ہندوستانی حکومت اور عوام

وقار احمد ندوی
 ہندوستان کا ہر شہری ایک معاہدہ کے کے تحت وفاق سے بندھا ہوا ہے جسے انگریزی میں یونین کہتے ہیں اور اسی حوالے سے دہلی کی حکومت کو یونین گورنمنٹ یا وفاقی حکومت کہتے ہیں. جس معاہدہ نے تمام شہریوں کو ایک دھاگے میں پرویا ہوا ہے اسے آئین کہتے ہیں. آئینی اعتبار سے شہری ہونے کے ناطے ہر فرد اپنے حقوق میں دوسرے کے مساوی اور فرائض میں برابر کا ذمہ دار ہے. سوال اکثریت کے جبر اور اقلیت کے حقوق کا نہیں آئین کے احترام کا ہونا چاہیے. شہریوں کے مساوات پر بحث ہونی چاہیے. ورنہ آئین اور آزادی بے معنی ہو کر رہ جائیں گے. روہت ویمولا سے لے کر نجیب کی گم شدگی اور پھر بھوپال انکاؤنٹر وغیرہ جیسے واقعات آئین کی عملداری کے نین ونقش کو دھندلا کرتے ہیں. اس قسم کے تمام واقعات گزشتہ سے پیوستہ نہیں ہوتے اور یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ کسی خاص وقوعہ کو پس منظر میں دھکیلنے اور عوام کو غافل کرنے کے لیے انجام دییے گئے ہوں. تمام تر واقعات اپنے آپ میں مکمل اور پیہم پیش آنے والے حادثات منظم ہیں. جو فکری اور طبقاتی کشمکش کے تحت وجود پذیر ہو رہے ہیں. ہندوستان جیسے تکثیری معاشرہ میں کسی ایک فریق یا فرقہ سے تطھیر پر مبنی سیاسی بیانیے اور سماجی روییےتمام تر برائیوں کا سر چشمہ ہیں. ہندوستان کے وفاقی آئین پر ایمان رکھنے والے کسی بھی ایک شہری یا جماعت کو یہ حق حاصل نہیں ہو سکتا کہ وہ کسی بھی دوسرے شہری یا جماعت سے آزاد ہندوستان کے تصور کی تشہیر کرے. کانگریس مکت، مسلم مکت، سنگھ مکت یا الحاد مکت بھارت کی سوچ؛ بھارت کے لیے تباہی کا پیغام اور فنا انجام بھی ہو سکتے ہیں. ایک کانگریسی، ایک مسلم، ایک سنگھی یا ایک ملحد بھی اگر اس ملک میں باقی ہے تو شہری ہونے کی حیثیت سے آئین اس کو مساوات کی بنیاد پر آزادئی فکر وعمل سے جینے کا اتنا ہی حق فراہم کرتا ہے جتنا کڑوروں پر مشتمل اکثریت کو. ملک کی جغرافیائی وحدت اور قومی سلامتی کا دارومدار آئین ہی ہے. کوئی ملک اس لیے نہیں باقی رہتا یا ٹوٹتا ہے کہ وہاں کی مسلح افواج طاقتور یا کمزور ہوتی ہے بلکہ اس لیے کہ وہاں آئین بالادست ہوتا ہے یا نہیں ہو تا. اگر آئین بالادست نہیں ہوتا ہے تو طالع آزما طاقتور طبقہ یا فوج اس کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے کمزوروں کے حقوق کو جبری غصب کرتے ہیں اور مساوات کے  اصول کو روندتے ہوئے طاقتور کے لیے حکمرانی اور غلبہ کو یقینی بنائے رکھنا ضروری سمجھتے ہیں. تقسیم ہند سے لے کر بنگلہ دیش کے قیام تک قدم قدم پر دانشمندوں کے لیے بے شمار اشارے موجود ہیں. ہمارا ملک اب تک اس لیے متحد اور مستحکم ہے کہ ہمارے ادارے؛ پارلیمان، عدالت، افواج اور انتظامیہ اپنے اپنے متعین دائرے میں کام کر رہے ہیں. ان سب پر آئین کا پہرہ ہے. یہی وجہ ہے کہ شمال مشرقی ریاستوں اور پنجاب میں علیحدگی پسندی کی تحریکیں بار نہیں پا سکیں. دوسری طرف کشمیر میں علیحدگی پسندی کی تحریک کو اس لیے فروغ حاصل ہو رہا ہے کہ حکومتوں نے کشمیر کے سلسلے میں آئین کی کما حقہ پاسداری کو ضروری نہیں سمجھا. اور آئین کی دفعہ 370 جس کے ذریعہ کشمیر ہندوستان کا حصہ بنا تھا عملی طور پر اسے بڑی حد تک معطل کر دیا گیا.
کسی بھی برسر اقتدار جماعت کو جمہوری اوقات میں ہی رہنا چاہیے، جامے سے باہر ہونے کا شوق اسے ننگا بھی کر سکتا ہے. یاد رکھنا چاہیے کہ اس نے ملک کو فتح نہیں کیا ہے بلکہ عوام نے حق رائے دہی کے ذریعہ اسے پانچ سال حکومت کرنے کا موقع دیا ہے. وہ اپنے وجود کو ریاست کی بقاء کے لیے ناگزیر سمجھنے کی غلطی نہ کرے. جمہوری منظرنامے کا  دوسرا پہلو یہ ہے حزب مخالف بھی حکومت ہی کا حصہ ہوتی ہے اسے دیسی زمین میں اجنبی پودا یا بیگانے کی شادی میں عبد اللہ دیوانہ سمجھنے کی غلطی نہیں کی جانی چاہیے. کانگریس کی وکالت مقصود نہیں فراست صرف یہ کہتی ہے کہ ہندوستان کے متنوع معاشرے اور عظیم تر وفاق کو برقرار اور مضبوط ومستحکم رکھنے کے لیے کانگریس کا وجود انتہائی اہم ہے. ایک شخص غلطی کرتا ہے، خاندان سے غلطی ہوتی ہے، سماج بھی کبھی غلطی کرتا ہے اور کبھی کبھی ایک ملک یا چند ممالک داخلی اور خارجی سیاسی معاملات میں غلطی کر بیٹھتے ہیں. بالکل اسی طرح کانگریس نے بھی پارٹی کی سطح پر بعض غلطیاں کی ہیں اور بعض وقت کچھ  کانگریسی رہنماؤں کی شخصی غلطیوں کی وجہ سے بھی پارٹی اور ملک کے عوام کو نقصان پہنچا ہے نیز آئندہ بھی غلطیوں کا امکان ہے کہ یہ انسانی فطرت کا تقاضہ ہے. تاہم کانگریس کی ثابت شدہ تاریخی خوبیوں اور  عظیم ترین حصولیابیوں کو نظر انداز کر دینا بھی انصاف کا خون ہوگا. اہم یہ ہے کہ اصول وضوابط غلط نہیں ہونے چاہیے. کانگریس کے اصول ہندوستانی آئین کا عکس ہیں. ہندوستانی آئین کی حفاظت میں بڑا کردار ادا کرنے والی کوئی ملک گیر قوت اگر ہے تو وہ کانگریس ہی ہے. اس کا کوئی متبادل تا حال نہیں ہے. لہذا اس کو باقی رکھنا اور مستحکم کرنا ہندوستان اور ہندوستانیوں کی شدید ترین ضرورت ہے.
 یہ خیال کہ ہندوستان کے حالات بدتر ہو رہے ہیں جزوی طور پر درست ہے، آدھا سچ ہے پورا نہیں. آزاد ہندوستان نے بدترین حالات میں ہی آنکھیں کھولی ہیں. مسکراتے ہوئے گلے مل کر پھولوں کے تبادلے کے ساتھ ہم نے ہندوستان کو تقسیم نہیں کیا تھا. غلطی بہت بڑی تھی لہذا سزا کا دورانیہ بھی طویل ہے اور دکھوں کا سلسلہ بھی دراز. ستر، اسی اور نوے کی دہائیاں بھی درجنوں خوں ریز فسادات سے عبارت ہیں. تب بھی یہی کہا جاتا تھا کہ ہندوستان کے حالات روز بہ روز خراب ہوتے جا رہے ہیں اور آج بھی یہی شکوہ ہے. عمومی طور پر تمام  ہندوستانیوں کو  اور خاص طور پر مسلمانوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ فتح حاصل کرنے کے لیے ہمیشہ جنگ کرنا ہی ضروری نہیں ہوتا، جنگ سے گریز کر کے بھی عظیم ترین فتوحات حاصل کی جا سکتی ہیں. اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ میں اور خالد بن ولید نے یرموک میں جو فتوحات حاصل کیں وہ تاریخ اقوام کی پیشانی پر ابدی اور سرمدی جھومر کی حیثیت رکھتی ہیں.
مسلمانوں کے لیے مشورہ ہے کہ موسموں کے بدلتے رہنے کے ساتھ سیاسی وفاداریاں تبدیل کرتے رہنا اور ہر راہ رو کے پیچھے تھوڑی دور اور تھوڑی دیر چلنے کو دانشمندی نہیں کہا جا سکتا. وقت کا جبری تقاضہ ہے کہ آئینی حیثیت کے مسلم ہونے کے باوجود اپنے اندرونی قوت وضعف اور بیرونی  حقیقت کا از سرنو بے رحمانہ تجزیہ کر کے سمت سفر متعین کی جائے. ہندوستان نہ تو دارالحرب اور نہ ہی اسے دار الاسلام سمجھنا چاہیے. وہ دار المیثاق ہے. معاہدے کی سر زمین ہے جیسا کہ دنیا کے اور بھی بیشتر ممالک ہیں. ہندوستانی مسلمان اگر یہ سمجھتے ہیں کہ معاہدے میں مندرج حقوق جس طرح  انہیں ملنے چاہییں نہیں مل رہے ہیں تو وہ اپنے ملک کو دار الامتحان بھی سمجھ سکتے ہیں. امتحان میں حقیقی اور دیرپا کامیابی کے جو شرائط ہیں ان پر توجہ دینی چاہیے. سچی کامیابی کبھی بھی شارٹ کٹ سے حاصل نہیں ہوتی.
یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔