ہندستانی مسلمان کیا کریں؟ (دوسری قسط)

 محمد شاہد خان

مسلمانوں کی اقتصادی صورتحال اور اس کا حل!

انسانی زندگی میں معاشیات کی وہی حیثیت ہے جو حیثیت انسانی جسم میں ریڑھ کی ہڈی کی ہوتی ہے، ایک بہتر طرز زندگی، اعلی تعلیم کا حصول، سماجی ترقیات کی اسکیمیں، کمزور طبقات کے لئے بنیادی وسائل زندگی کی فراہمی، ناگہانی قدرتی آفات و بلیات کے بعد متاثرین کی باز آبادکاری، انسانی آبادی کی فکر کو بالیدگی عطا کرنے والے اداروں کے قیام سے لے کر روزمرہ کی زندگی میں چھوٹے بڑے تمام مسائل کے حل کے لئے مادی قوت سے لیس ہونا بذات خود زندگی کو معنی عطا کرنے کا اہم ترین ذریعہ ہے۔ خود عیسائی دنیا جس کو ہم مغرب بھی کہتے ہیں انہوں نے جہاں سائنس کے علوم کو اپنے سماج کے فکری جمود اور تہذیبی گراوٹ کو دور کرنے کے لئے استعمال کیا وہیں آدم اسمتھ نے "ویلتھ آف نیشنس” جیسی کتاب لکھی اور جدید نظام اقتصاد کا چیمپئن بن کر اس کی اہمیت پر آخری کیل ثبت کردی۔ بعض یورپی مورخین نے صلیبی جنگوں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان جنگوں کی نوعیت دینی نہیں بلکہ مادی تھی۔ مذہبی جنگ کا سہارا عیسائی دنیا نے اس لئے لیا تھا کیونکہ جہاں ایک طرف دسویں گیارہویں صدی کی اسلامی دنیا اقتصادی اعتبار سے بام عروج پر تھی وہیں عیسائی ممالک فقر و فاقہ سے جوجھ رہے تھے۔ اسی لئے انہوں اسلامی دنیا کا رخ کیا تھا تاکہ اپنی مادی صورتحال کو بہتر بنا سکیں۔ یہی روح دنیا بھر میں مغربی سامراج قائم کرنے کے پیچھے بھی کار فرما تھی۔ برطانوی، فرانسیسی اور پرتگالی سامراجی طاقتوں کے بحری بیڑوں نے تجارت کے سمندری راستوں پر قابض ہونے کی غرض سے ہی بحر عرب اور بحر ہند کو جنگ کے میدان میں تبدیل کر دیا تھا۔ ایک طویل جنگ کے بعد برطانیہ فاتح ثابت ہوا اور اسی سامراجیت کا شکار ہمارا ملک ہندوستان بھی ہوا جس کی تاریخ سے قارئین واقف ہیں۔ غالب جیسا عالی ظرف شاعر بھی اپنے خطوط میں مغلیہ عہد کے زوال کے بعد انگریزی سامراج میں زندگی کی در ماندگی بیان کرنے سے باز نہ رہ سکے۔

مادی اور اقتصادی اعتبار سے مضبوط ہونا کتنا ضروری ہے اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ جہاں اقتصادی طور پر کمزور ہونے کے بعد حکومتوں کے لئے اپنا توازن برقرار رکھنا نا ممکن ہو جاتا ہے وہیں افراد اور خاندانوں کے لئے اپنا وقار محفوظ رکھنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ریزرو بینک آف انڈیا کے سابق گورنر نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ سماجی نابرابری کو دور کرنے میں پیسوں کا اہم رول ہوتا ہے۔ وہ ہندوستانی سماج میں موجود مختلف قسم کی نابرابریوں کے خاتمہ کےلئے موثر حل پیش کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم چیزوں کی صحیح حیثیت متعین نہ کرپانے کی وجہ سےان کا جائز مقام انہیں نہیں دے پاتےاور فیصلہ کی غلطی کی بنا پر دہائیوں تک ہی نہیں بلکہ صدیوں اس کی قیمت چکا تے ہیں۔ میری ذاتی رائے میں اسلامی نظام حیات کے اندر مادی قوت کی اہمیت کو سمجھنے میں ہمارے علماء بالخصوص ہندوستانی علماء سے اجتہادی غلطی ہوئی اور انہوں نے مادیت سے سردمہری برتنے کو عین روحانیت کا معیار قرار دیا جس کی وجہ سے مسلمان بحیثیت قوم اقتصادی اعتبار سے حاشیہ پر آ گئے۔

اسلامی نظام انسانی جسم کی طرح ہے ، جس طرح انسانی جسم میں حسب مراتب دل دماغ ہاتھ پیر آنکھ کان ناک کی حیثیت  ہے بعینہ شریعت میں بھی اسلامی احکامات کی وہی حیثیت ہے، موجودہ اسلامی شریعت کا بیانیہ بڑی حد تک غیر متوازن ہوگیا ہے۔ بعض چیزوں نے ہمارے معاشرے میں وہ اہمیت حاصل کرلی جس کی وہ مستحق نہیں تھیں اور بعض اہم چیزیں اتنی پیچھے چلی گئی ہیں کہ واپسی کا راستہ دشوار گزار معلوم ہوتا ہے۔

،الدنيا سجن المؤمن ،یعنی دنیا مومن کیلئے قید خانہ ہے کی صدائیں منبر و محراب سے گونجتی رہتی ہیں یا دنیا کافر کیلئے ہے اور آخرت مومن کیلئےہےاور بےچارہ مومن آخرت کی فکر میں  کسب معاش کی تگ ودو اس طرح نہیں کرتا جس طرح کہ مطلوب ہے حالانکہ اگر انسان کے پاس مال نہ ہو تو  وہ شادی تک کا اہل نہیں ہوسکتا ہے چہ جائیکہ زندگی کے دیگر پیچیدہ مسائل کا حل ڈھونڈ پائے۔ بسا اوقات اپنے بچوں کی بھوک کی شدت اور اہل خانہ کو زندگی دینے کے لئے مسلم خواتین کو اپنی آبرو سے سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔ ایسے واقعات عراق و شام کی جنگوں سے متاثر ہونے والی باوقار مسلم خواتین کے ساتھ پیش آئے ہیں، اتنا ہی نہیں بلکہ بعض انصاف پسند مغربی میڈیا نے یہ بھی لکھا ہے کہ اپنی زندگی بچانے کے لئے یوروپ کی طرف ہجرت کرکے جانے والے مسلمان عیسائی مذہب قبول کرنے پر بھی مجبور ہوئے ہیں۔ صرف اقتصادی بدحالی گرچہ اس اندوہناک حقیقت کے لئے ذمہ دار نہیں ہے لیکن اس تلخ سچائی سے پہلو تہی بھی حق پسندی کے خلاف عمل ہے، چونکہ مادی وسائل کی فراہمی سے زندگی کو وقار حاصل ہوتا ہے اسی لئے اسلام نےتجارت پر کافی زور دیا ہے ، سورۂ جمعہ کی آیت کریمہ اس کی سب سے بڑی دلیل جہاں یہ حکم ہے کہ "فاذا قضيتم الصلاة فانتشروا في الارض وابتغوا من فضل الله ورضوانه” کہ

جب تم نماز سے فارغ ہوجاؤ تو کرۂ ارضی میں پھیل جاؤ اور اسکا فضل ( رزق) تلاش کرو اور اللہ کی ذات سے اس کی خوشنودی کی امید رکھو ۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ المؤمن القوي خير من المؤمن الضعيف ۔ طاقتور مومن کمزور مومن سے بہتر ہے یہاں طاقت  سے مراد صرف جسمانی طاقت مراد نہیں ہے

اس موضوع  کے تحت ایک اور  مشہور روایت میں آتا ہے کہ کچھ صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے اور کہنے لگے یا رسول اللہ پیسے والے سارے ثواب لئے جارہے ہیں، ہماری ہی طرح نماز وروزہ کرتے ہین، مزید یہ کہ ان کے پاس مال ہے اس میں سے وہ صدقہ بھی کرتے ہین، (اور  ہم گویا صدقہ پر قادر نہین ہیں )۔۔۔۔پھر آپ نے بتایا کہ مال کے علاوہ اور بھی صدقے ہیں وہ کِیا کریں ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں کچھ تسبیحات سکھلائیں ۔

ابو صالح فرما تے ہیں کہ مہاجرین میں جن کے پاس پیسے نہیں تھے وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے اے اللہ کے رسول دولت مند  بھائیوں کو پتا چل گیا کہ ہم کیا اعمال کرتے ہیں تو وہ بھی  کرنے لگے ہیں ۔۔۔ تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ بھائی یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے۔۔۔

یعنی اعمال بدنیہ کے ساتھ ساتھ مال کی وجہ سے انھیں دوسروں پر یک گونہ فضیلت حاصل ہوگئی

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات خود کار نبوت کو اٹھانے سے قبل تجارت ہی کا پیشہ اختیار کیا تھا

اللہ کے ایک برگزیدہ نبی حضرت سلیمان علیہ السلام بادشاہ تھے اور ان کو اللہ تعالی نے ایسی بادشاہت عطا کی تھی جو پھر کسی کو کبھی نصیب نہ ہوسکی

جہاں ایک طرف اسلام نے مالی اعتبار سے مسلمانوں کو اپنی حالت بہتر کرنے کی ترغیب دی ہے وہیں زمینی حقیقت نہایت تکلیف دہ ہے۔ ذیل میں ہم ہندستانی مسلمانوں کی اقتصادی صورت حال کا ایک ہلکاسا جائزہ لیتے ہیں جس سے کسی حد تک ہماری اقتصادی بدحالی کا اندازہ ہو پائے گا۔

2011-12 کے دوران ذاتی پیشہ پر گذر بسر کرنے والے وہ مسلمان جو دیہی علاقوں میں رہتے ہیں 49 %فیصد تھے۔ جو قومی تناسب یعنی 50%فیصد کے قریب قریب ہے۔ البتہ غیر زرعی ذاتی پیشہ سے حاصل شدہ کمائی پر گذر بسر کرنے والے دیہی مسلمانوں کا تناسب تقریباً 25 %فیصد تھا جبکہ ہندوآبادی کے صرف 14%فیصد لوگ ایسے پیشوں سے جڑے ہوئے تھے۔

جہاں تک شہری علاقوں میں رہنے والے مسلمانوں کا تعلق ہے تو یہاں بھی 33% فیصد ہندوؤں کے مقابلہ 50% فیصد مسلم آبادی اپنی گذر بسر کے لئے ذاتی پیشہ کو ہی اختیار کرتی ہے۔ مسلمان اپنے معاش کے لئے زیادہ تر غیر منظم سیکٹر ( informal sector) کے اندر ہی کسی ذاتی پیشہ کو اختیار کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اس کا واضح اشارہ اس بات سے بھی ملتا ہے کہ باضابطہ تنخواہ والی نوکریوں سے حاصل ہونے والی کمائی میں ان کا حصہ بہت کم ہے۔ (43% فیصد ہندو اور مجموعی طور پر 42% فیصد شہری زندگی گزارنے والوں کے مقابلہ میں محض 28% فیصد مسلمان ہی باضابطہ تنخواہ والی نوکریوں میں موجود ہیں)۔

حالیہ چند سالوں کے اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ شہروں میں بسنے والے مسلمانوں کی بڑی تعداد نےاپنے ذریعہ آمدنی کے لئے بڑے پیمانے پر ذاتی ذریعہ معاش کا سہارا لیا ہے۔ دیہی علاقوں میں رہنے والے مسلمان زیادہ تر روایتی صنعت و حرفت اور تجارت پر منحصر ہوتے ہیں یا پھر پلانٹ اور مشین چلانے کا کام کرتے ہیں۔ دوسری قوموں کے مقابلہ میں ان کا حصہ "بنیادی پیشوں” میں کم اور دیگر ذرائع معاش میں زیادہ ہوتا ہے۔ اس سے یہ بات تو ثابت ہوتی ہے کہ پیشہ کے اعتبار سے مسلمان قدرے بہتر ہیں۔ لیکن زراعت اور ماہی گیری والے پیشے جن میں ماہر مزدوروں کی ضرورت ہوتی ہے ان میں مسلمانوں کا حصہ صرف دیہی تناسب کے رو سے ہی نہیں بلکہ درج ذیل ذات و قبائل یعنی ایس سی (SC )اور ایس ٹی (ST) سے بھی کم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دیہاتوں میں بسنے والے مسلمان زراعت پر اپنا انحصار کم رکھتے ہیں۔ لھذا بنیادی پیشوں میں مسلم مزدوروں کا حصہ کم ہو جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ تعداد درج ذیل ذاتوں اور قبائل (SC اور ST) سے تو کم ہوتی ہے لیکن دیگر پسماندہ ذاتوں (OBC ) کے برابر جبکہ اونچی ذات کے ہندوؤں کے مقابلہ میں زیادہ ہے۔

جہاں تک سماجی اور مذہبی طبقات کے تناظر میں مسلمانوں کی اقتصادی صورتحال کا تعلق ہے تو 48 ویں این ایس ایس (12۔2011۔) کے اعداد و شمار کے مطابق قوت عمل میں اشتراک کے تناسب (یعنی پندرہ سے زیادہ عمر والے برسر روزگار اور بے روزگار لوگوں ) کے لحاظ سے دیہی علاقوں میں بسنے والے ہندو طبقہ کے ایس ٹی (ST) مردوں کا شرح اشتراک سب سے زیادہ ہے۔ دوسرے نمبر پر غیر او بی سی (OBC)مسلمان آتے ہیں۔ البتہ ہندو او بی سی کے بالمقابل مسلم او بی سی کا شرح اشتراک کم ہے۔( وجہ یہ ہے کہ مسلمان غیر زرعی پیشوں میں زیادہ ہیں) لیکن یہاں بھی اونچی ذات کے ہندوؤں کے مقابلہ میں مسلمان اپنا شرح اشتراک زیادہ رکھتے ہیں۔

جہاں تک شہر میں بسنے والے مردوں کا تعلق ہے تو یہاں مسلم او بی سی کا شرح اشتراک قوت عمل میں سب سے زیادہ ہے۔ اس کے بعد دیگر مسلمان آتے ہیں۔ اعداد و شمار سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اس زمرہ میں مسلمان مزدوروں کی عمر عموماً پندرہ سے بیس کے درمیان ہوتی ہے جس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ نظام تعلیم سے وہ خود کو کافی کم عمری میں ہی الگ کر لیتے ہیں۔ یہی حال ایس سی اور ایس ٹی طبقوں کا بھی ہے۔

یہ بات ہر شخص کے لئے فکر مندی کا باعث ہے کہ تقریباً اٹھارہ فیصد والے ہندوستانی مسلمانوں کا حصہ ملک کے اقتصاد کے مجموعی شرح پیدائش (GDP)میں محض 0.23% ہے۔

موجودہ زمانہ کے سیاسی نظام، خاص طور سے جمہوری طرز حکومت میں  تجارت اور سیاست کا چولی دامن کا ساتھ  ہے ، کیونکہ عالمی معیشت ہو یا ملکی اقتصاد دونوں ہی جگہوں پر چند سرمایہ داروں کا قبضہ ہے، اگر سرمایہ دار طبقہ سیاسی پارٹیوں کی امداد funding نہ کریں تو ایسی پارٹیوں کا تختہ حکومت تک پہونچ پانا بہت دشوارہے اسی لئے اقتدار حاصل کرلینے کے بعد سیاسی پارٹیاں سرمایہ دار طبقہ کے تجارتی فوائد کیلئے انھیں کے مطابق پالیسیاں وضع کرتی ہیں ،اسلحوں کی تجارت اور قدرتی وسائل  پر قبضہ کی غرض سے انسانیت پر جنگیں تھوپ دی جاتی ہیں ۔

دوسری طرف صنعتی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے انقلاب کے بعد اب نوکریوں کی حالت بھی قدیم زمانہ جیسی نہیں رہی ، اب اعلی سرکاری عہدے اور ان سے حاصل ہونے والی مراعات سے لے کر  بڑی بڑی انڈسٹریز اور کمپنیوں کی کلیدی پوسٹیں چھوٹی موٹی تجارت سے زیادہ مفید ہیں ، بڑی کمپنیوں کے اعلی عہدیداران کی تنخواہوں کے سالانہ پیکیج کروڑوں میں ہوتے ہیں ۔

ہندستان میں مسلمان کا تناسب سرکاری نوکریوں میں بہت کم ہےاور انڈین انڈمنسٹریشن سروسز اور پالیسی ساز اداروں میں تو بہت ہی کم ہے اسی طرح سے پرائیویٹ سیکٹر میں بھی کلیدی پوسٹوں پر مسلمانوں کی نمائندگی بہت کم ہے ،

Forbes  میگزین کی رپورٹ کے مطابق ہندستان کے پچاس مالداروں میں صرف دو مسلمانوں کے نام شامل ہیں جوکہ مسلم آبادی کے تناسب سے بہت ہی کم ہے اور ملک سے باہر تجارت یا نوکریوں میں جتنی بڑی تعداد ہندستانیوں کی پائی جاتی ہے اسمیں تعداد کے اعتبار سے مسلمانوں کی نمائندگی تو ٹھیک ٹھاک ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ان میں بھی  لیبر کلاس ہی زیادہ ہے ۔

اسلئے ضرورت اس بات کی ہے کہ

※مسلمان  اعلی تعلیم کےحصول کو اپنا مطمح نظر بنائیں اور تجارتی میدان میں انفرادی تجارت سے زیادہ مشترکہ پاٹنر شپ والی تجارت کو فروغ دیں کیونکہ موجودہ زمانہ شراکت کا زمانہ ہے، اسکے بہت سارے فوائد ہیں میں سے ایک بڑا فائدہ یہ کہ اس دور میں چھوٹے سرمایہ داروں کے مقابلہ میں بحیثیت کارپوریٹ تجارت کے میدان میں پیدا ہونے والے نت نئے چیلنجز سے نبرد آزمائی آسان ہوتی ہے اور ناکامی کے امکانات بہت کم ہو جاتے ہیں۔ اسوقت دنیا میں اتنی بڑی بڑی  کمپنیاں پائی جاتی ہیں کہ جن کا سالانہ بجٹ بعض ممالک کے سالانہ بجٹ سے بھی زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر کوک coke ( سوفٹ ڈرنکس )اور آئل کی بعض کمپنیاں مثلا Shell ، Exon Mobil  یا موبائل فون کمپنی Apple وغیرہ

※ ہندستان کے پس منظر میں غیر مسلموں کے ساتھ تجارت کو فروغ دینا چاہئے اس پاٹنر شپ کا یہ فائدہ ہوگا کہ مسلم کمیونٹی کے ساتھ ساتھ ہندو کمیونٹی میں بھی تجارت کو فروغ حاصل ہوگا ان کے اثرورسوخ کے فائدے کے ساتھ ساتھ فسادات وغیرہ میں بہت حد تک کمپنی کی املاک محفوظ ہو جائیں گی ، یہاں ایک واقعہ کا تذکرہ افادیت سے خالی نہ ہوگا کہ ہندستان میں آزادی سے قبل Mahindra کمپنی جو ابتداءً ایک اسٹیل کمپنی ہوا کرتی تھی اس کمپنی کے ایک پاٹنر غلام  محمد نامی شخص ہوا کرتے تھے ،1945 میں اس  کمپنی کا نام Mahindra and Mohammad تھا لیکن انھیں سیاست سے دلچسپی زیادہ تھی چنانچہ تقسیم کے بعد وہ اپنا شئر بیچ کر پاکستان چلے گئے اور وہاں جاکر پاکستان کے پہلے وزیر معیشت بنے ، اگرانھوں نے کمپنی نہ بیچی ہوتی تو اسوقت وہ ہندستان کی اتنی بڑی کمپنی کے آدھے کے مالک ہوتے۔

※ تجارت میں سپلائی سے زیادہ پروڈکشن کی اہمیت ہے اسلئے پرڈکشن پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے ، اس بہانے نوکریاں پیدا ہوں گی اور ملکی معیشت کو فائدہ ہوگا ۔

※تجارت کے حوالے سے اسوقت دنیا کی نگاہیں چین پر لگی ہوئی ہیں وہاں ہر طرح کا پروڈکٹ سستے داموں میں تیار ہوجاتاہے اسلئےدنیا کی بڑی بڑی کمپنیاں چین میں اپنا مال تیار کرواتی ہیں اور پھر وہ پوری دنیا میں سپلائی کرتی ہیں ،ہندستان ساری دنیا کیلئے اس معنی میں بہت اہمیت رکھتا ہے کہ وہ آبادی اور کھپت کے اعتبار سے بہت بڑی منڈی ہے ، اسلئے ہندستانی مسلمانوں کو بھی اس موقع کا فائدہ اٹھانا چاہئے ۔

※ مغربی ممالک میں بے شمار مشہور برانڈس والی کمپنیاں ہیں جن کی پوری دنیا میں ڈیمانڈ ہے ان برانڈس کی  ایجنسیاں حاصل کرنی چاہئے کیونکہ اسوقت  ٹاٹا ، ریلائنس اور کچھ دوسری بڑی کمپنیاں ہیں جو بڑے بڑے برانڈس کی ایجنسیاں ہندستان لانے میں کامیاب ہورہی ہیں لیکن اب بھی بہت امکانات باقی ہیں ۔

یہ مختصر سا جائزہ اور چند تجاویز ہیں  اگر ان پر عمل کرلیا جائے تو مسلمانوں کی اقتصادی طاقت بہت بڑھ جائے گی اور اقتصادی طاقت ہی دراصل سیاست کا رخ متعین کرتی ہے ۔(جاری)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔