اوّلیات مودی

ممتاز میر
ابھی سال دو سال پہلے ٹی وی پر اشتہار آتا تھا ۔اشتہار مین کام کرنے والے سب ملکر خوش ہو ہو کر گاتے تھے ’’خوش ہے زمانہ آج پہلی تاریخ ہے، پہلی تاریخ ہے‘‘ یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ وہ دن جب محنت کشوں کو ان کا محنتانہ ملنے والا ہوتا ہے (چاہے اس دنیا میں یا اس دنیا میں)ان کے لئے وہ دن بہت خوشی کا ہوتا ہے ۔مگر آج (یکم دسمبر ) ناشتے پر جب ٹی وی دیکھا تومعلوم ہوا کہ دنیا کی تاریخ میں محنت کشوں کے لئے یہ وہ پہلی تاریخ جس میں وہ خوش نہیں غم زدہ ہیں ۔ان کے چہرے خوشی کے نہیں اعصابی تناؤ کا شکار ہیں۔ان کے چہرے کہہ رہے ہیں کہ ’’روتا ہے دیش آج پہلی تاریخ ہے‘‘اور اس ساری صورتحال کا سہرہ بلا شرکت غیرے جناب نریندر دامودر مودی کے سر بندھتا ہے۔
جناب مودی ہندوستانی تاریخ کے وہ پہلے وزیر اعظم ہیں جنھیں وزیر اعظم بننے سے پہلے ہی مسلمانوں کے قتل کا ذمہ دار سمجھا گیا ۔یہ وہ پہلے وزیر اعظم ہیں جن کے خلاف ان کی وزارت علیا کے زمانے میں ان کی بیوروکریسی کے کئی ممبران نے بغاوت کی تھی اور جن کو ان کے وزیر اعظم نے راج دھرم نبھانے کی نصیحت کی تھی ۔یہاں تک کے ان کے کرتوتوں کی بنا پر ان کے وزیراعظم کو یہ کہنا پڑا تھا کہ اب میں دنیا کو کیا منہ دکھاؤں گا۔یہ وہ پہلے وزیر اعظم ہیں جن پر ان کی وزارت علیا کے زمانے میں کچھ لوگوں نے اپنے ہی کابینی ساتھی کے قتل کا الزام لگایا
تھا ۔یہ وہ پہلے وزیر اعظم ہیں جن کی خاطر کئی آتنک وادی اپنی جانیں نچھاور کر چکے ہیں۔دراصل ہوتا یہ کہ وہ ’’بے چارے ‘‘ مودی جی پر حملہ کرنے آجاتے ہیں اور مودی جی کے جانباز ان کا انکاؤنٹر کر دیتے ہیں۔مودی جی نے اس قسم کے بہت سارے جانباز تیار کر رکھے ہیں۔
یہ وہ پہلے وزیراعظم ہیں جن پر وزیر اعظم بننے سے پہلے خود مودی جی کے چہیتے ملک نے داخلے پر پابندی لگا رکھی تھی ۔اور اگر وہ وزیر اعظم نہ بنتے تو خود ان کے چہیتے ٹرمپ بھی اس پابندی کو ہٹا نہ پاتے۔شاید یہ بھی ایک وجہ ہو کہ وہ جلد سے جلد دنیا گھوم لینا چاہتے ہوں۔اسلئے یہ بھی ان کی اولیات میں ہے کہ انھیں وزیٹنگ پی ایم کہا جاتا ہے ۔یہ ہندوستان کے وہ پہلے وزیر اعظم ہیں جن کی تعلیمی لیاقت کے تعلق سے آج ڈھائی سال بعد بھی قطعیت کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا اور انھوں نے اپنی پہلی وزیر تعلیم بھی اس عورت کو مقرر کیا تھا جس کی اپنی تعلیمی
لیاقت کا کچھ اتہ پتہ نہیں تھا ۔یہ ہندوستان کا وہ پہلا وزیر اعظم ہے جس نے اپنی بیوی کو اپنی زندگی میں بیوہ بنا رکھا ہے اور مسلمانوں کی
بیویوں کے غم میں مر رہا ہے۔ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ برہمچاری ہو۔اس کے جنسی اسکینڈل وزارت عظمیٰ سے پہلے ہی سے میڈیا اور خاص طور پر شوشل میڈیا میں پھیل چکے تھے ۔آج کل پھر شوشل میڈیا پر اس کے چرچے ہیں۔یہ کہا جاسکتا ہے کہ صاحب یہ حال پنڈت جواہر لال نہرو
کا بھی تھا۔ہم کہیں گے کہاں راجہ بھوج اور کہاں گنگو تیلی۔
یہ بھی مودی جی کی اوّلیات ہی میں شمار کی جائے گی کہ انھوں نے غیر ضروری (نہیں۔ بلکہ وہ ملک کو جہاں لے جانا چاہتے ہیں اس کے
لئے عدلیہ پہ قبضہ بہت ضروری ہے)طور پر چیف جستس آف انڈیا کو شدید ناراض کر رکھا ہے ۔انھوں نے اپنے دکھ کا کئی بار عوامی سطح پر اظہارکیا ہے یہاں تک وہ ایک بھری سبھا میں آنسؤں سے رو بھی چکے ہیں۔چیف جسٹس کا دکھ یہ ہے کہ عدالتوں میں مطلوبہ تعداد میں
ججس نہیں ہے جس کی وجہ سے عوام کو انصاف جلد مہیا نہیں ہو پا رہا ہے ۔ججس کی کمی کی بنا پر عدالتوں کے کمرے خالی پڑے ہیں اور ایک ایک جج پرکئی کئی جج کے کاموں کا بوجھ ہے اگر عام ذہن کا پی ایم ہوتا تو فوراً اس طرف توجہ دیتا مگر یہ تو سنگھی دماغ کے آدمی ہیں یہ چیف جسٹس
کو اتنا ستانا چاہتے ہیں کہ وہ ان کی سفارشات قبول کرنے پر مجبور ہو جائے۔انھوں نے ججس کی ایک فہرست چیف جسٹس کو بھیجی بھی ہے
جس میں غالباً سنگھی ججوں کے نام ہیں مگر انھیں کولیجیم(ججوں کی وہ باڈی جواونچی عدالتوں کے لئے نئے ججوں کا تقرر کرتی ہے ) ماننے کے لئے تیار نہیں۔یہ جھگڑا مہینوں سے صرف چیف جسٹس اور پی ایم کے درمیان چل رہا ہے ۔کیا اس میں دوسری سیاسی پارٹیوں کو دخل نہیں دینا چاہئے؟کیا تمام سیاسی پارٹیا ں یہ چاہتی ہیں کہ مودی جی کے چہیتے ججوں کا تقرر ہو جائے؟کیا سب یہ چاہتے ہیں کہ سنگھ عدلیہ کو یرغمال بنا لے ؟صورتحال یہی ہے ۔کل ایک دوست کہہ رہے تھے 90 فیصدی انڈیا کے لائن میں کھڑے رہنے سے بھی مودی جی کو کسی قسم کی انتخابی پریشانی لاحق نہیں ہوگی۔۔کیوں؟وہ عین اپنے انتخاب کے وقت یا تو مسلم پرسنل لاکا صفایا کردیں گے یا رام مندر کا کام زور شور سے شروع ہو جائے گا۔اور سیاسی پارٹیاں وہی کریں گی جو اب تک کرتی آئی ہیں۔۔ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم ۔
اب آئیے اب تک مودی جی کے آخری ماسٹر اسٹروک کی طرف ۔ہمارے نزدیک موصوف ہندوستان کے نہیں دنیا کے وہ پہلے سربراہ
حکومت ہیں جو ہزار پانسو کے نوت بند کرکے اور2000 کے نوٹ ’’چالو‘‘ کرکے یہ دعوے کر رہا ہے کہ ہے کہ اس سے دہشت گردی پر روک لگے گی اور کالا دھن باہر آئے گا ۔یہ حسن اتفاق بھی آپ ہی کی تقدیر میں تھا کہ آپ کے اس اعلان کے چند دنوں بعد ہی دہشت گردوں کے پاس 2000 کے نوٹ پکڑے گئے ۔معلوم نہیں آپ کو شرم آتی ہے یا نہیں ۔غالب گمان تو یہی ہے کہ نہیں آتی ہوگی ۔ہمیں تو یہ سوچ کر بہت آتی ہے کہ دنیا کے معیشت داں ہمارے ملک کی انتظامیہ کی کھلی اڑاتے ہوں گے ۔وہ کہتے ہونگے کہ کیسا پگلا وزیر اعظم ہے کے ہزار پانسو کے نوت بند کر کے اور 2000 کے نئے نوٹ جاری کرکے کالا دھن اور کرپشن بند کرنے چلا ہے۔اس طرح انڈیا سپر پاور بنے گا یاپاور لیس بنے گا
وہ کہیں گے کہ جس ملک کا سربراہ ایسا پگلا ہو اسے یو این او کی سیکوریٹی کونسل میں مستقل نمائندگی دے کر ویٹو پاور کس طرح دیا جا سکتا ہے۔جو اپنے غلط فیصلے سے عوام کو اس حد تک پریشان کر سکتا ہے کہ عوام خود کشیاں کرنے لگے اس کے ہاتھوں میں ویٹو پاور کا ’’استرا‘‘ آنے کے
بعدوہ معلوم نہیں کس کس کے گلے کاٹے؟سب سے زیادہ ڈر ان کو لگے گا جو اسے ویٹو پاور دیں گے۔
معلوم نہیں اسے کیا کہیں گے ۔جو بھی ہے مگر ہے لاجواب چیز۔ہفتہ دس دن پہلے کسی نے شوشل میڈیا پر لکھا تھا ’’بیٹا اگرنالائق ہو تو ماں کو
لائن میں کھڑا رہنا پڑتا ہے‘‘ ۔
یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔