عبدالکریم شاد
ہم یوں چاندنی میں آفتاب دیکھتے رہے
چھیڑ کر انہیں رخِ عتاب دیکھتے رہے
…
بزم میں وہ ہم کو پُر عتاب دیکھتے رہے
ہم بھی ان کو ہو کے آب آب دیکھتے رہے
…
اپنی نازکی پہ ناز تھا بہت گلابوں کو
ان کے لب کھلے تو سب گلاب دیکھتے رہے
…
پھیرتے رہے نظر جہاں میں ہر حسین سے
اور پھر نظر کا انتخاب دیکھتے رہے
…
اک نظر معاف تھی جو بے ارادہ پڑ گئی
جب ملی نظر تو بے حساب دیکھتے رہے
…
ہم نے کر دیا تپاک سے سوال عشق کا
اور کیا پھر ان کے پیچ و تاب دیکھتے رہے
…
تشنگی دل و نظر کی اب بجھے کہ تب بجھے
شاد شوقِ دید سے حجاب دیکھتے رہے
تبصرے بند ہیں۔