تجھ کو چلنا ہوگا…!

  ڈاکٹر شکیل احمد خان

کیا آپ کبھی کسی بد نصیب شخص سے ملے ہیں ؟  اگر نہیں تو آئیے ہم آپ کی ملاقات ایک ایسے انسان سے کرواتے ہیں جسے ساری دنیا ،  بشمول اسکی بیوی،  پیدائشی بد نصیب اور ناکام شخص مانتی تھی۔ لیکن جب اس کا انتقال ہوا تو اس کا شمار دنیا کے چند امیر ترین تاجروں میں ہوتا تھا۔ 1975  میں اُسے دنیا کا دوسرا سب سے بڑا elebrity  C مانا جاتا تھا۔ 1980  میں 90 سال کی عمر میں انتقال کے وقت  دنیا کے 48 ممالک میں 6000  مقامات پر اُ س کے مخصوص برانٰڈ کے چکن ریسٹورنٹ فرانچائیز موجود تھے۔ 1913    میں  118  ممالک میں اِ س مخصوص برانڈ کے18000  ریسٹورنٹ موجود تھے۔ آج کا تو اندازہ نہیں کیونکہ اب اِس کی فرانچایزی دنیا کے تقریبا ہر اہم شہر میں موجود ہے۔ ہو سکتا ہے آپ بھی کبھی اس کی خاص چکن ڈش سے لطف اندوز ہو چکے ہوں  اور   ( Kentucky Fried Chiken ) KFC سے واقف ہوں۔

 قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اس وسیع ترین کاروباری زنجیر کا بانی نہ تو منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوا تھا نہ ہی اس نے سیاسی تعلقات کی بنا پر بینکوں کا قرض ڈبوکر سرمایہ جمع کیا تھا۔ اِ س شخص کے پاس، جسے دنیا آج کرنل سینڈرس کے نام سے یاد رکھتی ہے،  سونے چاندی اور ڈالرس سے بھی قیمتی ایک سرمایہ تھا اور وہ تھا  ’  نا  ‘  سننے  اور برداشت کرنے کی بے پناہ صلاحیت اور قوت!   اِسی سرمایہ نے اُس شخص کو،   جسے کبھی سرکاری اعانت پر گزارہ کرنا پڑتا تھا،   نا صرف ارب پتی تاجر بنا دیا بلکہ ایک قابلِ تقلید نمونہ بھی۔ اِس نکتہ کی تشریح کے لئے اُس کی زندگی پر ایک نظر ڈالنا ہوگیَ۔ ہارلینڈ ڈیوڈ سینڈرس کا جنم  1890  میں امریکی ریاست انڈیانا کے ہنری ویلے مقام پر ایک چھوٹے سے چار کمروں والے مکان میں ہوا۔ والد ایک کسان تھے جو اپنی ایک ٹانگ تڑوا بیٹھے تھے۔ ہارلینڈ بمشکل چھ سال کے ہونگے کہ ایک دن اچانک ان کا انتقال ہو گیا۔ ماں کو ایک فیکٹری میں کام ملا  جہاں اُسے کئی کئی دن گھر سے غیر حاضر رہ کر کام کرنا پڑتا۔ سینڈرس چھوٹے بھائی بہنوں کی دیکھ بھال کرتا اور کچا پکا کھانا بنا کر کھلاتا۔ سات سال کی عمر میں وہ سبزی اور بریڈ بنانے میں ماہر ہو چکا تھااور گوشت بنانا سیکھ رہا تھا۔

 1902میں ماں نے دوسری شادی کرلی۔ سوتیلے والد سے کشیدگی کے باعث  اگلے ہی سال ساتویں جماعت سے تعلیم نا مکمل چھوڑ دی اور ایک کھیت میں بطور مزدور رہنے چلا گیا۔ 13  سال کی عمر میں پوری طرح گھر چھوڑ دیا اور گھوڑا گاڑیوں کی پینٹنگ کرنے لگا۔ 1906  سے 1930 تک اس نے مختلف قسم کے کاموں میں قسمت آزمائی جیسے کنڈکٹر بننا، فوج میں ملازمت کرنا، ریلوے کے مختلف شعبوں میں کام کرناوغیرہ۔ معاشی مسائل کے باعث بیوی بچوں کے ساتھ میکہ جا کر رہنے لگی۔ اس دوران وہ رات میں یونیورسٹی کے فاصلاتی کورس سے قانون کی ڈگری کے لئے  پڑھائی کرتا۔ وکالت شروع کی، بند کرنا پڑی۔ پھر انشورنس ایجنٹ، آفس سیکریٹری، سیلس مین وغیرہ کے کام کیے۔ نائو چلانے کی کمپنی قائم کی، ناکامی ملی۔ گیس کے لیمپ بنانے کی کمپنی شروع کی، ناکامی ملی۔ ایک ٹائر کمپنی میں ملازمت ملی، کمپنی بند ہوگئی۔ اب کیا تعجب ہے اگر ساری دنیا اسے پیدائشی  ناکام شخص سمجھتی تھی؟  لیکن پھر کینٹکی میں آئل گیس اسٹیشن چلانے کا موقع ملا۔ ساتھ میں ریسٹورنٹ شروع کیا۔ حالات بہتر ہونے لگے۔ مخصوص ڈش مشہور ہوئی۔ کینٹکی کے میئر نے ’کرنل‘ کا خطاب  دیا۔ لیکن قسمت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ دوسری جنگِ عظیم کے باعث کاروبار پھر سے چوپٹ ہو گیا۔ وہ قلاش ہو کر سڑک پر آگیا۔ اس کی عمر  65 سال ہو چکی تھی۔ اور اس کے پاس اب صرف غریبوں کو ملنے والی ماہانہ سرکاری اعانت social security  کا  105  ڈالرکا چیک تھا اور چکن بنانے کی مخصوص ترکیب !  مگر یہ شخص اب بھی خود کو بد نصیب اور ناکام سمجھنے کے لئے تیار نہیں تھا۔ اپنی چکن کی ترکیب فروخت کرنے ریسٹورنٹس کے چکر لگانا شروع کیے۔ امریکہ کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک !  رات اپنی کھٹارا کار کی پچھلی سیٹ پر سوتا اور دن میں سفر کرتا۔ کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ اسے کتنی با ر  ’نہیں ‘   میں جواب ملا ہونگا ؟  سو بار،  دو سو بار،  پانچ سو بار، ہزار بار؟  انکے سوانح نگاروں کے مطابق ایک ہزار گیارہ  ریسٹورنٹ مالکوں نے اسے  ’ نا ‘  میں جواب دیا۔ لیکن وہ چلتا رہا، چلتا رہا۔ نا امید ہوئے بغیر ہر شاہراہ، ہر بستی، ہر شہر  پہونچا۔

آخر کار  1012ویں مرتبہ ایک ریسٹورنٹ مالک نے اِس ترکیب کو ٹرائی کرنے کا فیصلہ کیا۔ اور پھر جو ہوا  وہ ہم اوپر دیکھ چکے ہیں۔ یہ داستانِ حیات قرآن و حدیث میں بتائی اِس حقیقت کا ثبوت ہے کہ اللہ تعالی نے ناکامی اور کامیابی ایک اصول اور نظام کے تحت کردی ہے۔ بلا کسی تفریق کے جو بھی اس اصول کو اپنائے گا، کامیابی اس کا مقدر ہوگی۔ اور وہ اصول ہے’  جہدِ مسلسل اور امید و اعتماد ‘ ۔  ادریس آزاد نے کتاب ’ اٹھو کہ وقت قیام آیا ‘  میں اسے یوں واضح کیا ہے کہ ’’ مسلسل جد و جہد در حقیقت انسانی صبر و ا ستقلال کا امتحان ہوتی ہے۔ دراصل قرآن ِ پاک نے کسی بھی طرح کی محنت کے لئے ایک بنیادی اصول مقرر کردیا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ  لیس الانسان الا ما سعی  (انسان کے لئے کوشش کے سواء کچھ نہیں ہے )۔ ایک حدیث اقدس کے مطابق   مَن ثبت نَبَتَ ( جو جما رہا، وہ اُگ گیا )۔ یعنی جس نے میدان نہیں چھوڑا، مسلسل محنت کی، وہ ضرور کامیاب ہوا۔ ۔ ۔ ۔ درا صل انسانی فطرت ہے کہ وہ جلد اُکتاجاتا ہے یا مایوس ہو کرجدو جہد ترک کردیتا ہے۔ انسان کی اس کیفیت کو بھی قرآن میں بیان فرمایا ہے کہ  وَ کَانَ ا لا لسان ن عَجولا  ( اور انسان جلد باز واقع ہوا ہے )  ‘‘۔  اِسی لئے رب العزت کا حکم ہے کہ  لا تَقطَنومِن رحمتہ اللہ  ( اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہونا )۔

جو نا امید ہو گیا ہو اس میں کوشش کرنے اور چلتے رہنے کا جوش و جذبہ ختم ہو جاتا ہے۔ جب کہ ترقی اور سرخروئی کے لیے ہر حال میں چلتے رہنا ضروری ہے۔ چلنا زندگی کی علامت ہے اور ٹھہر جانا اختتام کی۔ دل جب تک دھڑکتا ہے،  نبض جب تک چلتی ہے، زندگی ہے۔ رُک جائے تو موت!  کائنات میں ہر چیز چل رہی ہے، بنا  رُکے،  بنا تھمے۔ ہمیں بھی چلتے رہنا ہے۔ حالات کتنے ہی خراب ہوں،  منزل کتنی ہی دور ہو، چلتے رہیے۔ ایک پرانے فلمی نغمے میں اس حقیقت کا شاعرانہ اظہار یوں کیا گیا تھا کہ

 ندیا چلے،  چلے رے دھارا۔ ۔ ۔ ۔

 چندا چلے،  چلے رے تارا۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 تجھ کو چلنا ہوگا ،  تجھ کو چلنا ہوگا۔ ۔ ۔

تبصرے بند ہیں۔