نہیں۔ یہاں کا شور شرابہ کچھ اور ہی طرح کا ہوتا ہیں Orchestra,DJ اور Dance لگتا ہے یہ سب آج کے دورمیں خوشیاں منانے کے لئے ضروری ہیں۔

آج کل کسی بھی تقریب کے لیے وڈیوگرافر اور شادی کہ لیے قاضی صاحب بہت اہم ہستی ہوتے ہیں۔ نکاح کی حد تک قاضی صاحب، ساری تقریب کہ لیے وڈیوگرافر اوریہ نا آئے تو نوشہ گاڑی سے بھی نا اُترے، نوشہ کے والد، بھائی، بھنوئی اور قریبی رشتے دار کسی سے ملنا تک گوارا نہ کریں۔ کھانے کا معاملہ نہ ہی غور کریں تو مناسب ہیں۔  کیو ں کہ، سوٹ بوٹ بہتریں ٹائی۔ لاجواب گھڑیاں باندھے۔ رنگیں موبایل تھامے ہوے میزباں جب کھانے کی میزوں کی سمت دوڑتے ہیں،  تو ایسا لگتا ہہ کہ قیامت برپا ہوگئی ہو۔ نہ ہی بڑوں کا ادب نہ ہی چھوٹوں کا لحاظ لگتا ہیں شہرمیں فاقہ کشی کا دور دورہ ہیں۔

آخر اس طرح کے اندازِ زندگی کے کیا وجوہات ہیں۔ ہمیں غور کرنا ہوگا۔ بزرگوں کہ پاس اُن کے زوال کی کئی وجوہات ہیں۔ راجہ مہاراجہ۔  بادشاہوں نے اپنی ر نگ رلیوں، اپنی عیش وعشرت کی خاطر اپنی عوا م کو تباہ وبربادکیا۔ کسی کہ پاس پولیس ایکشن کا جواز ہے۔ کئی لوگ فسادات کا شکوہ کرتے ہیں۔ کوئی بٹوارہ کو اپنی بربادی کا سبب مانتے ہیں۔

خدا نہ کریں کل ہم برباد ہوئے تو ؟ ہم کس پر الزام لگایئں گے ؟ ہمیں یہ سوچنا چاہئے، بزرگوں نے جو وجوہات بتائی اس حقیقت کو دنیا بھی تسلیم کرتی ہیں۔  کیا کل ہمیں اپنے آپ میں پچتانا پڑے گا؟ کیا ہم خود اپنی بربادی کہ ذمہ د ار ہوں گے؟ کل کے پچتانے سے اچھا ہے، ہم آج ہی اپنا محاسبہ کریں۔ اپنی خوشیاں اسلامی طرزپر منائے اور آنے والی نسلوں کے لئے ایک مثال قائم کر جائیں۔  کب تک ہم اسی طرح ہر قدم پر گرتے رہیں گے۔ کوئی حد بھی ہونی  چاہئے۔

ہمارے اخلاق۔ ہمارا احساس۔ نیک جذبہ۔ کردار آبا و اجداد سے ملی تربیت۔ کیا ہوی؟

وقت ہے ابھی بھی ہم سنبھل سکتے ہیں۔ بس ایک بار ٹھنڈ ے دماغ سے سوچنا ہوگا۔ کیا ہم وہی مخلوق ہیں۔ جسّے اللہ نے اشرف المخلوقات بنا کر زمین پر بھیجا اور  مقدّ س کتاب دی جسمیں دستورِحیات ہے۔ کیا ہم اُسی دستور پر اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں ؟ نہیں تو پھر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم کیا کر رہے ہیں؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔