کربلا کے شہید (آخری قسط)

عبد العزیز

جانثاروں کا آخری عہد:
2محرم 61ھ کو یہ قافلۂ حق نینوا کے میدان کرب و بلا میںخیمہ زن ہوا۔ 9محرم تک یزید کے سپہ سالار عمر و بن سعد سے گفت و شنید جاری رہی۔ ادھر ابن زیادہ کا حکم آگیا۔ ’’میں نے تمہیں اس لئے نہیں بھیجا ہے کہ ڈھیل دیتے رہو، دن بڑھاتے چلے جاؤ اور حسینؓ کے سفارشی بن کر ان کی زندگی اور سلامتی کی تمنا کرو۔ تم حسینؓ اور ان کے ساتھیوں سے میرا حکم ماننے (یعنی بیعت کرنے) کو کہو، مان جائیں تو سب کو ہمارے پاس بھیج دو ورنہ فورا ً ہی حملہ کردو۔ یہ کام اگر نہیں کرسکتے تو فوج کی کمان شمر کے حوالہ کردو۔ ‘‘ ابن سعد کے نفس اور ضمیر میں ابھی تک کشمکش جاری تھی۔ ضمیر کا کہا مانتا تو رے کی حکومت ہاتھ سے جاتی تھی جس کا ابن زیاد نے یزید ک طرف سے وعدہ کیا تھا۔ آخر نفس غالب آگیا۔ وہ نواسۂ رسولؐ کے خون سے ہاتھ رنگنے پر آمادہ ہوگیا۔
عراقی لشکر تو 9محرم الحرام ہی کو لڑنے پر تلا ہوا تھا۔ حضرت حسینؓ نے ایک رات کی مہلت مانگی تو اپنے اللہ کے حضور جی بھر کے رکوع و سجود کرلیں، دعائیں مانگ لیں اور توبہ و استغفارکرلیں۔ ابن سعد نے مہلت دے دی اور حضرت حسینؓ نے اپنے ساتھیوں کو جمع کرکے انکی وفادری کو خراج تحسین ادا کیا اور فرمایا:’’میں تملوگوں کو بخوشی واپس جانے کی اجازت دیتا ہوں۔ رات ہوچکی ہے ، ایک اک اونٹ لے لو اور ایک ایک آدمی میرے ایک ایک ایل بیت کا ہاتھ پکڑ کرے ساتھ لے لے، اللہ تم سب کو جزائے خیر دے۔ اپنے شہروں، اور دیہات میں چلے جاؤ۔ یہ لوگ میرے ہی درپے ہیں۔ انہیں میرے بعد کسی کی تلاش نہ ہوگی۔‘‘
تقریر کے جواب میں تمام عزیز نیک زبان بول اٹھے: ’’اللہ وہ دن ہمیں نہ دکھائے کہ آپ تیغ جفا جو کا شکار بنیں اور ہم آپ کے بعد زندہ رہیں۔‘‘ آپ نے بنو عقیل سے فرمایاـ ’’مسلم کا قتل ہی تم لوگوں کیلئے بہت ہے۔ میںتمہیں واپس جانے کی اجازت دیتا ہوں۔‘‘ با حمیت بھائیوں کا جواب تھا: ’’ہم لوگوں کو کیا جواب دیں گے؟ کیا یہ کہیں گے کہ اپنے سردار، اپنے آقا اور ابن عم کو چھوڑ کر چلے آئے، ان کیلئے ایک تیر نہ چلایا۔ ایک نیزہ نہ مارا، تلوار کا ایک وار بھی نہ کیا۔ ہم لوگ اپنے مال و جان آپ پر فدا کردیں گے جو کہ انجام آپ کا ہوگا وہی ہمارا بھی ہوگا۔‘‘ آپ کے بعد جینا بیکار ہے۔‘‘
پھر مسلم بن عوسجہ اسدی اٹھے اور بولے:’’ اللہ کی قسم اس وقت تک آپ کا ساتھ نہ چھوڑوں گاجب تک دشمنوں کے سینوں میں نیزہ نہ توڑا اور تلوار نہ چلاؤں۔‘‘
سعد بن عبد اللہ حنفی نے کہا : ’’بخدا اگر مجھے یقین ہوتا کہ میں ستر مرتبہ قتل کیا جاؤں اور ہر مرتبہ زندہ کرکے آگ میں جلا کر، میری خاکستر اڑا دی جائے گی تو بھی آپ کا ساتھ نہ چھوڑتا۔‘‘
زہیرین قسؔ نے کہا: ’’اللہ کی قسم! میری تنما ہے کہ میں قتل ہوجاؤں۔ پھر زندہ ہوں، پھر قتل ہوجاؤں۔ اس طرح ہزار مرتبہ زندہ ہوہوکر قتل کیاجاتا رہوں۔ اور اللہ میرے اس قتل سے آپ کی ذات اور آپ کے اہل بیت کے نوجوانوں کو بچالے۔‘‘
غرض کہ ایک ایک جانثار نے جان فدا کردینے کا عہد کیا۔
شب عاشورہ:
جمعرات کا دن گزرنے کے بعد عاشورہ کی وہ تاریک نمودار ہوئی جس کی صبح میدان کربلا میں حق اور باطل کے علمبردار اپنے اپنے کردار کا ابدی نقش تاریخ کے اوراق پر ثبت کرنے والے تھے، حضرت حسینؓ نے منتشر خیموں کو ایک جگہ ترتیب سے نصب کرایا۔ اور ان کی پشت پر خندق کھو دواکر آگ جلوادی کہ دشمن عقب سے حملہ آور نہ ہوسکے۔ پھر تلواریں صاف کروائیں۔ حضرت زین العابدینؓ کہتے ہیں’’ جس رات کی صبح میرے والد شہید ہوئے، میںبیمار تھا۔ اور میری پھوپھی زینب میری تیمارداری کررہی تھیں۔ خیمے میں ابوذر غفاری کے غلام حوی تلوار صاف کررہے تھے اور میرے والد کی زبان پر یہ اشعار تھے۔‘‘(ترجمہ)
اے زمانہ تیرا براہو
تو کیسابے وفا دوست ہے
صبح و شام تیرے ہاتھوں سے
کتنے لوگ مارے جاتے ہیں توکسی کی رد رعایت نہیںکرتا۔
کسی سے عوض قبول نہیںکیا
سارا معاملہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
ہر زندہ موت کی راہ پر چلا جارہا ہے۔
تین چار مرتبہ آپ نے یہی شعر دہرائے۔ میرا دل بھر آیا۔ آنکھیں ڈبڈبا گئیں ۔ مگر میں نے آنسو روک لئے ہیں۔ سمجھ گیا کہ مصیبت اب ٹلنے والی نہیں۔ پھوپھی نے یہ شعر سنے تو وہ بے قابو ہوگئیں۔ بے اختیار دوڑتی ہوئی آئیں اور شیون فریاد کرنے لگیں۔‘‘
حضرت امام حسینؓ نے یہ حالت دیکھی تو فرمایا: ’’بہن یہ کیا ماجرا ہے؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ نفس و شیطان کی بے صبریاں ہمارے ایمان اور استقامت پر غاب آجائیں۔‘‘ زینب بولیں: ’’بھائی! میں آپ پر سے قربان، آپ کے بدلے میںاپنی جان دینا چاہتی ہوں۔‘‘ پھر چیخ مار کر بے ہوش ہوگئیں۔حضرت امام حسینؓ نے منھ پر پانی کے چھینٹے دیے۔ ہوش میںآئیں تو صبر کی تلقین کی فرمایا: ’’آسمان و زمین کی تمام چیزیں فانی ہیں صرف ایک خدا کی ذات کو فنا نہیں۔ میری ماں، میرے باپ اور میرے بھائی سب مجھ سے بہتر تھے اور رسول اللہ ﷺ کی ذات ہر مسلمان کیلئے نمونہ ہے۔ تم اسی نمونے سے صبر و تسلی حاصل کرو میں تمہیں خدا کی قسم دلاتا ہوں۔ اگر میں مرجاؤں تو اسوۂ رسول کے خلاف نہ کرنا۔ میری موت پر گریبان نہ پھاڑنا، منھ نہ نوچنا اور بین نہ کرنا۔‘‘
بہن کو صبر و شکر اور ضبط و تحمل کی تلقین فرما کر خیمے سے باہر آئے۔ حفاظت کے ضروری انتظام مکمل کئے اور صبح صادق تک سب لوگ نماز، دعا، استغفار اور تضرع درازی میں مصروف رہے۔
شہادت گاہ ِعشق:
اور پھر صبح قیامت نمودار ہوئی۔ نماز فجر کے بعد 72 جانثاروں کی مختصر سی فوج میدان میں آگئی۔ دائیں بازو پر زہیرین قیس تھے ار بائیں پر حبیب ابن مطہر، عباس بن علی، کے ہاتھوں میںپرچم حسینؓ تھا۔ ان مٹھی بھر جاں نثاروں کے مقابلے میں چار ہزار شامی تھے۔ حضرت حسینؓ میدان جنگ میں جانے کیلئے رہوار پر سوار ہوئے۔ قرآن سامنے رکھا اور دونوں ہاتھ اٹھاکر کر بارگاہ ایزدی میں دعا مانگی۔ قتل پر آمادہ شامی فوجیوں کو آخری بار راہ حق و صواب اختیار کرنے کی تلقین کی۔ پھر ایک ایک شخص کا نام لے کر پکارا اور کہا ’’کیا تم نے مجھے نہیں لکھا تھا کہ پھل پک چکے ہیں۔ کھجوریں سرسبز ہیں۔ دریا جوش پر ہیں۔ فوجیں تیار ہیں، تم فورا آؤ… ‘‘ ان لوگوں نے صاف انکار کردیا۔ آپ نے فرمایا : ’’خدا کی قسم تمنے لکھا تھا، اگر میرا آنا تمہیں ناگوار ہے تو مجھے چھوڑ دو، میں کسی پر امن خطے کی طرف چلا جاؤں گا۔‘‘ حضرت حسینؓ کی تقریر پر صرف ایک سعید روح ایسی تھی جس کی آنکھوں کے سامنے تاریکی کا پردہ ہٹ گیا اور حق کا جلوہ نظر آنے لگا۔ یہ حر تھے۔وہ کوفی فوج کا ساتھ چھوڑ کر حضرت حسینؓ کے ساتھ آملے۔ اپنی گستاخیوں کی معافی چاہی حضرت امام حسینؓ نے دنیا و آخرت دونوں میں ’’حر‘‘ یعنی آزاد ہونے کی بشارت دی۔
اورپھر لڑائی چھڑ گئی اور اسلام کی تاریخ کا ایک خونچکاں باب مرتب ہوگیا۔ حضرت حسینؓ کے اعزہ، ساتھی اور فرزند ایک ایک کرکے حق پر نچھاور ہوگئے اور سب سے آخر میں حضرت امام حسینؓ نے لڑتے لڑتے جان دیدی۔
سرداد نہ داد دست دردست یزید
حقا کہ بنائے لاالہ است حسینؓ
خلافت سے ملوکیت:
تقرر خلیفہ کے دستورمیں تبدیلی، خلفا کے طرز زندگی میںتبدیلی، بیت المال کی حیثیت میں تبدیلی، آزادیٔ اظہار رائے کا خاتمہ، عدلیہ کی آزادی کا خاتمہ، شوروی حکومت کاخاتمہ، نسلی و قومی عصیبتوں کا ظہور، قانون کی بالاتری کا خاتمہ ہوچکا تھا، اسی لئے حسینؓ اس پر صبر نہ کرسکے اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ جو بدتر سے بد تر نتائج بھی انہیں ایک مضبوط جمی جمائی حکومت کے خلاف اٹھنے میں بھگتنے پڑیں اس کا خطرہ مول لے کر بھی اس انقلاب کو روکنے کی کوشش کرنی چاہئے اس کوشش کا جو انجام ہوا وہ سب کے سامنے ہے مگر امام نے اس عظیم خطرے میں کود کر اور مردانہ وار اسکے نتائج کو انگیز کرکے جو بات ثابت کی وہ یہ تھی کہ اسلامی ریاست کی بنیادی خصوصیات امت مسلمہ کا وہ بیش قیمت سرمایہ ہیں جنہیں بچانے کیلئے ایک مومن اپنا سر بھی دیدے تو ، اور اپنے بال بچوں کو بھی کٹوا بیٹھے تو اس مقصد کے مقابلہ میںکوئی مہنگا سودا نہیں ہے اور ان خصوصیات کے مقابلے میں وہ دوسرے تغیرات جنہیں اوپر نمبر وار گنایا گیا ہے۔ دین اور ملت کیلئے وہ آفت عظمیٰ ہیں جسے روکنے کیلئے ایک مومن کو اگر اپنا سب کچھ قربان کردینا پڑے تو اس میں دریغ نہ کرنا چاہئے۔ کسی کا دل چاہے تو اسے حقارت کے ساتھ ایک سیاسی کام کہہ لے، مگر حسین ابن علیؓ کی نگاہ میں تو یہ سراسر دینی کام تھا اسی لئے انہوں نے اس کام میں جان دینے کو شہادت سمجھ کر جان دی۔

تبصرے بند ہیں۔