ہندستانی کرکٹ کنٹرول بورڈ: اب اونٹ آیا پہاڑ کے نیچے

صفدرامام قادری

عرض داشت

قانونی داؤں پیچ اور عدالتی کھیل تماشے کا وقت ختم ہوا؛ کرکٹ کنٹرول بورڈ کو ہر اعتبار سے سفارشات کو نافذ کرنا سپریم کورٹ کی جانب سے لازم قرار پایا۔

دو برس سے زیادہ ہونے کو آئے ،بہار کرکٹ ایسوسی ایشن کے مقدّمے کے سلسلے سے سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے ہندستان کے کرکٹ کنٹرول بورڈ کی طرف نگاہ اُٹھائی۔ معلوم ہوا کہ اونٹ کی کوئی کَل سیدھی نہیں ہے۔کرکٹ کنٹرول بورڈ کا سب سے پہلا غرور دولت کا ہے۔ اس ادارے کو اپنے ملک کے کرکٹ کی ترقّی یا آگے لے جانے کے منصوبوں کی کوئی دیوانگی تو نہیں لیکن سالانہ آمدنی میں اربوں اور کھربوں کا اضافہ ہوتا رہے، بس اِسی بات کی فکر ہے۔
بہار کرکٹ ایسو سی ایشن کا اصل مقدّمہ تو ابھی فیصلے کی منزلوں سے بہت دور ہے لیکن سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد یہ لازمی ہو گیا کہ کرکٹ کنٹرول بورڈ کے پاس اصلاحی کارروائیوں کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ جب مقدّمے کی تہہ میں اُترنے کی باری آئی تو سپریم کورٹ کو بہ یک نظر معلوم ہو گیا کہ ریاستی کرکٹ کنٹرول بورڈ سے لے کر قومی کرکٹ کنٹرول بورڈ میں اربو روپے کا وارا نیارا ہو رہا ہے اور قومی جذبات کا استحصال کرتے ہوئے ہزاروں من مانیاں کی جا رہی ہیں۔ سپریم کورٹ کو باربار عبوری احکامات جاری کرنے پڑے،احکامات کے سلسلے سے حیل وحجت اور بہانے بازیوں پر سپریم کورٹ نے نظر رکھی اور بار بار سرزنِش کی ضرورت پڑی۔تھوڑے تھوڑے کام ہوتے گئے اور عدالت کو یا عوام کو بھی محسوس ہونے لگا کہ کرکٹ کنٹرول بورڈ مطلق العنانی کیفیت سے دست بردار ہوگا اور ایک جمہوری ملک میںایمان کے جذبے سے عوامی کھیل کو فروغ دینے میں اپنی کوششیں روا رکھے گا۔ لیکن ایسا ہوا نہیں۔ زیرِ سماعت مقدّمے میں جب فیصلے کی گھڑی آئی تو کرکٹ کنٹرول بورڈ کی بہانہ بازیاں آڑے آتی گئیں۔
سپریم کورٹ کے حکم سے کئی چیرمین بدلے گئے۔ شری نواسن اور ششانک منوہر دونوں کو اپنے عہدوں سے جبریہ طور پر ہٹنا پڑا۔ رٹائرڈ ججوں کی کئی کمیٹیاں بنانی پڑیں۔ مُدگل کمیٹی اور پھر لوڑھا کمیٹی اس سلسلے سے فیصلہ کُن مراحل تک اس معاملے کو لے جانے کے لیے مامور ہوئیں۔ لوڑھا کمیٹی نے جو سفارشیں پیش کیں اُن میں انصاف اور جمہوری تقاضوں کے اعتبار سے زیادہ موزوں فیصلے کیے گئے۔ چند خاص نکتے قابلِ غور تھے:
(الف) کسی بھی صوبے سے ایک ایسوسی ایشن کو ووٹ دینے کا اختیار حاصل ہوگا۔ معلوم ہو کہ مہاراشٹر اور گجرات میں تین تین کرکٹ ایسوسی ایشن کام کرتے ہیں اور سب کی الگ الگ رنجی ٹیمیں موجود ہیں۔ اِسی وجہ سے کرکٹ انتظامیہ پر ان ریاستوں کے جبر کی مثالیںروز دیکھنے کو ملتی رہی ہیں۔ فیصلوں میں ان ایسوسی ایشنوں کو ہمیشہ سودے بازی کرنے کا موقع مل جاتاہے۔ لوڑھا کمیٹی کی یہ سفارش کسی طور پر بھی ناموزوں نہیں کہی جا سکتی۔
(ب) ستّر برس سے زیادہ عمر کا کوئی شخص کرکٹ کنٹرول بورڈ کا انتظام کار نہیں ہوگا۔یہ فیصلہ سیاسی عہدوں کو چھوڑ کر اپنے آپ ہر جگہ نافذ ہے۔ خدا کرے وہ دن بھی آئے کہ صدر ، نائب صدر اور وزیرِ اعظم، گورنر اور وزراے اعلا بھی عمر کے ان دائروں میں شامل کیے جائیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عوامی طور پر ایسے فیصلوں سے لوگ خوش ہوں گے۔ صرف سیاست دانوں کو ہی تکلیف ہوگی۔ ملازمت میں سبک دوشی کا تصوّر صحت کے فطری تقاضوں کی عمومیت پر قائم ہے۔ اس اعتبار سے ستّر برس کے آدمی کے لیے اگر وہ مذہبی ہے تو اللہ اللہ کرنا چاہیے یا اپنے بنیادی میدان میں خدمت گزاری کے لیے خود کو وقف کردینا چاہیے۔ مگر یہاںعہدے پر رہتے ہوئے مرنے کا شوقِ بے پایاں سودا بن کر قائم رہتا ہے۔ اس لیے کوئی نہیں چاہتا کہ وہ اپنے عہدے سے سبک دوش ہو۔ لوڑھا کمیٹی کی اس سفارش سے انصاف کے نئے اصول نافذ ہوںگے۔
(ج) لوڑھا کمیٹی نے لگاتار صدر یا دیگر عہدے داروں کو نہیں بنائے جانے کا مشورہ دیا۔ یہ بھی کہا کہ دو بار سے زیادہ وہ اپنے راج کاج کو نہیں چلا سکیں گے۔ ہندستان جیسے سوا سو کروڑ باشندوں کے ملک میں نئے نئے لوگوں کو مواقع ملیں اور وہ اپنے تصوّرات کو روٗ بہ عمل لائیں ، اس کے لیے اس سے معقول اور کون سی تجویز ہو سکتی ہے۔
(د) ریاست یا مرکز میں جو وزرا یا اُس سے بھی بڑے سیاسی عہدوں پر فائز ہیں، اُنھیں کسی بھی طور پر ریاستی یا مرکزی کرکٹ کنٹرول بورڈ کا عہدے دار نہیں بنایا جائے۔ اس سفارش میں کوئی قباحت نہیں تھی مگر سیاست دانوں کا شوقِ بے پایاں یہ ہے کہ وہ ہندستان کے وزیرِ مالیات تو رہیں مگر اِسی کے ساتھ دہلی کرکٹ کنٹرول بورڈ کی صدارت بھی چاہیے۔ گجرات کے وزیرِ اعلا رہیں اور وہاں کے کرکٹ ایسو سی ایشن کے صدر بھی بنے رہیں۔ مرکز میں وزیر کے عہدے کو سرفراز کریں اور مہاراشٹر میں کرکٹ کنٹرول بورڈ کے صدر اور موقع ملے تو ہندستانی کرکٹ کنٹرول بورڈ اور خدا کی مہربانی سے آئی ۔سی۔ سی۔ کی صدارت بھی ہاتھ آجائے۔ ایک آدمی کو آخر کیا کیا چاہیے؟ اور وہ کرے بھی تو کیا کر لے گا؟
(ہ) لوڑھا کمیٹی نے یہ سفارش کی کہ جس نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر کرکٹ نہیں کھیلی ہو، وہ کرکٹ انتظامیہ سے باہر جائے۔ اس سفارش میں آخر کون سی بُرائی ہے؟ جو سیاست نہیں کرتا ہے اُسے پارلیامنٹ چلانے نہیں دیا جاتاہے، جس نے قانون نہیں پڑھا ، وہ عدالت کیوں کر چلائے گا؟ جس نے تاریخ پڑھی وہ ہی یونی ورسٹی میں جا کر تاریخ پڑھاتا ہے اور جو ادب پڑھ کر گیا ہے وہی ادب پڑھائے گا۔ جس نے ہوا بازی سیکھی ، وہی جہاز اُڑائے گا لیکن ایک کرکٹ کنٹرول بورڈ ایسا ادارہ ہے جس کے لیے یہ لازم نہیں۔ وہاں آپ آئی ۔ اے ۔ایس۔ ، آئی ۔پی۔ ایس۔ اور سیاست دان یا معاشیات کے جہاں گرد ہوں تو آپ کے لیے خوب خوب جگہ ہے۔ سیمنٹ بنائیے اور کرکٹ کے اعلا عہدوں کو سرفراز فرمائیے۔ ڈالمیا اور ریلائنس کے پوشیدہ عزائم آخر کھیل کے میدان میں کیوںاُجاگر ہونا چاہتے ہیں۔ سچّائی تو یہ ہے کہ کرکٹ کے سہارے سب کو شہرت ، عزت اور دولت چاہیے۔ کھلاڑیوں کی محنت اور عوامی جذبات کے کاندھے پر سوار ہو کر سیاست دان، انتظام کار اور انڈسٹریز کے ارب پتی افراد یہاں سربراہی کے خوابوں کے ساتھ میدان میں برسرِ کار نظر آتے ہیں۔ سب کو اپنی دولت کی بہ دولت اپنے انداز کے کھیل تماشے میں لگنے کا شوق ہے۔
ہندستانی کرکٹ کنٹرول بورڈ ایسے ہی مفاد پرستوں کا اڈّہ ہے۔ سپریم کورٹ نے ابھی دوہفتے کی آخری مہلت دی ہے اور کرکٹ کنٹرول بورڈ کے صدر کو بہ نفسِ نفیس حاضر ہونے اور اپنی اصلاحات کی تفصیل پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ نومبر -دسمبر 2016ء شاید ہندستانی کرکٹ کنٹرول بورڈ پر نکیل کسنے کے لیے یاد کیے جائیں گے۔ کرکٹ کی بے انصافیاں ختم ہونی چاہیئیں اور جن لوگوں نے ذاتی ملکیت کے طور پر کرکٹ کو بہت دنوںسے سنبھال رکھا ہے، اُن تمام لوگوںسے اب کرکٹ کو نجات ملنی چاہیے۔2000ء میں بہار اور جھارکھنڈ الگ ہوئے لیکن سولہ برسوں کے بعد بھی اب تک بہار اور اُتّرا کھنڈ میں کرکٹ کنٹرول بورڈ قائم نہیں ہو سکا۔گُٹ بازی اور کرکٹ سیاست میں کمزور دکھائی دینے والے صوبوں کے حقوق کو آخر کب تک سلب کرکے رکھا جائے گا؟
سپریم کورٹ نے لوڑھا کمیٹی کو آزادانہ طور پر ایک آڈیٹر بٹھانے کا حکم جاری کیاتاکہ ہندستانی کرکٹ کنٹرول بورڈ کے مالی معاملات پر نظر رکھی جا سکے۔ اِسی طرح ریاستی بورڈوں کی رقم پر بھی نظر رکھنے کی کوشش شروع ہو چکی ہے۔نتائج یقینی طور پر سامنے آئیں گے۔ سپریم کورٹ نے وقتی طور پر الگ سے جس طرح اصلاحات کو نافذ کرنے کے لیے کمیٹی بنا رکھی ہے، اِسی طرح ہر علاقے کے سابق کھلاڑیوں کو سامنے لا کر اُنھیں کرکٹ انتظام کاروں کی صفِ اوّل تک پہنچانا بھی عوامی توقّعات کے تحت سپریم کورٹ کی ذمہ داری ہے۔ سوربھ گنگولی جس طرح بنگال کرکٹ ایسوسی ایشن کی صدارت فرما رہے ہیں اُسی طرح ہر صوبے میں سابق کرکٹروں میں سب سے معقول افراد کو منتخب کرکے ان کاموں میں لگانا چاہیے۔ جب ریاستوں میں سابق کھلاڑی میدان میں آجائیں گے تو قومی سطح پر سیاست دانوں کے بنے بنائے گھروندے اپنے آپ منہدم ہو جائیں گے۔ سپریم کورٹ کو ابھی آگے کئی برسوں تک اس ذمہ داری کو نہیں چھوڑنا چاہیے۔ جسٹس ٹھاکر تو جنوری میں سبک دوش ہو جائیں گے لیکن اُن کے بعد آنے والے چیف جسٹس حضرات کو ہندستانی عوام کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے اس خدمت کو جاری رکھنا چاہیے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔