ہندوستانی مسلمان سیاسی حاشیہ پر: اسباب اور علاج

ایس۔ ایم۔ انورحسین

 (سابق صدر طلباء یونین اے۔ ایم۔ یو)

ادھر چند دنوں سے میرے کچھ قریبی اور مخلص دوستوں کے مسلسل فون آرہے ہیں، ان سبھوں کی یہی خواہش ہے کہ میں ہندوستان کے مسلمانوں کو موجودہ سیاسی، معاشی، سماجی اور تعلیمی بحران سے باہر نکلنے کے لئے ایک لائحہ عمل تیار کروں۔ ان کا یہ بھی حسن ظن ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی طلبہ یونین کے سابق صدر ہونے کی وجہ سے یہ میری اخلاقی اور کلیدی ذمہ داری ہے کہ میں قوم کی خدمت کا بیڑا اٹھاؤں۔ آپ کے تئیں دوسروں کے اتنے قوی اعتماد اورپر امید جذبات یقیناًخوش آئند اور خود اعتمادی کا باعث ہوتے ہیں اتنے بھروسے، اعتماد اور جوش وخروش کو دیکھ کر کبھی یہ خیال آتا کہ "بے خطر کود پڑے آتش نمرود میں عشق‘‘، کے مصداق مین بھی سیاست کے کھولتے ہوے کڑا ھےُ مین چھلانگ لگا دوں "موجودہ معروف سیاست نہیں، بلکہ قربانیوں، محنت، آزمائش، اور صبر کی سیاست میں۔ لیکن صحت کی خرابی اور معاشی مسائل کے پیش نظر اپنے عزائم اور حوصلوں کو غالب کا یہ مصرعہ سناتے ہوئے سرد رہنے کی تلقین کرتا کہ         "شاعری کوئ کھیل بچوں کا نہیں ہے غالب” لہٰذا میں خاموش تماشائی بنارہا، لیکن یہ خیال بھی مجھے کھاتارہا کہ شتر مرغ کی چال چل کر چیل کے تیر بہ ہدف حملوں سے اپنے آپ کو زیادہ دیر تک محفوظ نہیں رکھاجا سکتا۔  لہذا یہ ہمارا آئنی فریضہ ہے کہ در پیش  مسائل کو سمجھیں، اور اس کے حل کے لئے جو بن پڑے کر گذریں۔ اس میں شک نہیں کہ راستہ پیچیدہ اور خار دار ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ منزل دلکش اور دلنشین ہے۔
انگریزی کے ایک مشہور شاعرروبرٹ فروسٹ نے کہا تھا:

"یقیناًسیاہ اور گھنے جنگل کی دلفریبی ہوش ربا ہے،

لیکن میں نے کچھ وعدے کئے ہیں، جنہیں وفا کرنا زیادہ ضروری ہے۔

اور مجھے آرام لینے سے پہلے میلوں جانا ہے،
اور مجھے آرام لینے سے پہلے میلوں جانا ہے۔ "

حقیقت یہ ہے کہ ہمارے بہت سے مسائل کا حل ان کو برتنے کے طریقہ کار میں پوشیدہ ہے، سرفہرست ہمیں اپنے اہم اور بنیادی مسائل کی نشاندہی کرنی ہوگی، پھر ان کے بارے میں غور وفکر کرنا ہوگا۔ جان ومال کا تحفظ، نوکری اور تجارت کے مواقع، مذہب پر عمل کرنے کی آزادی، زبان اور تہذیب کی آبیاری کی آزادی، اس کے علاوہ دیگر مساوی مواقع سے متعلق حقوق وغیرہ، یہ ہمارے اہم اور بنیادی مسائل ہیں، لیکن ان کے علاوہ سب سے اہم اور بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں پوری طرح سے حاشیہ پر لاکھڑا کردیا گیا ہے، اس وقت ہمیں سماجی، معاشی، تعلیمی اور سیاسی ہر میدان میں حاشیہ پر کردیا گیا ہے،یہ کنارہ کش کرنے کا معاملہ راتوں رات نمودار نہیں ہوا۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی کا کھلا ہوا ایجنڈا ہے کہ یا تو ہندوستان سے مسلمانوں اور اسلام کا مکمل صفایا کردیا جائے،یا انہیں مکمل طور پر مغلوب کردیا جائے۔ یہ حقیقت ہے کہ وہ مسلمانوں کے کھلے ہوئے دشمن ہیں ؛ لیکن اس سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ وہ ہمارے وطن عزیز ہندوستان کے سیکولر کردار اور اس کی روح یعنی جمہوریت کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔
مسلمانوں کو حاشیہ پر لانے کا یہ عمل کوئی ایک دن میں شروع نہیں ہوا، بلکہ اس کا آغاز تحریک آزادی سے ہوچکا تھا۔ کانگریس اس جرم سے اپنادامن جھاڑ نہیں سکتی۔ آزاد اور غیر منقسم ہندوستان کے مجوزہ قانون میں مسلمانوں کے تحفظ کے لئے دی جانے والی قانونی مراعات کویکسر ٹھکرا دیا گیا۔ مختلف قومیتوں کے درمیان مساویانہ نظریہ کو برابری اور سیکولر سیاست کے نام پر قبول نہیں کیا گیا،جس کے نتیجہ میں ہندوستان کی تقسیم کا سیاہ حادثہ پیش آیا۔ بہت آسانی سے تقسیم ہند کی سیاہ کالک مسلمانوں کے سر پوت دی گئی۔ افسوس تو یہ ہے کہ پروپیگنڈا اتنا منظم اور گہرا تھا کہ اس وقت کے لبرل ہندوستانی بھی اس کاشکار بن گئے، اور آزادی کے خوں آشام حادثہ کا قصور وار جناح کواور ان کی آڑ میں مسلمانوں کو قرار دینے لگے۔ جس کالازمی نتیجہ یہ ہواکہ مسلمان احساس جرم کاشکار ہوگئے،اور وہ ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے، جب کہ گاندھی جی، مولانا آزاد، پنڈت نہرو،مولاناحسین احمد مدنی اور ان کی تحریک جمعیۃ العلما ء نے مسلمانوں کو ہجرت سے روکنے میں اہم کردار ادا کیا۔ گاندھی جی اور نہرو نے ان سے ایک محفوظ، جمہوری اور سیاسی طور پر سیکولر ہندوستان کا وعدہ کیا، جہاں انہیں باوقار اور مساوی شہری حقوق فراہم کئے جائیں گے، لیکن تقسیم ہند کے احساس پشیمانی نے انہیں بتدریج حاشیہ پر لاکھڑا کردیا، اور جلد ہی مسلمان معاشی، سماجی اور سیاسی اعتبار سے پچھڑنے لگے۔

تاریخ کے منصفانہ اور دقیق مطالعہ سے یہ بات منکشف ہوتی ہے کہ تقسیم ہند کے واحد ذمہ دار جناح نہیں تھے، حقیقت یہ ہے کہ جناح تہہ دل سے ایک سیکولر اور ہندومسلم اتحاد کے علم بردار تھے، لیکن کانگریس میں ہندو مہا سبھا کے زیر اثر پروان چڑھنے والے متشدد رویہ نے انہیں دور کردیا۔

اگر ہم مرحوم سید شہاب الدین کی کتاب’’ مسلم انڈیا‘‘ میں دیئے گئے اعداد وشمار کودیکھیں تو اس میں مسلمانوں کی بڑی تعداد تقسیم ہند کے بعد تک محکمہ دفاع، پولیس، ریلوے اور دیگر محکموں میں غیر معمولی طور پر نظر آتی ہے، لیکن یہ تعداد بہت تیزی سے کم ہونے لگی، اور آج تو انتہائی معمولی حد تک پہنچ گئی ہے۔ آخر یہ سب ہوا کیسے؟ اس کاجواب تو صرف کانگریس ہی دے سکتی ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمیں حاشیہ پر کردیا گیا ہے، سوال یہ ہے کہ اب اس صورت حال سے نکلنے کا راستہ کیاہے؟ سب سے پہلے تو ہمیں اپنے احساس خوف سے باہر آنا ہوگا، اور دوسروں کی طرف نظر سوال دراز کرنے سے باز آنا ہوگا۔ ہمیں یقینی طور پر عزم مصمم کرنا ہوگا کہ ہم خود ہندوستان ہیں، اور ہمارے وجود سے مل کرہی ہندوستان مکمل ہوگا۔ کرہ زمین پر اس وقت کوئی طاقت وجود میں نہیں آئی ہے جو ہمیں ہندوستان سے بے دخل کرسکے۔ دوسرا کام یہ کرنا ہے کہ ہمیں اپنے ملک کے سماجی تانے بانے پر نظر ثانی کرنی ہوگی، مسلمانوں نے ہندوستان میں تقریبا آٹھ سو برس حکومت کی، لیکن اس طویل مدت میں انہوں نے کبھی برادران وطن کے مذہبی، تہذیبی اور سماجی معاملات سے چھیڑ چھاڑ نہیں کی، اگرچہ انہوں نے کبھی دلتوں پر ہونے والے مظالم، منصوبہ بند سماجی بدسلوکی کو روا نہیں رکھا، لیکن افسوس یہ ہے کہ وہ ایسا قانون نہیں بناسکے جو دلتوں کی عزت ووقار اور حق برابری کوتحفظ دے سکے، درحقیقت وہ اس اصول پر سختی سے عمل پیرا رہے کہ ہندؤوں کے عائلی اور داخلی مسائل سے ہم کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کریں گے، ستم بالائے ستم یہ کہ غیر مسلم،دبے کچلے طبقے کوایک مظلوم طبقہ تصور کرنے کے بجائے سب کو ہندو تصور کرلیاگیا۔ ان مسلم حکمرانوں نے بڑی ذات کے ہندؤوں کو اعلی حکومتی عہدوں پر فائز کیا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلم امراء وشرفاء اور عام مسلمانوں کے ساتھ ان بڑی ذات کے ہندؤوں سے اچھے مراسم استوار ہوئے، اور دبے کچلے، نظر انداز کئے ہوئے ہندو طبقے سے اجنبیت بڑھتی چلی گئی۔ آدی واسیوں اور قبائلی لوگوں کے بارے میں کیا کہا جائے! حقیقت یہ ہے کہ ہم نے انہیں مکمل طور سے سماج سے کنارہ کش کردیا۔ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آر ایس ایس ملک کے مختلف علاقوں کے قبائلی لوگوں میں اپنی جڑیں مضبوط کرنے میں کامیاب ہوئی، جس کے بھیانک نتائج گجرات اور حال میں جمشید پور کے ہلدی پوکھر کے حادثات کی شکل میں ہمارے سامنے آئے۔

ہمیں اپنے طریقہ کار میں تبدیلی لانی ہوگی، اس وقت ہمیں حاشیہ پرلاکر خطرناک حالات سے دوچار کردیا گیا ہے،اس کے علاوہ دیگر بڑے مسائل ہمارے سامنے ہیں، جیسے ماب لنچنگ یعنی اجتماعی قتل، جس کا نوٹس لینے والا کوئی نہیں ہے۔ لاکھوں شہری اس خوف وہراس میں سانس لے رہے ہیں کہ مسلمان ہونے کی وجہ سے نہ جانے کب وہ حق رائے دہی سے محروم کردئے جائیں، اور کب ان کی شہریت چھین لی جائے، باوجوداس کے کہ جسٹس گوگوئی نے آسام گورنمنٹ اور وزارت داخلہ کی اس پالیسی کے خلاف سخت قانون تنقیدکیا ہے۔ مسلمانوں کے پرسنل لا کو ختم کئے جانے کے سلسلے میں ہونے والے حملوں میں غیر معمولی اضافہ ہوتا جارہا ہے، جس میں مقننہ، عدلیہ اور بعض سیکولر کہے جانے والے افراد بھی شامل ہیں۔ ( جناب گوھا صاحب نے مسلم عورتوں کے نقاب اوڑھنے اور مسلم مردوں کے ٹوپی پہننے پر اپنے درد شکم کا اظہار کیا ہے)۔

خطرے کی یہ گھنٹیاں ہمیں احساس دلاتی ہیں کہ ہم اپنے سماجی تعلقات پر نظر ثانی کرکے اس کی اصلاح کریں، نئے دوستوں کوتلاش کریں، اپنوں اور غیروں میں سے آستین کے سانپ کوپہچانیں، وقت آچکا ہے کہ ہم اپنے بزرگوں کی طرف سے مسلسل کی جانے والی غلطی کی بھرپائی کرتے ہوئے سماج کے مظلوم طبقے جنہیں ہم نے صدیوں سے نظر اندازکیا ہے، یعنی دلتوں اور آدی واسیوں کے ساتھ پیار اور محبت بانٹیں، اور انہیں مکمل سماجی وقار اور احترام عطا کریں۔ ہمیں مذکورہ طبقوں کو سماجی تقریبات میں مدعو کرنا چاہئے، اپنے ترقیاتی کاموں میں انہیں شریک کرناچائیے، اسی طرح انہیں تعلیمی اداروں میں مواقع دئیے جانے چاہئے۔ ان تشجیعی منصوبوں پر عمل کرکے ہم بہتر نتائج تک پہنچ سکتے ہیں۔ ایک زمانہ تک ہم اپنے پڑوسیوں کے تعلق سے اپنے نبی ﷺ کی تعلیمات سے چشم پوشی کرتے رہے، وقت آچکا ہے کہ اپنی ذمہ داریاں پوری کی جائیں، آئیے حق مانگنے سے پہلے حق ادا کرتے ہیں۔
میرے کہنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم اعلی طبقہ کے ہندو بھائیوں سے اپنا رشتہ توڑلیں، اگر ہم اپنے آس پاس کا ماحول دیکھیں تو تاریخ کے اس سیاہ دور میں موجودہ فسطائی طاقت کے خلاف تن من دھن کی بازی لگاکر اگر کوئی جنگ چھیڑے ہوئے ہے تو یہی بڑی ذات کے ہندو برادران ہیں، روزانہ یہ حضرات موجودہ حکومت کی کارستانیوں سے پردہ اٹھاتے ہیں، یہ حضرات اپنی جان کو داؤ پر لگاکر ہماری حفاظت کا سامان کررہے ہیں، ہمارے لئے اظہار رائے کی آزادی، جمہوریت اور سیکولر سیاست کی لڑائی لڑرہے ہیں، اسی طرح ہمارے مذہب اور کلچر پر عمل کی آزادی اور گنگا جمنی تہذیب کو تحفظ فراہم کرنے کی انتھک کوشش کررہے ہیں۔ جمہوریت کے ایسے محافظین کی فہرست طویل ہے، لیکن یہاں چند لوگوں کے نام پر اکتفا کیا جاتا ہے: رویش کمار (این ڈی ٹی وی)، پروفیسر اپوروانند (دہلی یونیورسٹی)، ہرش مندر (ہیومن رائٹ کارکن)، راجدیپ سردیسائی (عالمی شہرت یافتہ صحافی)، ونود دوا (دی وائر)، ڈاکٹر منی شنکرایر(سابق سیکولرسٹ کانگریسی، تمل ناڈ)، غریبوں اور مسکینوں کی لیڈر، مشرقی بنگال کی چیف منسٹر ممتا بنر جی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ہم ان عظیم ہستیوں کوکیسے فراموش کرسکتے ہیں ؟سچ تو یہ ہے کہ یہ لوگ ہمارے ہیرو ہیں۔ یہ حضرات سچ مچ آگ سے لڑنےکا کام کررہے ہیں، جبکہ ملک کے وزیراعظم ہر اس چیز کو جلاکرخاکستر کردینا چاہتے ہیں جس کا تعلق اسلام یا مسلمان سے ہے، یا جس کا تعلق سیکولر جمہوریت، انسانیت یا انسان دوستی سے ہے۔

ایک بات ہمیں اپنے ذہنوں میں صاف کرلینی چاہئے کہ ہندو اکثریت( بڑی ذات والے) فرقہ پرست نہیں، بلکہ سیکولر ہیں، البتہ ان کے ذہنوں میں تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کرکے زہر گھولنے کی ناپاک کوشش برابر کی جارہی ہے، جس کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ اور کبھی تو یہ حرکت کانگریس نے چور دروازے سے کی، جب کہیں اور جہاں کہیں وہ اقتدار میں رہی۔ کانگریس کا دامن ایسے لوگوں سے پاک نہیں ہے جنہوں نے اپنی دھوتیوں اور پتلونوں کے نیچے آر، ایس، ایس کی چڈی پہن کربڑی بڑی تنظیموں اور حکومت کے اعلی عہدوں پرقبضہ جمائے رکھا۔ کیا کوئی شخص تصور کرسکتاہے کہ بابری مسجد کی شہادت اور بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر جیسے حادثات دونوں پارٹیوں کی خفیہ سازشوں کے بغیر انجام دیئے جاسکتے ہیں ؟ایک پارٹی روزروشن کی طرح عیاں ہے جبکہ دوسری مخفی ہے۔ یہ ایک عجیب مضحکہ خیز کھلاہواراز ہے کہ جب بابری مسجد شہید کی جارہی تھی تواس وقت کے وزیر اعظم آرام فرمارہے تھے اور وزیر داخلہ پوجا میں مصروف تھے۔ مرکز میں کانگریس اقتدار میں تھی جبکہ یو پی میں بی جے پی۔ دونوں نے سپریم کورٹ کو یہ یقین دلایا تھا کہ بابری مسجد کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر ڈرامے کے بعد اس وقت کے وزیر داخلہ نے بڑے فخر کے ساتھ یہ بیان دیا تھا کہ وہ پولیس آپریشن روم میں بذات خود موجود تھے اور اس پورے معاملے کی نگرانی وہ خود کر رہے تھے۔ کیا ہماری منہ بولی سیکولر پارٹیاں، جیسے: کانگریس، آر۔ جے۔ ڈی، جے۔ ڈی۔ یو،بی۔ ایس۔ پی اور ایل جے۔ پی، حقیقی مسلم قیادت کو ختم کرنے کی ذمہ دار نہیں ہیں ؟ ایسے مسلم لیڈران جن کی جڑیں قوم میں مضبوط تھیں، جو قوم کے مسائل کو سمجھتے تھے، انہیں اٹھاتے تھے،ان پر پارٹی کا عتاب نازل ہوناشروع ہوا، ان کی زمین تنگ کی گئی، اور بلآخر انہیں یا تو خاموش کردیا گیایا برطرف کردیاگیا۔ (سماج وادی پارٹی کا نام قصدا نہیں لیا گیا،کیوں کہ اس میں اعظم خاں ابھی تک ایک مضبوط لیڈر کی حیثیت سے طویل عرصے سے موجود ہیں )۔ محترمہ مایاوتی ایک زمانے سے خود کودلتوں کے ایک طبقے کا نمائندہ مانتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے دل میں بھی سیکولرازم کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔

اس وقت بہار میں کوئی فعال مسلم سیاسی کارکن اس وقت تک ایم۔ ایل۔ اے، ایم۔ ایل۔ سی یا راجیہ سبھا کا ممبر نہیں بن سکتا جب تک کہ وہ مندرجہ ذیل شرائط کو پورا نہ کرتا ہو: نمبرایک، اسے قوم کے مسائل پر زبان کھولنے کا کوئی اختیار نہیں ہوگا، کیوں کہ پارٹی کے صدر کے بارے میں یہ تصور کیا جاتاہے کے  وہ  خود ہی  آپکی  قوم کا ترجمان ہے،آخر وہ کیسے کسی کو اپنے اختیارات کی حق تلقی کا حق دے سکتاہے۔ نمبردو، آپ کو پارٹی کے صدرکے لق ودق بنگلے میں بہ رضاورغبت چپراسی، مالی،خادم، دھوبی وغیرہ کی خدمات فراہم کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ نمبرتین، آپ اس لائق ہوں کہ پارٹی کے خزانے میں کروڑوں کا چندہ پیش کرسکتے ہوں۔ نمبرچار، صرف پارٹی کے صدر کو ’’کرسی‘‘ پر بیٹھنے کا شرف حاصل ہوگا، آپ کو اپنی جگہ کہیں فرش پر تلاش کرنی پڑے گی۔ (حقیقی لیڈر ہمیشہ اپنے اراکین کو عزت ووقار کے لئے جان کی بازی لگانے کا سبق دیتاہے)۔ جے۔ ڈی۔ یو، خود کو سیکولر پارٹی کہتی ہے لیکن سچ یہ ہے کہ وہ روز اول سے ہی بی۔ جے۔ پی کا راگ الاپ رہی ہے۔ (البتہ ذراسی مدت کے لئے)۔ مسٹر نتیش کمار یقیناًایک ذہین سیاست داں ہیں، سچ تو یہ ہے کہ نہ تو وہ سیکولر ہیں اور ناہی واضح فرقہ پرست، البتہ وہ’’ کرسی پرست‘‘ ضرور ہیں۔ انہیں بہار کی سیاست کا پھدکتاہوامینڈک کہنازیادہ موزوں ہوگا۔ ایک پارٹی سے دوسری پارٹی میں پھدکنے کا سلیقہ کوئی ان سے سیکھے۔ بہار کے دوسرے عظیم سیکولرسیاست داں مسٹر رام ولاس پاسوان ہیں، وہ اپنا سیاسی اثرورسوخ کے لئے بہار کے مسلمانوں اور دلتوں کے مرہون منت ہیں، لیکن کڑوا سچ یہ ہے کہ ان کا شمار معتبر سیاست دانوں میں نہیں کیا جاسکتا۔ ھندوستانی سیاست میں ان کی مثال موسمی مرغ سے دی جاسکتی ہے، جب وقت آن پڑتاہے تو وہ سب کو بھول جاتے ہیں، کیادلت کیا مسلمان۔ ہندی کا یہ محاورہ ان کی سچی ترجمانی کرتاہے: چلوتم ادھر کو، ہوا ہوجدھرکی۔ اگرچہ مسٹر لالو یادو اس وقت بی۔ جے۔ پی اور آر۔ ایس۔ ایس کی دیرینہ سازشوں کا شکار ہوچکے ہیں، اس بارے میں کوئی اظہار خیال کرنا مناسب نہیں ہوگا، بس ایک اندیشہ ظاہر کرتا چلوں کہ مسلمانوں سے بے لوث وفاداری کی توقع اور ترقی کے مواقع صرف یادوؤں کے لئے؟ یہ پالیسی زیادہ دنوں تک چلنے والی نہیں ہے۔
اس بے کسی اور کسمپرسی کے حالات میں ہمیں الیکشن کا سامنا کرنا ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخرہم کسے ووٹ دیں ؟، ہمارے سامنے کوئی مناسب متبادل نہیں ہے، جوبھی متبادل ہے اس کا کردار منفی ھےُ۔ تاہم ہم بہت جوش وخروش کے ساتھ ان خود ساختہ سیکولر پارٹیوں کے گٹھ بندھن کو بغیر کسی پیش گی وعدہ حاصل کئے ہوئے کہ وہ ماضی کی کوتاہیوں کو نہ دہرائیں گی، ووٹ دے دیں۔ اسی کومین مسلمانون کیے سیاسی حاشیہ پر پہنچنے سے تعبیر کرتا ہوں۔

اس بھنور سے نکلنے کے لئے ہمیں ایسے سماجی طبقوں کی نشاندہی کرنی ہوگی، جو بی جے پی یا آر ایس ایس کو اپنادشمن تصور کرتی ہوں، ہمیں ان کے ساتھ دیر پا تعلقات استوار کرنے چاہئیں۔ اس کے علاوہ ہمیں اس طبقہ کے ساتھ کھل کر بحث کرنی چاہئے، جو متشدد فرقہ پرست نہیں ہیں لیکن وہ مسلمانوں کے خلاف بی جے پی یاآر ایس ایس کے غلط پروپیگنڈے کاشکار ہوگئے ہیں، اور ہندوستان کی ترقی اور معاشی بہتری کے جھوٹے وعدوں کی وجہ سے ان کے ہم خیال بن گئے ہیں۔ انہیں ہندوستان کے سیکولر سماجی مرکزی دھارے میں لانا ہوگا۔

یہ بات ذہنوں میں واضح رہے کہ ہم دلتوں اور سماج کے دیگر دبے کچلے طبقوں کی طرف اس لئے دوستی کا ہاتھ نہیں بڑھا رہے ہیں کہ وہ فسادات میں ہمارے دست وبازو بن جائیں گے، بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ وہ زمانہ کے ستائے ہوئے مظلوم ولاچار ہیں۔ ہمارا دینی اور اسلامی فریضہ ہے کہ ہم انہیں ہر مصیبت اور مظلومیت سے بچانے کے لئے تیار ہوجائیں۔

موجودہ سیاسی وسماجی بحران سے نکلنے کے لئے ہمیں قریب المدتی اور طویل المدتی منصوبے بنانے ہوں گے، جس کا پہلا ہدف یہ ہونا چاہئے کہ ہمیں ۲۰۱۹ء کے آنے والے عمومی انتخابات میں فسطائی طاقتوں یعنی مودی اینڈ کمپنی کو شکست دینی ہے، اور ہمارا دوسرا ہدف یہ ہونا چاہئے کہ ہم اپنی خود ساختہ دوست سیاسی پارٹیوں سے اپنا سیاسی حق حاصل کریں۔

ہمیں اس کا یقین ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کا مستقبل روشن اور تابناک ہے، اسلاموفوبیا ایک گڑھی ہوئی کہانی ہے، جومحض چند معصوم ذہنوں کو پلید کررہی ہے،لیکن اس کے ذریعہ ہمارے غیرمسلم بھائیوں کے لئے راستہ ہموار ہورہا ہے کہ وہ اسلام کو دیکھیں، سنیں، سمجھیں اور غور وفکر کریں۔

مودی اور اس کے ہمنواؤں کو خاطر میں لانے کی کوئی ضرورت نہیں، انگریزی کا عظیم شاعر شیلی کہتا ہے: ’’اگر موسم سرما آگیا ہے تو اس میں پریشان ہونے کی کیا بات ہے؟ موسم بہار بھی تو اس کے بعد آیا چاہتا ہے؟‘‘ بس یہی مثال اس وقت ہمارے ملک ہندوستان کی ہے، اگر ایک راون پید اہوتا ہے تو اس کا قلع قمع کرنے جلد ہی رام بھی وجود پذیر ہوجاتے ہیں۔ رامائین کے عظیم کردار رام جی ہمارے لئے بھی عظیم ہیرو کی حیثیت رکھتے ہیں، ان کا کردار بدی کے خلاف نیکی کی علامت ہے۔ خوف وہراس کو اتار پھنکئے، کمر بستہ ہوجایئے، اس رام کا استقبال کیجئے، اس کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہوکر اپنے دور کے سارے نمرودوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئیے۔ ہمیں پر امید رہناچاہئے، عزم وحوصلہ رکھنا چاہئے، اورانسانیت نواز ہندوستان کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے انسانی سمندر سے بھی اچھی توقع رکھنی چاہئے۔

نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے 
ذرا نم ہوتو یہ مٹی بڑی زر خیز ہے ساقی

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔