’پروفیسر صغیر افراہیم کا تنقیدی شعور‘ کا علی گڑھ میں اجراء

راغب دیشمکھ

تحقیقی مقالہ’’ پروفیسر صغیر افراہیم کا تنقیدی شعور‘‘ اور ’’سہ ماہی تحریک ِ ادب (خصوصی نمبر) ‘‘ کا پر وقار تقریب ِ رسم اجراء حرف زار لٹریری سوسائٹی ، دیارِ ادب انڈیا، علامہّ قیصر اکادمی علی گڑھ ، بزمِ نویدسخن علی گڑھ ، گلشن ادب علی گڑھ، کے زیر اہتمام بہ اشتراک غالب اسٹڈی سینٹر، ابن سینا اکادمی دودھ پور، علی گڑھ میں 13؍ اپریل کو انعقاد کیا گیا تھا ۔رسم اجراء بدستِ مبارک جناب عارف نقوی صاحب صدر اردو انجمن، برلن (جرمنی)، اجراء کی صدارت جناب مظفر حسین سید صاحب، مہمانِ خصوصی پروفیسر ڈاکٹر صغیر افراہیم صاحب ، مہمان اعزازی ڈاکٹر وکرم سنگھ صاحب ، پرووائس چانسلر سید احمد علی،پروفیسر سید محمد ہاشم، پروفیسر طارق چھتاری،پروفیسر محمد زاہد ، پروفیسر مولا بخش ،پروفیسر شکیل صمدانی ، موجود تھے۔

تحقیقی مقالہ ’’پروفیسر صغیر افراہیم کا تنقیدی شعور‘‘ کے رسم اجراء کی تقریب کو خطاب کرتے ہوئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پرووائس چانسلر سید احمد علی نے کہا کہ یہ بہت مسرت کی بات ہے کہ کسی ادیب کی زندگی میں اس پر تحقیق ہوکر کتابی شکل میں سامنے آجائے، انھوں نے کہا کہ صغیر افراہیم ایک اچھے استاد کے ساتھ اچھے نقاد اور افسانہ نگار بھی ہیں ، انکی ادبی خدمات کا اعتراف کیا جانا ایک صحت مند علامت ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اردو زبان کے فروغ کے لئے ضروری ہے کہ اسے پرائمری سطح سے تعلیم کا لازمی حصہ بناکر نئی نسل کو اردو زبان سے جوڑدیا جائے۔

اردو انجمن برلن (جرمنی) کے صدر اور مہمانِ خصوصی عارف نقوی نے کہا کہ اردو کی جڑیں بہت مضبوط ہیں اردو کا مستقبل بھی روشن ہے لیکن نئی نسل کو اردو سے واقف کرانے کے لئے جدید طریقوں کو اپنانا ہوگا چونکہ اب زمانہ بہت تیزی سے بدل رہا ہے، ہمیں صغیر افراہیم جیسے ادیبوں اور افسانہ نگاروں کی ضرورت ہے کہ وہ سماج میں متحرک رہ کر جس طرح اردو کی خدمت کر رہے ہیں وہ قابل ستائش ہے۔ مہمانِ ذی وقار ڈاکٹر وکرم سنگھ نے صغیر افراہیم کی علمی اور تحقیقی کاوشوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ وہ نہایت ہی فعال اور متحرک انسان ہیں وہ ہمہ وقت اپنے کاموں میں مصروف رہتے ہیں ۔

صدر جلسہ معروف ادیب مظفر حسین سید نے کہا کہ صغیر افراہیم کی خدمات کے اعتراف کے لئے جن ادبی تنظیموں نے یہ عظیم الشان محفل سجائی ہے وہ قابل مبارکباد ہیں اور پروفیسر صغیر افراہیم کی ادبی خدمات اور انکا انہماک اس سے زیادہ کا متقاضی تھا، انھوں نے زمانہ طالب علمی سے جس لگن کے ساتھ اپنا ادبی سفر شروع کیا تھا وہ آج بھی جاری ہے۔ پروفیسر سید محمد ہاشم نے کہا کہ صغیر افراہیم اپنے دورِ طالب علمی سے ہی اپنی صلاحیتوں سے متاثر کرتے رہے ہیں اور ان کو تنقید و فکشن نگار کی حیثیت سے دنیا بھر میں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ پروفیسر طارق چھتاری نے پروفیسر صغیر افراہیم کی تنقید اور افسانہ نگاری پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔

پروفیسر محمد زاہد نے کہا کہ پروفیسر صغیر افراہیم کی شخصیت کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالی۔ پروفیسر مولا بخش نے کہا کہ پروفیسر صغیر افراہیم پر ہونے والی پی ایچ ڈی صرف ان کے لئے ہی نہیں بلکہ تمام شعبۂ اردو کے لئے باعثِ افتخار ہے۔ انہوں نے کہا کہ پروفیسر صغیر افراہیم جیسے اسکالرس موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لئے باعثِ ترغیب ہیں ۔ پروفیسر شکیل صمدانی نے کہا کہ اس تحقیق نے علمی دنیا میں پروفیسر صغیر افراہیم کے علمی قد میں مزید اضافہ کیا ہے۔

پروفیسر صغیر افراہیم نے تمام مہمانان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اظہارِ تشکر کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں ، سماج اور معاشرے میں جو کچھ ہے اور ہمیں اپنے بزرگوں سے جو حاصل ہوا ہے اسکو ادب میں ڈھالنے کی کوشش ہے آج میری ان کاوشوں کا اعتراف کیا جارہا ہے میرے لئے غیر معمولی مسرت کا مقام ہے اور میں پانچوں میزبان تنظیموں کا انتہائی مشکور ہوں کہ انھوں نے اس جلسہ کا انعقاد کیا۔ جلسہ کی نظامت اویس جمال شمسی نے کی۔

تبصرے بند ہیں۔