ہندوستان میں بین المذاہب مفاہمت پیدا کرنے میں علماء کا کردار ( پہلی قسط)

ڈاکٹر مفتی محمد مشتاق تجاروی

                ہندوستان اپنے مزاج کے اعتبار سے ایک مذہبی ملک ہے چونکہ ہندستان میں قدیم زمانے سے ہی مختلف مذاہب رہے ہیں اس لیے مذہبی رواداری ہندستان کے خمیر میں داخل ہے۔ یہاں غالب اکثریت کے درمیان بھی اقلیتی مذاہب اپنا امتیاز اور تشخص باقی  رکھ سکتے ہیں اور کم از کم تین ہزار سال کی تاریخ میں ہمیں اس کے پورے شواہد ملتے ہیں۔ مثلاً یہاں بدھ مت کے غلبہ کے دنوں میں بھی جین مت اور ہندو مت اور ان کے علاوہ بے شمار قبائلی مذاہب موجود رہے۔ اسلام کے آنے کے بعد حکمران مذہب یعنی اسلام نے ہندو مت اور جین مت کی پوری سرپرستی کی ان کو مراعات دیں۔ ان کے مندروں اور مٹھوں کو جاگیریں دیں۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ہندستان میں روایتی ور پر مزاج اور خمیر کے اعتبار سے مختلف مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کی فضا پائی جاتی ہے اور مختلف مذاہب کے ماننے والے اپنے مذہبی امتیاز کے ساتھ سماجی سطح پر گھل مل کر رہتے ہیں۔

                ہندوستان میں مسلمانوں کے دورِ حکمرانی میں دو طرح کے تعلیمی نظام قائم تھے ایک مٹھوں اور پاٹھ شالاؤں کا نظام جس میں سنسکرت زبان اور ہندو مت مذہب کی تعلیم دی جاتی تھی اور دوسرا مدرسوں کا نظام جس میں مسلمانوں کی مذہبی تعلیم کے ساتھ اس وقت کی سیکولر اور سرکاری تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ مؤخر الذکر یعنی مدرسوں میںمیں جس طرح مسلمان تعلیم حاصل کرتے تھے اسی طرح ہندو بھی پڑھتے تھے۔ مسجدوں میں مکتب کے اندر مسلمانوں کے ساتھ ہندو بچے بھی تعلیم حاصل کرتے تھے۔ اس کے بے شمار شواہد  موجودہیں ۔ بطور مثال سکھ مذہب کے بانی گرونانک نے مسجد میں تعلیم حاصل کی تھی۔(1) ہندو مذہب کے عظیم مصلح راجہ رام موہن رائے جنھوں نے ستی کی رسم ختم کی تھی  مدرسہ شمس الہدی کے تعلیم یافتہ تھے۔ (2) دارالعلوم دیوبند جیسے مذہبی تعلیمی ادارے میں شروع میں ہندو بچے بھی پڑھتے تھے(3)

                مدرسوں کے علاوہ مزاروں اور خانقاہوں کے دروازے پر ہندو اور مسلمان دونوں یکساں عقیدت کے ساتھ حاضر ہوتے تھے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ سماجی تقریبات میں مقامی پنچایتوں میں اور باہمی سماجی مسائل کو حل کرنے کے میکنزم میں ہندو اور مسلمان برابر ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں تجارتی معاملات اس طرح آپس میں گندھے ہوئے ہیں کہ کوئی ایک فرقہ دوسرے سے بے نیاز نہیں ہے۔(4)

                ہندستان کے اندر اس ہندو مسلم مفاہمت کو پیدا کرنے میں مسلم علماء کا بھی بڑا کردار رہا ہے اور آج کی ہماری گفتگو کا موضوع وہی ہے کہ اس معاشرہ کو وجود میں لانے میں مسلم علماء کی کیا خدمات ہیں اور علماء نے اس  ماحول کے پیدا کر نے کے لیے مسلم نوجوانوں کو کس طرح متاثر کیا مسلم نوجوان جن میں مذہبی تشخص اور مذہب سے وابستگی پہلے کے مقابلے میں بڑھی ہے ان کے اندر مذہبی رواداری کو فروغ دینے میں مذہبی رہنماؤں نے کیا کردار ادا کیا۔

                جدید تناظر میں جب اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس کی جڑیں ماضی میں پیوست نظر آتی ہیں۔ ماضی میں دور جائے بغیر ماضی قریب کی کوششوں میں ہمیں کئی طرح کی جدوجہد ایک ساتھ نظر آتی ہے اور ان میں قدر مشترک یہ ہے کہ یہاں کے علماء نے کبھی بھی مخصوص مسلم تشخص اور امتیاز کی بات نہیں کی۔ اسلام پر عمل کرنے کی دعوت ہمیشہ مثبت رہی اس میں منفی عنصر نظر نہیں آتا۔ علماء کے یہاں ہندوؤں کاتذکرہ بھی ہوتا ہے تو برادرانِ وطن کے عنوان سے ہوتا ہے اس لفظ سے خود بخود یہ عندیہ ملتا ہے کہ ہندو ہمارے وطنی بھائی ہیں اگرچہ ان کا مذہب الگ ہے لیکن وطن کی نسبت سے وہ بھائی ہیں اور خاص مذہبی معاملات کے علاوہ باقی تمام امور میں ان کے ساتھ ہمدردی اور اشتراک کا رویہ رکھنا ضروری ہے مثلاً بھلائی کے کاموں میں مسلم اور غیر مسلم کی تفریق نہیںکرنی چاہیے۔ (5) صدقۃ الفطر کی رقم سے غیر مسلموں کی مدد بھی کی جاسکتی ہے۔ اگر کسی کے والدین غیر مسلم ہوں تو ان کی خدمت بھی اسی طرح کر نی چاہیے جس طرح مسلمان والدین کی جاتی ہے وغیرہ۔

                مسلم علماء اور مذہبی رہنماؤں کی ان کاوشوں  کی اگر درجہ بندی کی جائے تو ان کو نہایت آسانی سے  چند قسموں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

                1۔تصنیفی کام

                2۔ـتحریکات

                3۔تقریریں اور جمعہ وعیدین کے خطبے

                4۔مذہبی تقریبات

                5۔اجتماعی دعائیں

1۔تصنیفی کام

                                 علماء نے اس سلسلے میں جو تصنیفی کام کیا اس نے مسلم عوام خاص طور پر تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں پر بڑے مثبت اور دور رس اثرات مرتب کئے اس طرح کی تصنیفات میں ایک تو وہ ہیں جن میں ہندستان کی شرعی حیثیت پر بحث کی گئی ہے۔ مثلاً ایک بڑے عالم اور دارالعلوم دیوبند کے ایک بانی مولانا رشید احمد گنگوہی جنھوں نے باضابطہ انگریزوں سے جنگ بھی کی تھی، انھوں نے ایک کتاب لکھی اگرچہ اس میں دونوں رائے ہیں لیکن غالب رجحان یہ ہے کہ ہندستان برطانوی تناظر میں دارالحرب ہے ہندوؤں کے حوالے سے نہیں۔مولانا گنگوہی کی ایک کتاب کومولانا سعید احمد اکبرآبادی نے نفثۃالمصدور اور ہندستان کی شرعی حیثیت میں ملخصاً شائع کردیا ہے اور اس کے مندرجات پر کلام بھی کیا ہے۔ دراصل یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ان بزرگوں نے ہندستان کی شرعی حیثیت پر جو کچھ بھی لکھا ہے وہ دراصل سامراجی طاقتوں کے پس منظر میں لکھا ہے اس کی بنیاد مذہب نہیں بلکہ سامراجی عزائم ہیں انھوں نے کہیں بھی مذہب کو بنیاد نہیں بنایا، اس لیے مولانا  گنگوہی سے اس مسئلہ میں دونوں رائے منقول ہیں۔ ایک جگہ انھوں نے دارالحرب لکھا ہے(6) اور دوسرے مقام پر یہ لکھا ہے کہ ہندستان کے دارالحرب یا دارالاسلام ہونے میں راقم کو تحقیق نہیں (7) یعنی تذبذب کا اظہار کیا ہے۔

                مولانا محمد قاسم نانوتوی نے بھی اگر چہ باضابطہ انگریزوں کے خلاف جہاد کیا تھا اور انگریزوں کو جارح اور غیر قانونی حکمراں مانتے تھے لیکن چونکہ ملک میں حرب وضرب کی کیفیت نہیں تھی اس لیے مولانا نے ہندستان کو دارالحرب نہیں بلکہ دارالاسلام قرار دیا ہے۔ مولانا نے ایک مکتوب میں لکھا ہے کہ ہندستان دارالاسلام ہے اور ایک اور خط میں تذبذب کا اظہار کیا ہے۔(8) اس سلسلہ میں مولانا کا ایک دلچسپ مکتوب درج ذیل ہے:

“اول تو ہندستان دارالحرب نہیں دارالاسلام ہے لیکن اگر دارالحرب ہے تو بھی مسلمانوں کے لیے حسبِ روایات فقہیہ یہ کہاںجائز ہوگیا کہ وہ دارالحرب میں قیام کرکے سود کھاتا رہے۔۔۔۔ یہ بڑے عجیب وغریب قسم کے لوگ ہیں جب ہم کہتے ہیں کہ اچھا ہندستان دارالحرب ہے تو تمہیں ہجرت کرنی چاہیے اس پر وہ کہتے ہیں کہ یہ دارالاسلام ہے مگر جب کہتے ہیں کہ یہاں سودی کاروبار جائز نہیں تو جھٹ کہتے ہیں کہ یہ تو دارالحرب ہے۔ گویا چت بھی ان کی پٹ بھی ان کی‘‘۔ (9)

                مولانا قاسم نانوتوی اور مولانا رشید احمد گنگوہی دونوں بزرگ ایسے تھے جنھوں نے انگریزوں کے خلاف عملا جہاد کیا تھا اور مختلف علاقوں میں ہندستانیوں پر جو داروگیر جاری تھی اس کی وجہ سے انھوں نے دارالحرب کہا لیکن یہ وقتی بات تھی جب مطلع ذرا صاف ہوا تو ان کی آراء بھی بدل گئیں۔ مولانا سعید احمد اکبرآبادی نے ان مختلف آراء کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے:

“اس پوری مدت میں ملک کے حالات یکساں نہیں رہے بلکہ ادلتے بدلتے رہے ہیں اور جو جو تغیر ہوتا رہا ہے بحیثیت مجموعی علماء کا اس ملک کے متعلق شرعی نقطۂ نظر بھی بدلتا رہا ہے اس بنا پر مولانا گنگوہی سے اس سلسلے میںتین قول ثابت ہیں تو یہ حیرت کی بات نہیں بلکہ یہ حالات کے تغیر کا اثر ہے۔ چنانچہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مولانا کا پہلا فتویٰ بزبان فارسی وشائع کردہ مفتی محمد شفیع صاحب یاتو1857ء کی جنگ آزادی سے پہلے کا ہے یا اس کے فوراً بعد کا جبکہ پکڑ دھکڑ بڑے پیمانے پر جاری تھی اور ادھر مجاہدین بھی سرگرم عمل تھے۔ اس کے بعد جب حالات ذرا بہتر ہوئے مگر مطلع صاف نہیں ہوا تھا تو مولانا کو اب پہلی رائے پر اصرار تو نہیں رہا لیکن ساتھ ہی دارالحرب ہونے کی نفی بھی نہیں کرسکے اور جیسا کہ فتاوی رشیدیہ میں ہے کہ کسی قطعی بات سے معذرت فرمادی۔ پھر جب حالات اور زیادہ بہتر ہوئے امن وامان بحال ہوگیا اور مذہبی فرائض ومعمولات بلاخوف وخطر ادا ہونے لگے تو اب حضرت گنگوہی نے اس کو دارالامان ہی قرار دیا۔مولانا گنگوہی نے تو ترقی کرکے ہندستان کو دارالامان ہی کہا ہے لیکن مولانا محمد قاسم نانوتوی نے ’’ہندستان میں سودی لین دین‘‘ پر بہ صورت مکتوب جو ایک نہایت پُرمغز اور مبسوط رسالہ لکھاہے اس میں متعدد روایات نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’باعتبار روایات منقولہ ہندستان دارالاسلامــــ است‘‘( ان روایات کے پیش نظر ہندستان دار الاسلام ہے۔)‘‘((10

                 مولانا سعید احمد اکبرآبادی کا تجزیہ دلائل سے مبرہن ہے۔ چنانچہ مولانا عبدالحئی فرنگی محل جو 1857ء کے بعد پیدا ہوئے اور جنھوں نے وہ عبوری دور نہیں دیکھا تھا ان کی رائے اس معاملے میں بالکل واضح طور پر یہ تھی کہ ہندستان دارالاسلام ہے۔ (11) ان کے علاوہ اور بھی متعدد علماء نے اس وقت اسی طرح کے فتویٰ دیئے تھے حتی کہ انگریزوں کے خلاف علماء نے جو تحریکیں چلائیں ان میں بھی ہمیں یہ رجحان نہیں ملتا ہے کہ وہ ملک کو دارالحرب قرار دیتے ہوں۔ بلکہ وہ ملکی قوانین کا احترام کرتے ہوئے ملک کو انگریزوں کے تسلط سے آزاد کرانا چاہتے تھے۔((12

                بریلوی مکتب فکر کے ایک بڑے عالم اور مفکر مولانا احمد رضا خاں صاحب نے بھی اس موضوع پر کلام کیا ہے اور انھوں نے اس موضوع پر با ضابطہ ایک کتاب لکھی اس کا نام ہی رکھا اعلام الاعلام بان ہندستان دارالاسلام اور اس کتاب میں انھوں نے قرآن وحدیث اور حنفی مسلک کی اہم کتابوں کی روشنی میں لکھا کہ ہندستان دارالحرب نہیں ہے بلکہ دارالاسلام ہے۔((13

                1857ء کی سعی انقلاب کی ناکامی کے بعد ہندستان میں متعدد تحریکات برپا ہوئیں اور ان میں ہندو مسلمان شانہ بشانہ آزادی کے لیے لڑے۔ انگریزوں نے اس اتحاد کو اپنے سامراج کی بقا کے لیے خطرہ محسوس کیا اور انھوں نے ہندو مسلمانوں کے درمیان اتحاد کو توڑنے کی کوشش شروع کی، ایک دوسرے کے خلاف بدگمانیاں پیدا کیں۔ عہد وسطیٰ کی جنگوں کو مذہبی رنگ دیا، مسلمانوں کے مزعومہ مظالم کی داستانیں عا م کیں ۔ اس سلسلے میں بعض ہندستانی لوگ بھی ان کے ہمنوا ہو گیے ،خاص طور پر مغربی تعلیم یافتہ اصحاب نے ان کا ساتھ دیا ۔مسلمانوں میں بھی ایک طبقہ ایسا پیدا ہوگیا جس کو دین کے مسلمات سے تو زیادہ دلچسپی نہیں تھی نہ ہی وہ معروف معنوں میں مذہبی لوگ تھے لیکن وہ بھی اقلیت اکثریت، احکام شریعت اور مسلمانوں کی برتری  مذہب کی  بنیاد پر قومیت کی نظریاتی اساس جیسی اصطلاح استعمال کرنے لگے اور  مخصوص طرح کی مسلم قوم پرستی کے تصور کو فروغ دینا شروع کیا۔ اس سے قبل مسلمانوں نے بالعموم انفرادی مسلم تشخص کی بات نہیں کہی تھی اس نئے رجحان نے خطرہ پیدا کردیا کہ کہیں ہندو مسلم اتحاد ٹوٹ جائے اس لیے بہت سے علماء آگے آئے اور انھوں نے بتایا کہ انفرادی مسلم تشخص کا تصور حتمی طور پر درست نہیں ہے قرآن وسنت میں اس کی واضح دلیلیں موجود ہیں کہ مسلمان اور غیر مسلم اپنے اپنے مذہب پر قائم رہتے ہوئے، جغرافیائی وحدت کی بنا پر ایک قوم کہلا سکتے ہیں۔ اس سلسلے جو علما پیش پیش تھے ان میں ایک بڑا نام مولانا حسین احمد مدنی کا ہے انھوں نے اس موضوع پر متعدد مرتبہ کلام کیا ۔ ایک مستقل کتاب لکھی جس کا نام ہے ’’ متحدہ قومیت اور اسلام‘‘ اس کتاب میں مولانا حسین احمد مدنی نے متحدہ قومیت کے  جو دلائل دیے ان کا خلاصہ یہ تھا کہ اول انھوں نے علم لغت کے اعتبار سے لفظ قوم اور ملت کے معنی متعین کئے اس کے بعد قرآن اور حدیث سے ان معانی کی توثیق کی ہے مثلا لکھا ہے:

“غرض یہ کہ اس قسم کی آیتیں جن میں غیر مسلموں اور پیغمبروں کو ایک قوم بتایا گیا ہے اور ان کفار کو پیغمبر کی طرف بوجہ اتحاد نسب یا اتحاد وطن وغیرہ سے نسبت کیا گیا، اسی طرح بہت سی آیتیں ہیں جن میں مسلمانوں کا کافروں کو اپنی قوم قرار دیتے ہوئے تخاطب مذکور ہے‘‘۔ (14)      (جاری)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔