ہم یوں چاندنی میں آفتاب دیکھتے رہے

عبدالکریم شاد

ہم یوں چاندنی میں آفتاب دیکھتے رہے

چھیڑ کر انہیں رخِ عتاب دیکھتے رہے

بزم میں وہ ہم کو پُر عتاب دیکھتے رہے

ہم بھی ان کو ہو کے آب آب دیکھتے رہے

اپنی نازکی پہ ناز تھا بہت گلابوں کو

ان کے لب کھلے تو سب گلاب دیکھتے رہے

پھیرتے رہے نظر جہاں میں ہر حسین سے

اور پھر نظر کا انتخاب دیکھتے رہے

اک نظر معاف تھی جو بے ارادہ پڑ گئی

 جب ملی نظر تو بے حساب دیکھتے رہے

ہم نے کر دیا تپاک سے سوال عشق کا

اور کیا پھر ان کے پیچ و تاب دیکھتے رہے

تشنگی دل و نظر کی اب بجھے کہ تب بجھے

شاد شوقِ دید سے حجاب دیکھتے رہے

تبصرے بند ہیں۔