ہندوستانی معاشرے کی اخلاقی صورتحال

بشریٰ ناہید

ترقی گویا کامیابی کی سند ہے۔ وہ فرد کی ہو یا شہر کی یا ملک کی، یہ پتہ دیتی ہے فرد، شہر یا ملک ترقی کررہا ہے یعنی کامیابی کی طرف گامزن ہے۔ بھارت نے بھی ترقی کے کئی منازل طئے کیے ہیں۔ پھر وہ علوم و فنون کی ترقی ہویا سائنس و ٹکنالوجی کی تقریباً سبھی میدانو ں میں دوسرے ممالک کے ساتھ مسابقت میں شریک ہے۔ اور اسی کے ساتھ یہاں کی عوام کی ترقی کے نام پر مختلف ممالک کی ایجادات و تہذیب و تمدن کو اپنانا بھی باعث فخر سمجھنے لگی ہے۔

انسانی تخلیقات و مصنوعات کو لیجیے جس کی کوئی حدود نہیں۔ ان کا کوئی منتظم نہیں اور ہر موجد صرف اپنی ایجاد کے فوائد پر نظر رکھتے ہوئے اس سے پیدا ہونے والے خطرات سے قطع نظر ایجاد کے تیار ہوجانے کو اپنی کامیابی اور اس کے فروغ کو اپنی فتح مندی سمجھتا ہے۔ یہ جو بیسویں صدی کے اواخر اور اکیسویں صدی کے اوائل کی ترقی ہے، اس چاند کی مانند ہے جو بادلوں سے ڈھکے آسمان میں نکلتا ہے اور اس کی چاندنی کے اچانک گم ہونے کا خدشہ لگاہی رہتا ہے یہ ترقی کی چکاچوند بھی اپنے ساتھ تنزل کی مختلف شکلیں لے آئی ہیں۔ اور بالعموم آبادی کا ایک بڑا حصہ جو مرد و خواتین پر اور بچوں پر مشتمل ہے، اس کا شکار ہوا۔ خاص طور پر خواتین کی صورت حال تشویشناک ہے اور اس کے پیچھے بہت وسیع ذرائع ہیں جو اس اخلاقی بگار کو فروغ دینے میں اہم رول ادا کررہے ہیں۔ مثلا فحش لٹریچر، اخبارات و میگزینز میں گندی تصویروں کا ہونا، حیا باختہ ویب سائٹز، T.V.، انٹرنیٹ، موبائل فونز کا غلط استعمال، زنا بالجبر، زنا بالرضاء، ناجائز تعلقات، تفریح کے نام پر ڈانس بار و لیڈیز بار، نوجوان لڑکیوں میں چست اور کم سے کم لباس پہننے کے فیشن کا عام ہونا، لڑکیوں کا اغواء اور ان کی عصمتوں کا غیر محفوظ ہونا، کنواری مائیں، جہیز و بنڈے کے لیے بوڑھی ہوتی نوجوان لڑکیاں، ابارشن، نومولود بچوں کا کوڑے دان میں پایا جانا وغیرہ اور اس طرح کی کئی اخلاق کو جھنجھوڑنے والی باتیں معمول کی سمجھی جانے لگی ہیں۔ قتل ہویا خود کشی، ان وارداتوں میں اضافہ ہی ہورہا ہے۔ عام طور پریہ رجحان پایا جاتا ہے کہ اس طرح کی اخلاقی پستی صرف نچلی ذات، پسماندہ طبقات اور ناخواندہ لوگوں میں ہی زیادہ ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پونہ، ڈومبیولی، امراوتی وغیرہ جیسے شہروں میں آباد تعلیم یافتہ طبقات مں مردو خواتین کا تناسب 743/1000،  847/1000  اتنا کم ہے، اور یہ عدم توازن دختر کشی کے باعث ہے۔

ملک میں عصمت دری کے واقعات 1991ء میں 10425ہوئے۔ ان میں 16سے30سال کی لڑکیاں 51.7فیصد تھیں۔ صرف ایک ریاست اترپردیش میں ایک سال میں 900بچوں پر ریپ ہوا جبکہ ملک بھر میں 5446 بچوں پر ریپ کے واقعات درج کیے گئے۔ ملک میں اوسط 18ہزار عصمت دری کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ صرف ممبئی شہر میں خواتین پر ہوے والے تشدد مثلاً چھیڑخانی، عصمت دری، جہیز کی بنا پر ہونے والی اموات کا تناسب شرمناک ہے۔ زیادہ تر واقعات تو بدنامی کے خوف سے درج ہی نہیں کیے جاتے ہیں۔

خواتین کا دوہری ذمہ داری و گھریلو تنازعات کے باعث مختلف قسم کے نفسیاتی امراض کا شکار ہونا یا خودکشی، غرض یہ کہ بھارت جیسے مہذب ملک میں اخلاقیات کی یہ تصویر انتہائی اسوسناک ہے۔

اصل وجوہات:

مذہبی گرنتوں میں عورت کے حقوق کا غیر متوازن ہونا کہیں اس قدر اونچا مقام دینا کہ دیوی بناکر پوجنا اور کہیں اس قدر گرادینا کہ زندگی کے ہر معاملے سے بے دخل کردیا جانا۔ ویدک مذہب کا ماننا ہے کہ نجات کا ذریعہ صرف بیٹا ہے۔

٭       جو شخص نجات چاہتا ہوتووہ اپنی بہن سے زناکارانہ حرکات کریں۔

٭       مردوں کے لیے ایک سے زائد شادی کو ممنوع قرار دیا جانا۔

٭       بیواؤں کے دوبارہ نکاح کو حرام قرار دیا جانا۔

٭       ہر شعبہ زندگی میں عورتوں و مردوں کا آزادانہ اختلاط۔

٭       Live in Relationship  اور ہم جنسیت جیسی بلا کو قانون کا تحفظ فراہم ہونا

٭       دولت کی ہوس اور اعلیٰ معیارانہ زندگی کی خواہش کا حد سے بڑھ جانا وغیرہ۔

اگر ہم ان مسائل کے حل کے لیے مذہبی کتابوں کا بغور مطالعہ کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ قرآن مجید اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کی تعلیمات میں ایسی ہدایتیں ہیں جو ان مسائل کو شروع ہونے سے پہلے ہی ختم کردیتی ہیں۔ محمدؐ  فرماتے ہیں کہ’’جو شخص دو بیٹیوں یادو بہنوں کی بہترین پرورش کرتا ہو، اسے جنت کی ضمانت ہے۔‘‘اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’اس روز زندہ گاڑی ہوئی بچی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس جرم میں ماری گئی تھی۔‘‘  (التکویر : آیت 9, 8) سورہ بنی اسرائیل میں ہے ’’زنا کے قریب بھی نہ پھٹکو۔‘‘اور جو زنا کا ارتکاب کرتا ہے اس کے لیے رجم کی حد لگاتا ہے۔ کھلی چھپی فحش باتوں سے دور رہنے کی تاکید کرتا ہے۔ (قرآن)

عورت کو پردہ میں رہنے کا حکم دیا ہے۔ مسلم خواتین ہر شعبہ میں کام کرسکتی ہیں۔ اس کے لیے مقرر کردہ حدود میں رہتے ہوئے اور ضرورت پڑنے پر مردوں سے بات کرسکتی ہیں۔ اس کے لیے چہرے کا کھلا رہنا ضروری نہیں اور یہ بات سوچنے کی ہے کہ اگر عورت کو قید کرنا ہوتا تو پردے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔دراصل معاشرے کی اور خود عورت کی بھلائی اس میں ہے کہ وہ اپنی حدود کو پارنہ کریں۔

مرد کو ایک سے زائد شادی کی اجازت اس شرط کے ساتھ دی ہے کہ اسے بیویوں کے معاملے میں انصاف کرنا ہوگا۔ اسلام نے ایک سے زائد شادی کی اجازت دے کر ناجائز تعلقات کے دروازے کوبند کردیا ہے۔ جو شخص صاحب استطاعت ہوگا وہ جائز طریقے سے دوسری اور تیسری شادی کرے گا۔ اس طرح سماج میں موجود بیوہ، طلاق یافتہ اور بے سہارا عورتوں کو تحفظ ملے گا اور ان کے مسائل حل ہوں گے۔

مذہب اسلام نے عورت کو صرف باعزت مقام ہی نہیں دیا ہے، بلکہ اس کے حقوق کا تحفظ بھی کیا ہے۔ بیواؤں کو دوسری شادی کی اجازت دے کر حرام کاری سے بچایا ہے۔ خلع کا حق دے کر زبردستی کے بندھن سے آزاد ہونے کا راستہ کھلا رکھا ہے۔ بعض اوقات زبردستی اس کے بندھن سے چھٹکارا پانے کے لیے شوہر بیوی کا قتل کردیتا ہے یا اسے اتنا ستایا جاتا ہے کہ مجبوراً وہ خودکشی کرلیتی ہے۔

جب قرآن کریم نازل ہوا وہ دور آج کے معاشرے سے کئی زیادہ جاہل اور خرافات میں مبتلا تھا۔ بے حیائی کا یہ عالم تھا کہ برہنہ ہوکر کعبہ کا طواف کیا جاتا تھا۔ قبیلوں میں معمولی باتوں پر سالہا سال لڑائیاں چلتی تھی۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی تعلیمات کو لوگوں تک پہنچایا تو اس اُجڈ معاشرے میں ایسا انقلاب آیا کہ وہ قوم نہ صرف دنیا کی مہذب قوم بن گئی بلکہ حکمراں و رہنما بن گئی۔ آج اگر اس کی تعلیمات کو ہم سمجھے، غور کریں اور اس پر عمل کرکے دیکھیں تو بعید نہیں کہ ہم موجودہ دور کی خرابیوں کودور کرنے میں کامیاب ہوسکیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


2 تبصرے
  1. آصف علی کہتے ہیں

    وطن عزیزکاتعلیمی نظام، ٹی وی پر بڑھتی عریانیت، پورنوگرافی کا بڑھتا رجحان، نیم برہنہ دوشیزائیں، مشرقی تہذیب و ثقافت کا اٹھتا جنازہ، قانون کے نفاذ میں لاپرواہی اور رسوخ دار لوگوں کی دلالی یہ وہ وجوہات ہیں جن سے جرائم اور عصمت دری کے واقعات لگاتار بڑھتے جا رہے ہیں.

  2. سید شایستہ پروین کہتے ہیں

    مخلوط تعلیمی نظام بے پردگی دینی علوم کا نصاب میں شامل نہ ھونا ملک میں مذہبی تعصبات کی وجہ سے ایسے جرائم پیدا ہورہے ہیں

تبصرے بند ہیں۔