ہندستانی آئین اور سیکولرازم

حافظ محمد ہاشم قادری صدیقی

آئینِ ہند میں ہندوستان کو ’’ریاستوں کی یونین‘‘ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے، جس کا مطلب وفاقی طرزِ حکومت ہے، اس نظام حکومت میں ایک تحریری آئین کا ہونا لازمی ہے، جس کے ذریعے مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتوں کے درمیان اختیارات کی تقسیم عمل میں آتی ہے، عدلیہ کو آزاد کیا گیا ہے (لیکن افسوس اب اس میں گھس پیٹھ کی جارہی ہے) عدلیہ کو آزاد رکھنے کا مقصد انفرادی اور جمہوری اصولوں کا تحفظ ہے، جو معاشرے کو تمام لوگوں کے ساتھ برابری کا درجہ دے، بھارت کی عدالت عظمیٰ اور ریاستی عدالتوں کو یہ اختیار حاصل ہے کہ کسی قانون سازی یا انتظامیہ کی کاروائی کو غیر آئینی قراردے سکیں، ریاستوں کے غلط فیصلوں کو دفعہ 12اور 13کے تحت غلط قرار دے سکیں، اس میں بہت سے نکات ہیں، آزاد ہندوستان کا یہ آئین دنیا کے تمام دستوروں میں سب سے زیادہ ضخیم ہے، اس میں دنیا کے بہت سے دستوروں کے بہترین نکات شامل ہیں، آئینِ ہند میں مرکزی حکومت کے ساتھ ہی ریاستوں کے بنیادی فرائض، صدر جمہوریہ کے ہنگامی اختیارات، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ساتھ پبلک سروس کمیشن، فنانس کمیٹی، الیکشن کمیشن جیسے اہم اداروں کی تفصیلات کی بھی وضاحت کردی گئی ہے، جب قانون نافذ کیاگیا تھا، تب اس میں 355؍دفعات اور 8شیڈول تھے؛ لیکن اس میں وقتاً فوقتاً ترمیمات ہوتے رہتے ہیں اور اب تو من مانی؛ بلکہ ضد و ہٹ دھرمی سے اکثریتی فرقہ کو خوش کرنے اور اقلیتوں کی تذلیل کرنے کے قوانین پاس کیے جارہے ہیں، جو بہت ہی تشویش ناک اور افسوس ناک ہے، آئینِ ہند کے بنانے میں جہاں ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر اور بہت سے ذی علم لوگ شامل تھے، وہیں اس ملک کی آزادی کے لیے بہت زیادہ قربانی دینے والے مسلمان، خاص کر علما نے اپنی جانوں کی قربانیاں دی ہیں، وہ بھی آئینِ ہند کے بنانے میں برابر کے شریک تھے، جنہوں نے 2سال 11مہینے اور18دن کی کڑی محنت کے بعد آئین ہند کو مرتب کیا، جن میں چند نمایاں نام یہ ہیں۔

مولانا ابوالکلام آزاد، بیرسٹر آصف علی، خان عبد الغفار خان ( سرحدی گاندھی) محمد سعد اللہ، عبدالرحیم چودہری، بیگم اعجاز رسول اور حضرت مولانا حسرت موہانی، سبھی اراکین نے اس میں دستخط کیے، اسمبلی کا اجلاس 24دسمبر 1949ء کو منعقد ہوا، جس میں ڈاکٹر راجندر پرساد کو اتفاق رائے سے ہندوستان کا اولین صدر جمہوریہ منتخب کرلیا گیا اور آئینِ ہند کو 26جنوری 1950ء کو نافذ کردیا گیا، 26جنوری 1950ء کو اسی عہد کی تجدید کرتے ہوئے ہندوستان کو ایک ’’مقتدراعلیٰ جمہوریہ‘‘میں منتقل کردیا گیا۔ ’’26جنوری ‘‘ کو یوم جمہوریہ کے طور پر ہرسال منایا جاتا ہے، اسی دن کا یہ بھی پس منظر ہے کہ 1930ء میں لاہور کے مقام پر دریائے راوی کے کنارے انڈین نیشنل کانگریس نے اپنے اجلاس میں، جس کی صدارت جواہر لال نہرو نے کی تھی، ڈومنین اسٹیٹس کے بجائے مکمل آزادی کے حصول کو اپنا نصب العین قرار دے کر 26جنوری کو مکمل آزادی کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا گیا، واضح رہے کہ مکمل آزادی کا نعرہ حضرت مولانا حسرت موہانی کا تھا، جو کہ لندن کانفرنس و کئی کانفرنسوں میں آپ نے دیا تھا، اس کی تفصیل کے لیے تاریخ کا مطالعہ فرمائیں۔ افسوس کہ آزادی کے 70سالوں کے بعد بھی ہمارے ملک کا کیا حال ہے کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے، ہر طرف انارکی پھیلی ہوئی ہے، کمزوروں کا استحصال، مہنگائی سے ہرانسان کراہ رہا ہے، ہجومی قتل کے ذریعے بے قصور لوگوں کو بے دردی سے موت کے گھاٹ اتاردیا جارہا ہے، لوگ انصاف کے لیے دوڑ دوڑ کر پریشان ہیں، کراہ رہے ہیں مسلمانوں کے ساتھ امتیاز و تعصب کی پالیسی اپنائی جارہی ہے اور ملک کو ہندو۔ مسلم کے خانوں میں بانٹا جارہا ہے اور پچھڑی ذاتوں کے حقوق کو بھی ختم کیا جارہا ہے، یہ کیسا سیکولرازم ہے؟اقتدار میں رہنے والے نیتا حضرات کانٹوں کو پھول اور مصیبتوں کوآرام قرار دے رہے ہیں۔ لوگ در در کی ٹھوکریں کھارہے ہیں، جبکہ حکمراں ذرائع ابلاغ میں رات دن خیالی جنتوں اور افسانوی خوشحالی کا ڈھنڈھورا پیٹ رہے ہیں۔

ہندوستانی سیکولر ازم:

ہندوستان ایک ایسا ملک ہے، جہاں مختلف قوم کے لوگ بستے ہیں، جہاں مختلف مذاہب اور عقائد رکھنے والے لوگ صدیوں سے حب الوطنی کے جذبے کے ساتھ رہتے، بستے چلے آرہے ہیں، اس ملک کا اتحاد، سا لمیت، یگانگت صحیح معنوں میں اس وقت قائم رہ سکتی ہے، جب یہاں حقیقی معنوں میں وفاقی نظام قائم ہو، تمام مذاہب اور عقائد وافکار کو تحفظ حاصل ہو، ہرنسل اور زبان وثقافت کے پھلنے پھولنے کی راہیں ہموار ہوں؛لیکن افسوس کہ آج اقلیتوں، خاص کر مسلمانوں و دیگر اقلیتوں کے مذہبی، انسانی حقوق پامال کرکے عملاً اکثریتی فرقے کے لوگوں کو خوش کرنے کے لیے نظامِ حکومت چلایا جارہا ہے، مالیات اور ذرائعِ ابلاغ پر پورا کا پورا قبضہ کرلیا گیا ہے، مذہبی اقلیتیں عد مِ تحفظ کے احساس سے پریشان و خوف زدہ ہیں، ایسے حالات میں سیکولرازم کیسے مضبوط ہوگا ؟صحیح معنوں میں سیکولرازم کا جنازہ ہی نکال دیا گیا ہے، کرسی کے لیے بے ضمیر نیتاؤں نے پورے ملک کو ذات برادریوں میں تقسیم کردیا ہے، مذہبوں کے درمیان نفرت کا بازار گرم کردیا گیا ہے، ایسے میں کیا آج کوئی کہہ سکتا ہے کہ آج فیڈر ل نظام قائم ہے؟ہندوستان نے برطانیہ سے 15اگست 1947 ء کو آزادی حاصل کی تھی ؛لیکن ہندوستان کا آئین، جو سیکولربنیادوں پر بنایا گیا تھا اور اس کو 26جنوری1950ء کے دن قائم کیا گیا تھا، ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام حکمراں جو کسی بھی پارٹی کے ہوں ان کواس آئین ہند کی پاسداری کرنی چاہیے؛کیوں کہ وہ اس کا حلف اٹھاتے ہیں، اس کی لاج رکھیں، سیکولرازم کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ضمیر کی، فکر کی، مذہبی اور اظہار رائے کی پوری آزادی ہو، جوانسان کا پیدائشی حق ہے؛ لہٰذا ہر شخص کو پوری آزادی ہونی چاہیے کہ سچائی کا راستہ خود تلاش کرے اور زندگی کے تمام مسائل، خواہ ان کا تعلق سیاست اور اقتصادیات سے ہو یا مذہب سے، تبھی صحیح آزادی کہلائے گی، طاقت کے زور پر کسی کا منہ بند کرنا یا دھمکی یا دھونس سے کسی کو اپنا ہم خیال بنانا سیکولرزم کے خلاف ہے۔

یہ ملک صرف تمہارا نہیں، یہ ملک ہمارا بھی ہے :

 ایک تم ہی نہیں تنہا حقدار اس گلشن کے- حق جتنا تمہا را ہے اتناہی ہما را ہے  یہ ملک تمہا را نہیں یہ ملک ہمارا بھی ہے- اس ملک کی آزادی کےلئے جان ہم نے بھی گنوائی ہے   یہ بہت بڑا المیہ اور سانحہ ہے کہ آج ہماری نوجوان نسل بہت کم جانتی ہے کہ جنگ آزادی میں مسلمانوں اور علما کا کوئی کردار رہا ہے، جنگ آزادی کا بگل علمائے کرام نے بجایا اور اپنی جانوں کی قربانیاں پیش کیں، ضرورت ہے کہ نوجوانوں کو ہندوستان کی آزادی کے موضوعات پر کتابیں بانٹی جائیں اور پڑھوائی جائیں۔

ہم سب کو چاہیے کہ موجودہ حالات سے گھبرائیں نہیں، حالات پر کڑی نظر رکھیں اور حکمت و ایمانی بصارت کے ساتھ اتحاد و اتفاق سے مردانہ وار مقابلہ کریں، تعلیم پر پوری توجہ مرکوز کریں، مسلمانوں کے تمام مسائل کا حل صرف تعلیم میں ہے، آرٹیکل 301میں کہا گیا ہے کہ ہر اقلیت چاہے، وہ مذہبی یا لسانی ہو، اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق تعلیمی ادارے قائم کرے اور چلائے، تعلیم ہی بے یارومددگار مسلم قوم کے لیے نسخۂ کیمیا ہے اور اس کی ذمے داریاں قائدین اور اہلِ علم پر ہیں، ملک کو سخت گیر عناصر سے بچانے کے لیے سیکولر (Secular)طاقتوں کی مدد کرنا ضروری ہے، الیکشن کا اعلان ہوتے ہی ان گنت پارٹیاں سامنے آجاتی ہیں اور سب کی سب غریبوں و مسلمانوں کی فلاح کا دم بھرتی ہیں؛ لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے، ایسی پارٹیوں اور ضمیر فروش نیتاؤں کو ووٹ بانٹنے کے لیے کھڑا کیا جاتا ہے؛ تاکہ جو سخت گیر نظریہ والے ہیں ان کا مقصد پورا ہوجائے۔

جمہوریت میں ووٹوں کی اہمیت:

ووٹرایک اہم مقام رکھتا ہے اور ہر ووٹ کی اہمیت مسلم ہے، 1951میں نافذ ہونے والے قانون کے مطابق حقِ رائے دہی سے فائدہ حاصل کرنے کی عمر 21سال تھی، جو بعد میں 1988ء میں 18سال کردی گئی، ہروہ فرد، جس کی عمر 18سال ہوجائے، اس کو چاہیے کہ وہ بحیثیت ووٹراپنے نام کا اندراج کرائے اور انتخابات میں اپنے حقِ رائے دہی کا استعمال ضرور ضرور کرے، ہر ایک ووٹ قیمتی ہوتا ہے، 1996میں صرف 17ووٹوں کی اکثریت سے گجرات میں وڑودراسے لوک سبھا کے لیے ایک نوجوان نے جیت حاصل کی اور اسی طرح 1989میں صرف9ووٹوں سے ایک کنڈیڈیٹ کو آندھراپردیش میں انکا پلی سے لوک سبھا کے لیے منتخب کیا گیا، دہلی میں مشہور فلمی اداکار آنجہانی راجیش کھنہ سے مشہور بی جے پی لیڈر لال کرشن اڈوانی نے 52ووٹوں سے جیت حاصل کی تھی، گزشتہ دنوں مہاراشٹر کے الیکشن میں 9مسلم امیدوار صرف ایک ہزار یا اس سے کم فاصلے سے ہار گئے اور بی جے پی کے 14کنڈیڈیٹس نے صرف 4%سے زیادہ ووٹ ملنے پر جیت حاصل کی، ووٹ کرنا جمہوری حق ہی نہیں، دینی فریضہ بھی ہے، جمہوری حکومت میں ووٹ نہ صرف ہمارا قانونی حق ہے؛ بلکہ شریعتِ اسلامیہ کی طرف سے ہم پرعائد ایک شرعی اور ملی فریضہ بھی ہے۔ ہم تمام لوگوں کو اپنی اپنی ذمے داری نبھانے کی ضرورت ہے؛ تاکہ ہمارا پیارا ملک ہندوستان سیکولرزم پر قائم رہے، جو سب کے لیے فائدے مند ہے، اللہ ہم سب کو اپنی ذمے داری نبھانے اور سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔