تنقید منفی عمل نہیں!

ابوفہد

تنقید کے تعلق سے بہت سے لوگوں کی یہ رائے ہے کہ تنقیدک سرتاپا منفی عمل ہے۔ادبی تنقید کے حوالے سے تو اس حد تک انتہا پسندانہ فکر بھی ملتی ہے کہ ناقد کی مثال اس مکھی سے دی جاتی ہے جو بیل کو ہل جوتنے سے روکتی ہے۔ تعجب کی بات تو یہ بھی ہے کہ اس دنیا میں کوئی بھی انسان ایسا نہیں ہے جو تنقید نہیں کرتا یا اس نے کبھی تنقید نہیں کی۔ بس فرق اتنا ہے کہ جو لکھنا جانتے ہیں وہ قلم کے ذریعہ تنقیدکرتے ہیں اور جولکھنا نہیں جانتے وہ زبان کے ذریعہ تنقید کرتے ہیں۔ تنقید سے کوئی بھی شخص مبرا نہیں ، کیونکہ اس سے جائے مفر ہی نہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ پھر کچھ لوگ ایسا کیوں سوچتے اور کہتے ہیں کہ تنقید منفی عمل ہے او ر سرتاپا منفی عمل ہے۔ دراصل اس رجحان یا رائے کے پیچھے تنقید کا وہ غلط مزاج اور وہ منفی روایت ہے جو صدیوں سے ہمارے یہاں چلی آرہی ہے کہ تنقید کو غیر معروضی اور غیر مثبت بنادیا گیا ہے۔ لوگ اپنے خاص نظریات کی حفاظت کے لیےیا اپنے جیسے تحفظات کے تحت تنقید کرتے یا لکھتے ہیں۔ وہ تنقید کسی مسئلے کی تفہیم کے لیے یا اس کے تمام ابعاد تک رسائی حاصل کرنے کے لیے نہیں کرتے۔ اگر لوگوں کے ساتھ ان کے تحفظات نہ ہوں، ان کی ذاتی پسند وناپسند نہ ہو، ان کے مطالبات اور ذمہ داریاں نہ ہوں اور انہیں اپنے اندر یا باہر سے فریب، طمع، مفادات اور خوف کا اندیشہ نہ ہو تو ان کے ذریعے کی گئی تنقید کسی بھی صورت میں منفی عمل  قرار نہ پائے۔تنقید بے جاتعریف اور بے جاتنقیص کے درمیا ن کا عمل ہے۔ یہ کوئی منفی عمل نہیں ، یہ سرتاپا مثبت عمل ہے۔

’نقد‘ تحریر کا اصل جو ہرہے۔ اس جوہر کے بغیر کسی بھی تحریر کا نکھرنا ناممکن ہے، یہاں تک کہ قلم کار کی خود اپنی تحریر بھی اسی جوہر سے صیقل ہوتی ہے۔ یہ جوہر آئینے کے جوہر کے مثل ہے۔ اس کا تعلق خارج میں علم اور صلاحیت سے جتنا زیادہ ہے تقریبا اتنا ہی بلکہ اس سے بھی زیادہ اس کا تعلق ناقد کے باطن سے ہے، اس کے مزاج اور افتاد طبع اور اس کی سوچ وذہنیت اور فکر سے ہے۔ آئینہ یہی تو کرتا ہے کہ خارج کی شے کی خوبی اوربدی کو من وعن آیئنہ دیکھنے والےکے سامنے رکھ دیتا ہے۔ اور وہ چونکہ انسان کی طرح گوشت پوست اور دل ودماغ نہیں رکھتا اس لیے اسے ناقدانہ عمل کی انجام دہی میں نہ خوف مانع آتا ہے، نہ لالچ، عداوت اور نہ ہی سیاست۔ اوراسی لیے ایسا ہوتا ہے کہ اس کے نقد میں انتہائی درجے کی معروضیت درآتی ہے اور اشیاء یا انسان آئینے میں ویسے ہی نظر آتے ہیں جیسے کہ وہ حقیقت میں ہوتے ہیں۔ چونکہ ہم انسان گوشت پوست کے جسم کے مالک ہیں، جو حرارت و برودت کے اثرات قبول کرتا ہے اور بہت شدت کے ساتھ قبول کرتا ہے اور چونکہ ہم دل ودماغ بھی رکھتے ہیں اس لیے ہمیں خوف بھی لاحق ہوتا ہے اور لالچ، عداوت وسیاست بھی ہمیں بہکاتی اور ڈراتی ہیں۔اس لیے ہمارے ذریعے کیا جانے والا ناقدانہ عمل اکثرو بیشتر تنقیص کا عمل بن جاتا ہے۔ اور پھر لوگ تنقید کے لیے یہ منفی رائے قائم کرلیتے ہیں کہ تنقید منفی عمل ہے۔

’تنقید‘ عربی  زبان کے لفظ ’نقد‘ سے نکلا ہے، یہ باب تفعیل کا صیغہ ہے۔ نقد کے معنیٰ لغت کے حساب سے کسی شئے کے حسن وقبح کو معلوم کرنا ہے۔ اور اصطلاح میں یہ لفظ  عربی ادبیات کی تنقید کے ساتھ خاص ہے۔ نقد زیادہ تر عربی ادب کی تنقید کے لیے ہی استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں نقد کے معنیٰ کے لیے تنقید کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ شمس الرحمان فاروقی کے مطابق اردو میں یہ لفظ سب سے پہلے مہدی افادی نے1910 میں استعمال کیا اور انہی معنیٰ کے لئے استعمال کیا جو معنیٰ انگریزی لفظ کرٹسزم (Criticism)کے ہوتے ہیں۔(تعبیر کی شرح، صفحہ 69، مطبوعہ مکتبہ جامعہ نئی دہلی)

اردو میں تنقید کا لفظ یو ں توہر طرح کے علم وفن کی تنقید کے لیے استعمال ہوتا ہے، مذہبی، ادبی، سیاسی اور سماجی، ہر طرح کے علوم پر نقد کرنے کے لئے تنقید کا لفظ ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ اور اہل زبان وادب کو یہ بھی تسلیم ہے کہ اردو میں اس لفظ کا کوئی دوسرا متبادل موجود نہیں ہے۔ تاہم اس کا استعمال زیادہ تراردو ادبی متون کی تفہیم وتعبیر کے لیےہی کیاجاتا ہے۔ اردوتنقید نے اسی صنف سخن میں زیادہ پرپرزے نکالے ہیں۔ ادبی تنقید کی کئی اقسام سامنے آگئیں ہیں جیسے رومانی تنقید ‘ جمالیاتی تنقید ‘ سائنٹفک تنقید ‘ مارکسی تنقید ‘ تاثراتی تنقید ‘ نفسیاتی تنقید ‘ اور تقابلی تنقید وغیرہ۔جبکہ عربی میں غیر ادبی تنقید خاص طورپر مذہبی بیانیوں اوراویان حدیث پر نقد لکھنے کے لیے جرح وتعدیل کی اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے۔ اس میں راویان ِحدیث کی عدالت وثقاہت اور ان کے مراتب پر بحث کی جاتی ہے۔

کسی تخلیق (نظم ونثر )پر نقد کرنا عملِ تنقید کا جو اپنے آپ میں ایک دیو قامت اور ہمالیائی عمل ہے ، ایک بہت چھوٹا سا عمل ہے۔ تنقید دراصل وہی عمل ہے جو آئینہ انجام دیتا ہے یا چھلنی انجام دیتی ہے۔ جب وقت کے موجود لمحے میں اس کے ماضی بننے سے پہلے پہلے صدیوں پر محیط انسانی تعاملات، کاوشوں اور افکار ونظریات کو نقد کی چھلنی میں ڈال کر اسے حرکت دی جاتی ہے تو وہی عمل وجود پذیر ہوتا ہے جو چھلنی انجام دیتی ہے کہ کھرا اور کھوٹا الگ الگ ہوجاتا ہے۔ تنقید کا یہ عمل ابتدائے آفرینش سے جاری ہے اور ہمیشہ جاری رہے گا، اس عمل کی مختلف شکلیں، جہتیں اور  سطحیں ہیں۔فطرت میں بھی یہ عمل خود کار طریقے سےجاری وساری ہے،جس کی تحریک کی پشت پر خود اللہ کا امر ہے۔ قرآن میں اس عمل کی شکل دیکھی جاسکتی ہے۔ قرآن میں ہے:  فَأَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاءً ۖ وَأَمَّا مَا يَنفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ ۚ  (سورۃ الرعد۔۱۷)جھاگ اڑجاتے ہیں اور جونفع بخش چیز ہے وہ باقی رہ جاتی ہے۔ سیلاب کے پانی اور آگ پر پکائی جانے والی دھات پر اٹھنے والے جھاگ یعنی بے فائدہ چیز ضائع ہوجاتی ہے اور سیلاب کا پانی اور دھات کا جوہر یا اصل مادہ باقی رہ جاتا ہے۔

اللہ نے کائنات میں اس عمل کو ہمیشہ کے لیے جاری وساری کردیا ہے۔فطرت کی تخلیق میں انسانی کاوشوں کو جو تھوڑ ابہت دخل ہےاورحسن معنیٰ کی حسن کاری میں انسان کی مشاطگی کی جو تھوڑی بہت ضرورت ہے اس میں بھی تنقید کا عمل جاری وساری ہے۔جب اللہ کے آخری رسول ﷺاللہ کا آخری کلام لے کر دنیا میں تشریف لائے تو اس وقت بھی تنقید کا عمل بڑے پیمانے پر جاری ہوا۔انسانی تعاملات، اخلاقیات وقوانین، رسم ووراج ، عقائدوخیالات اور نظریات  وتصرفات کو نبوت کی چھلنی میں ڈال کر حرکت دی گئی اور پھر جب چھلنی کو حرکت دینے کا عمل انجام کو پہونچا تو فرمایا گیا: قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ۚ (البقرہ:256) اب یہ پوری طرح واضح ہوچکا ہے کہ ہدایت کیا ہے اور گمراہی کیا ہے۔

پھرجب قرآن سرچشمۂ ہدایت اور تمام اسلامی علوم و فنون، تہذیب وتمدن اور اخلاق وقانون کا واحد ماخذ قرار پایا تو اس میں غوروخوض کا سلسلہ جاری ہوا، جس کے نتیجے میں احادیث کا بڑا ذخیرہ وجود میں آیا۔ پھرمزید تنقیح وتفسیر کی ضرورت پیش آئی تو تفسیری سلسلے شروع ہوئے۔ اور پھر جب احادیث پر زمانے کی گرد اس قدر بیٹھ گئی کہ احادیث کے سارے ذخیرے کے مشکوک ٹہرجانے کے امکانات پیدا ہونے لگے ، یہاں تک کہ یہ جاننا مشکل ہونے لگا کہ کوئی حدیث فی الواقع فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے بھی یا نہیں۔ تو پھر احادیث کی جرح وتعدیل کا طویل اور منظم سلسلہ شروع ہوا۔ حتیٰ کہ اس کاوش کے اختتام پر یہ ممکن ہوسکا کہ اب احادیث کے لیے بھی آیت مذکور (قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ )  کے معنی مستعار لئے جاسکیں اور کہا جاسکے کہ اب بڑی حد تک قول رسول ﷺ غیر قول رسولﷺ  سے ممتاز ہوچکا ہے۔

یہ سارا عمل تنقید کا عمل ہی تو ہے۔ تنقید کے عمل کی ضرورت اس لیے ہے کہ اللہ نے ہدایت وگمراہی کے مابین فطری طورپر ایسی کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کی جیسی اس نے میٹھے اور خارے پانیوں کے درمیان ایک نادیدہ برزخ قائم کررکھی ہے۔ مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيَانِ ﴿١٩﴾ بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَّا يَبْغِيَانِ ﴿٢٠﴾ اللہ نے دو دریا رواں کئے ہیں(ان میں سے ایک میٹھا ہے اور دوسرا کھارا) ان کے درمیان ایک غیر مرئی پردہ حائل ہے۔ اب وہ دونوں بظاہر ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوئے ہونے کے باوجود بھی ایک دوسرے میں نہیں ملتے۔ یعنی شیریں پانی کھارے میں نہیں ملتا اورکھارا شیریں میں نہیں جاگھستا۔ اس لیے انسانی فکر اور تعامل میں ہدایت وگمراہی بار بار مل مل جاتی ہیں اور انہیں بار بار الگ اور ایک دوسرے سے ممتاز کرنے کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے۔

مذہب، ادب، سیاست اور سائنس ہر جگہ نقد کا یہ عمل جاری ہے۔ تخلیق کے بعد تحقیق ایک بڑا عمل ہے ، تحقیق گرچہ ایک الگ فن ہے مگر اس کا جوہر بھی دراصل نقد ہی ہے۔ کیونکہ تحقیق کا کام یہی ہے کہ وہ درست اور نادرست کی تعین کرتی ہے۔ وہ بتاتی ہے کہ صحیح یہ ہے اور غلط یہ ہے۔ تحقیق گرچہ الگ فن ہے مگر یہ ہر فن میں جاری ہے ، سائنس ہو یا ادب ، مذہب ہو یا سیاست ہر جگہ تحقیق کی ضرورت ہے اور تحقیق کا عمل بھی اپنی حقیقت کے اعتبار سے نقد ہی کا عمل ہے۔تحقیق کا عمل انسان کو شکوک وشبہات سے نجات دیتا ہے اور کسی معاملے میں حتمی رائے قائم کرنے میں انسان کی مدد کرتا ہے۔

’تخلیق، تحقیق اور تنقید‘ یہ تینوں ایک دوسرے سے پیوستہ علوم ہیں اور شاید ان تینوں کے مابین فطری ترتیب یہی بنتی ہے اور یہی ترتیب معیار فضیلت قائم کرسکتی ہے۔ ویسے معیار فضیلت قائم کرنا درست معلوم نہیں ہوتا کیونکہ ان کی عظمت موقع ومحل ،ان کی نزاکتوں اور اہمیتوں کے اعتبار سے برتر اور فروتر ہوجاتی ہے۔ان میں سے کوئی بھی ایک تنہا کچھ نہیں ہیں،کیونکہ ان میں سے ہر ایک کی انفرادی عظمت بھی اسی وقت قائم ہوتی ہےجب ان کو ایک دوسرے کا سہاراملتا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔