ہندوستان: حال اور مستقبل

پروفیسر منوج جھا

 کل بروز ہفتہ مرکز جماعت اسلامی ہند میں ایک عوامی پروگرام [ہندوستان: حال اور مستقبل] کے عنوان سے منعقد ہوا، جس کے مقرر پروفیسر منوج جھا تھے۔  پروفیسر منوج جھا، دہلی اسکول کے سوشل ویلفیر ڈپارٹمنٹ کے ہیڈ آف دی ڈپارٹمنٹ ہیں ۔ اور راشٹریہ جنتا دل کے اسپوکس پرسن(Spokes Person) ہیں ۔موصوف ہندوستان میں ہونے والے ظلم و ستم کے خلاف آواز اٹھانے والوں کی صف اول میں شامل ہیں ۔وہ ایک بہترین قلم کار بھی ہیں اور اخبارات و رسائل میں موصوف کے بے باک مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں ۔

تقریر کی ابتدا میں کہا کہ میں آپ لوگوں کے بیچ ہوں معافی نامے کے ساتھ بھی اور شکایت کے ساتھ بھی۔ معافی یہ کہ ہم فیل ہو گئے اور شکایت یہ کہ اس ناکامی میں آپ ہمارے ساتھ شریک گناہ ہیں ۔ انھوں نے کہا کہ مجھے آپ لوگوں کے درمیان بہت پہلے ہوناچاہیے تھا، لیکن اتنی ہمت نہیں تھی کہ اتر پردیش کے نتائج کے بعد میں آپ لوگوں کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار کرتا۔ یقینا میں بہت مایوس ہوں ، لیکن میری مایوسی کی وجہ بھاجپا اور سنگھ نہیں ہیں ۔ میری مایوسی کی وجہ میرے ہم سخن، ہم سفر اور ہم سایہ ہیں ۔ مخالف سے مایوسی کس بات کی؟ مایوسی کی وجہ تو دوست ہیں ۔

 موصوف کہا کہ آج سیکولرزم کی لڑائی کو صرف مسلمانوں تک محدود کر دیا گیا ہے، جبکہ ہندوستان کے لوگوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ سیلورزم مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے،تین چوتھائی ہندوؤں کا مسئلہ ہے۔ہم سب کو یہ سمجھنا ہوگا کہ خطرہ کتنا بڑا ہے۔ یہ صرف پانچ سال کا مسئلہ نہیں ہے۔ چنائو اتر پردیش میں ہار گئے، ہو سکتا ہے کل جیت جائیں ۔ ہمیں الیکشن جیتنے کی خوشی نہیں منانی چاہیے اور نہ ہارنے کا غم ۔ کوشش کیجیے کی آپ آئڈیاز کی لڑائی جیت سکیں ۔  محبت سے محبت کیجیے اور نفرت سے نفرت کیجیے۔  محبت سے نفرت نہ کیجیے اور  نہ نفرت سے محبت کیجیے۔

 پروفیسر نے کہا کہ ہم حالات کو بہت سنجیدگی سے نہیں لے رہے ہیں ۔ ہم سمجھ رہے ہیں کہ ہندوستان جیسا تھا ویسا ہی بنا رہے گا۔ ہمیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم چنائو ہار گئے کوئی بات نہیں ، کل پھر جیت جائیں گے۔ لیکن حوصلہ برقرار رکھنا بہت ضروری ہے۔

 انھوں نے کہا کہ میں ای وی ایم کی تھیوری کے بجائے اس بات کو مانتا ہوں کہ زمین کے اندر کچھ تو ہو رہا تھا، جس کو ہم سب کو کچھ نہیں پتا تھا۔  بول بم کے ساتھ راشٹریہ جھنڈا چلتا رہا، دلتوں کی بستیوں میں جا کر لوگ پائوں دھوتے رہے، ان کو بہتر ہندو بتاتے رہے اور ہم ان بستیوں سے دور رہے۔ اب ہمارے لڑائی اور بڑی ہونے والی ہے۔ کیوں کہ پہلے لوگ میڈیا سے امید رکھتے تھے۔،لیکن اب میڈیا سے خیر کی امید نہیں کی جا سکتی۔ اب ہمیں صرف فاشزم ے نہیں لڑنا ہے، بلکہ میڈیا سے بھی لڑنا ہے۔

 پروگرام کے آخر میں انھوں نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ آج ہم آئینہ دیکھنا بھول گئے ہیں اور آئینہ دکھلانے میں لگ گئے ہیں ۔ ہمیں بھی آئینہ دیکھنا چاہیے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ؟ ہم سے کیا چوک ہوئی؟ ہم سے لوگ کیوں چھوٹ رہے ہیں ؟

 (رپورٹنگ: محمد اسعد فلاحی)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔