ہندوستانی مسلمانوں کے اندیشے اور علاج

وقار احمد ندوی

احساس کمتری انسان کے اندر شکایتی مزاج پیدا کرتا ہے جو  بدترین مہلک مرض ہے. انسان کی فطری خفیہ صلاحیتوں کو کبھی بروئے کا نہیں آنے دیتا. اس احساس کے حامل لوگ یا قوم اعلی کارکردگی کا مظاہرہ کیا کریں گے ادنی ترین خدمات بھی بخوبی انجام نہیں دے سکتے. مسلمانوں کے لیے لفظ اقلیت کے مسلسل استعمال اور محرومیوں نیز حق تلفیوں کے پیہم تذکرے نے ان کی بڑی تعداد کو احساس کمتری کا شکار کر دیا ہے. کسی بھی مقابلہ جاتی میدان میں قدم رکھنے سے پہلے ہی مسلم نوجوان مختلف قسم کے اندیشوں میں مبتلا ہو جاتا ہے اور میدان میں اترنے سے پہلے ہی ہار جاتا ہے. مسلمانوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ کم وبیش بیس کڑور کی آبادی اقلیت نہیں ہوتی بلکہ وہ دوسری بڑی اکثریت ہیں. ان کے اندر صلاحیتوں کی کمی نہیں بلکہ خود اعتمادی اور مثبت سوچ کا فقدان ہے. اگر وہ آگے بڑھنے پر کمربستہ ہوں تو کوئی ان کا راستہ نہیں روک سکتا.
گزشتہ مضمون اس بات پر ختم ہوا تھا کہ ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل کا حل شکایت نہیں بلکہ محنت ہے. اسی کو آگے بڑھاتے ہوئے ایک واقعہ عرض کرنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا. ہوا یوں کہ چند ماہ پہلے میں نے اپنے بڑے لڑکے سے جس کی عمر گیارہ سال ہے الماری سے کچھ نکال لانے کے لیے کہا. تھوڑی دیر کے بعد اس نے واپس آ کر بتایا کہ مطلوبہ سامان کو امی نے بہت سے دوسرے سامان کے پیچھے ڈال دیا ہے اور مجھ سے نکل نہیں پا رہا ہے. اس کی بات ختم ہوئی ہی تھی کہ میرے چھوٹے لڑکے نے جس کی عمر صرف ساڑھے چھ سال ہے مذکورہ سامان لا کر میرے سامنے رکھ دیا. اس کا چہرہ اعتماد سے تمتما رہا تھا اور آنکھیں روشن تھیں. میں نے اس وقت بڑے لڑکے کو یہ بات سمجھائی تھی کہ حالات اور مشکلات کی شکایت کرنے والے کے حصہ میں ہمیشہ پشیمانی اور محنت کرنے والے کا مقدر شادمانی ہی ہوتی ہے.
موجودہ زمانے میں تجارتی مراکز، دفاتر اور بینکوں وغیرہ  میں شیشے کے خودکار  دروازے لگے ہوتے ہیں جو بند ہوتے ہیں اور قریب جاتے ہی آنے جانے والوں کے لیے کھل جاتے ہیں. تعلیم، ملازمت اور تجارت کے میدان کی بھی بالکل یہی صورت حال ہے. احساس کمتری میں مبتلا نوجوان مقابلہ جاتی امتحانات اور مسابقتی میدانوں کو دور سے دیکھتا ہے اور اور منفی ذہنیت کے تحت نتیجہ اخذ کر لیتا ہے کہ اس کے لیے دروازے بند ہیں جبکہ عین ممکن تھا قریب جانے پر دروازے کھل جاتے.
آزادی کے بعد سے آج تک رزرویشن کا شور برپا ہے. شک نہیں کہ اس سے انفرادی طور پر بہت لوگوں نے فائدہ اٹھایا ہے لیکن بہ حیثیت مجموعی رزرویشن کے مراعات یافتہ قبائل کی حالت آج تک نہیں بدلی. اگر پسماندگی کا علاج رزرویشن میں مضمر ہوتا تو آج ستر سالوں کے بعد بڑی ذات کے لوگ پس ماندہ ہوگئے ہوتے اور پس ماندہ طبقہ ترقی یافتہ ہو چکا ہوتا لیکن ایسا نہیں ہو سکا. آج بھی دلت، مہا دلت، پسماندہ اور انتہائی پسماندہ ہندوستانی سیاست کا دلچسپ موضوع ہے. اس کی وجہ یہ ہے کہ کچھ پانے کی امنگ اور کر گزرنے کی ترنگ کا سرچشمہ انسان کے اندرون سے پھوٹتا ہے. تبدیلی کا عمل دل ودماغ سے گزر کر ہاتھوں کے ذریعہ انجام کو پہنچتا ہے. اور یہی وہ دولت ہے جس سے پس ماندہ طبقات کی غالب ترین اکثریت محروم ہے. قرآن کریم میں اسی اندرونی تبدیلی کی طرف اشارہ کرتے اللہ تعالی کا ارشاد ہے (إن الله لا يغير ما بقوم حتى يغيروا ما بأنفسهم – سورة رعد) بے شک اللہ تعالی کسی قوم کی حالت کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ قوم خود اپنے اندرون کو تبدیل نہ کر لے. رزرویشن کے مسلسل مطالبے اور پیہم ناکامیوں نے بھی مسلم نوجوانوں کے احساس کمتری میں اضافہ ہی کیا ہے. حالانکہ ایسا نہیں ہونا چاہیے. ہمارے سامنے ایسے باحوصلہ نوجوانوں کی ایک فہرست ہے جنہیں نہ تو رزرویشن کی بیساکھیاں حاصل تھیں اور نہ ہی ان کے والدین مالدار تھے بلکہ بیشتر خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے والے تھے اس کے باوجود انہوں نے محنت کی اور آج اسٹنٹ پروفیسر، سفارتکار، ٹرانسلیٹر، استاذ، براڈ کاسٹر، صحافی، وکیل اور ڈاکٹر کی حیثیت سے بہترین خدمات انجام دے رہے ہیں اور آسودہ ہیں.
گزشتہ چند برسوں سے پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں نے مسلمانوں کو نڈھال کر رکھا ہے. مظلوم و مقہور ہونے کا احساس جڑ پکڑتا جا رہا ہے. نوجوانوں میں عدم تحفظ کا احساس روز افزوں ہے. ہندووں کا ایک طبقہ یہ سمجھنے لگا ہے کہ مسلمان دہشت گرد ہیں جبکہ مسلمانوں کی آبادی کا بڑا حصہ یہ سمجھتا ہے کہ بے قصور مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرکے مسلمانوں کو بدنام اور نوجوانوں کے مستقبل کو تباہ کیا جا رہا ہے. حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کی سوچ رکھنے والے ہندو اور مسلمان دونوں غلط ہیں. دہشت گرد صرف دہشتگرد ہوتا ہے، مسلمان یا ہندو نہیں ہوتا. مسلم نوجوانوں کو احساس کی اس کیفیت سے نکالنے کے لیے دہشت گردی کے اسباب ومحرکات پر کھل کر بحث کرنے کی شدید ضرورت ہے اور اس کے سد باب کے لیے ذہن سازی کے عمل کا تسلسل ناگزیر ہے. اس ضمن میں ذمہ دار شہری کی حیثیت سے ہمیں کڑوی سچائیوں کا برملا اعتراف کرنا چاہیے اور نوجوانوں کو یہ باور کروانا چاہیے کہ جتنی سچائی اس بات میں ہے کہ بعض مسلم نوجوانوں کو بے قصور گرفتار کر لیا جاتا ہے اتنی ہی سچی یہ بات بھی ہے کہ بعض گرفتار شدہ مسلم نوجوان واقعی دہشت گرد ہیں. دوسری بات یہ ہے کہ کسی ملزم کا عدالت سے بری ہوجانا ہرگز یہ ثابت نہیں کرتا کہ وہ واقعی بےقصور بھی تھا. اگر اس مفروضہ کو درست مان لیا جائے تو گجرات کے بشمول ہندوستان کے مختلف علاقوں میں ہونے والے فسادات کے مجرمین جنہیں عدالت نے بری کر دیا ہے انہیں بے قصور ماننا پڑے گا. جبکہ ایسا نہیں ہے. ہمیں کھلے دل سے یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ بعض مسلم نوجوان کسی تکلیف کا بدلہ لینے کے لیے یا لالچ یا کسی کے بہکاوے میں آکر بعض وقت دہشت گردانہ کارروائیاں کر گزرتے ہیں اور پھر ان کے ساتھ شک وشبہ کی بنیاد پر ان کے کچھ بے قصور دوست احباب بھی گرفتار ہو جاتے ہیں. حقیقت یہ ہے کہ سبھوں کے کام کرنے کے طریقے الگ الگ ہوتے ہیں. دہشت گرد اپنے پیچھے کوئی نشان نہ چھوڑنے کی کوشش کرتا ہے، جبکہ پولیس محض شک کی بنیاد پر گرفتار کرنا اور تفتیش کرنا اپنا فرض سمجھتی ہے جبکہ جج صرف ٹھوس شواہد کی بنیاد پر ہی ملزم کو مجرم قرار دے کر سزا متعین کرتا ہے. تا ہم کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ غلطی سے دہشت گرد اپنا نشان چھوڑ جاتا ہے، پولیس زیادتیاں بھی کرتی ہے اور کبھی مجرم اس کے ہاتھ سے نکل بھی جاتا ہے یہاں تک کہ کبھی کبھی عدالتی قتل بھی ہوتا ہے لیکن یہ معمول کا عمل نہیں ہے نیز یہ صرف مسلمانوں کے ساتھ ہی نہیں ہوتا کسی اور کے ساتھ بھی ہوتا ہے. لہذا ہمارے نوجوانوں کو احساس کے اس دلدل سے نکلنا ہوگا کہ وہ بے بسی کے عالم میں غیروں یا دشمنوں کے بیچ جینے کو مجبور ہیں. صورت حال قطعا ایسی نہیں ہے. مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرنے والے پولیس اہل کار اگر ہندو ہونے کی وجہ سے نفرت کی نظر سے دیکھے جائیں اور ان کو دشمن سمجھ کر لعن طعن کیا جانا درست ٹھہرایا جائے تو خیال رہے کہ آپ کا مقدمہ لڑنے والے بہت سے وکیل بھی ہندو ہوتے ہیں اور وہ جج جو رہائی کا پروانہ جاری کرتا ہے وہ بھی ہندو ہی ہوتا ہے نیز ہندوستان کے جس آئین پر ہم نازاں ہیں، جس کی بدولت مساوات کی بنیاد پر ہم اپنے حقوق حاصل کرتے ہیں اور حق تلفی کے احساس کی صورت میں جس کی دہائی دیتے ہیں وہ آئین ہمارے کسی حکیم الامت کا بنایا ہوا نہیں ہے، اسے بھی ہندووں نے ہی بنایا ہے اور پارلیمنٹ سے منظور کروایا ہے.
حاصل گفتگو یہ کہ مسلمان ہونے کے ناطے ہم سب سے پہلے اللہ کی ذات بھروسہ رکھتے ہوئے خود اعتمادی سے کام لیں. شکوے اور بہانے کی قبیح عادت کو چھوڑیں اور محنت ومشقت کو اپنی مشکلات کا واحد علاج سمجھیں. منفی سوچ اور تصادم کی روش سے آخری حد تک گریز کریں. اپنے وطن سے غیر مشروط محبت، پارلیمانی جمہوریت اور عدالتی نظام انصاف پر مکمل اعتماد کریں. کسی کے بہکاوے میں نہ آئیں، فرد اور جماعت کی حیثیت سے اپنے آپ کو  اپنے ملک کا اہم عنصر سمجھیں. ہم جو بھی سوچیں پارٹ بن کر سوچیں پارٹی بن کر نہیں کیوں کہ ہم بھی دوسروں کی طرح وطن کا ہی ایک حصہ ہیں اس سے الگ نہیں ہیں. ذمہ دار اور قابل احترام شہری کی حیثیت سے جییں بھی اور اپنا حق بھی حاصل کریں.

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔