ہندوستان کہاں جا رہا ہے؟

فرضی اور پرفریب سیاست سے جنگ آسان نہیں

 تبسم فاطمہ

ہم سیاست کی ایک ایسی دنیا میں ہیں جہاں سب کچھ فرض کر لیا ہے۔  فرض کر لیا گیا ہے کہ ہندوستان اب ایک ہندو راشٹریہ ہے۔  فرض کر لیا گیا کہ جمہوری نظام کا خاتمہ ہو چکا ہے۔  فرض کر لیا گیا ہے کہ آپ کا ہر ایک سچ، جھوٹ ہے۔  فرض کر لیا گیا ہے کہ آر ایس ایس اور بھاجپا کے اصول و قوانین سے الگ اپنے لیے، اگر آپ کوئی الگ راستہ اپناتے ہیں تو آپ پر آسانی سے دیش دروہ کا الزام ثابت کیا جا سکتا ہے۔  فرض کر لیا گیا ہے کہ موجودہ سیاست نہ صرف اپنے پانچ سال پورا کرے گی بلکہ ایسے لوگ جو اس کی جڑوں کو کمزور کریں گے، اُنہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جائے گا۔  اس وقت ملک کے سب سے طاقتور حکمراں کی آنکھیں بند ہیں۔  اور اس لیے یہ کہنا مشکل نہیں کہ اس وقت ملک کی سیاست میں جو کچھ اس کی ناک کے نیچے ہو رہا ہے، وہ دراصل اس کے اشاروں پر ہو رہا ہے۔  محض دو برس کے اندر وزیر اعظم کے، غیر ملکی اسفار کی تمام چمک ماند پڑ گئی۔  ڈیجیٹل انڈیا، میک ان انڈیا کے نعرے کھو گئے۔  فرقہ واریت کو ہوا دی گئی ۔ مسلمانوں اور دلت کا نام سیاسی گناہ کے طور پر استعمال کیا گیا۔  جلدی جلدی گجرات فسادات اور فرضی انکاؤنٹر سے وابستہ مجرموں کی رہائی عام ہوئی۔  پارلیامنٹ میں وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ کو بھگوا دہشت گردی کے خلاف زبان کھولنے کی نوبت آئی۔  اے ٹی ایس سے وابستہ افسران نے بھگوا دہشت گردی کے الزامات کو سرے سے خارج کیا۔  اب سامنے مسلمان تھے اور دلت۔  راستہ صاف بھی تھا اور خطرناک بھی۔  ایک ایسی فضا تیار ہوئی جب سیاست اور بھگوا سماج سے وابستہ ہر شخص کو یہ آزادی تھی کہ مسلمانوں کو پاکستان یا قبرستان بھیج سکے۔  دو برس کے اندر رہنے، کھانے پینے اور جینے کے بھگوا اصول و قانون طے کیے گئے۔  گائے کے گوشت کی فرضی کہانی تیار کی گئی اور محمد اخلاق کو ٹھکانے لگانے کے بعد دیش بھکتوں نے جب تک کچھ معصوم لوگوں کی جانیں نہیں لیں، انہیں چین نہیں پڑا۔  دیکھا جائے تو دو برسوں میں اخلاق کا خون بہانے کے بعد بھی یہ سلسلہ رکا نہیں ہے بلکہ اس رویے میں شدت آگئی ہے۔

یہ جمہوری نظام میں پہلی بار ہوا ہے کہ گھر لوٹنے والے، ریلوے اسٹیشن پھوکنے والے، پٹریاں اکھاڑنے والے، شوروم جلانے والے اور دنگا کرانے والے کھلے اور آزاد گھوم رہے ہیں۔  اور یہی لوگ دیش بھکتی کا سرٹیفکٹ بھی بانٹ رہے ہیں۔  دیش بھکتی کی الٹی گنگا بہی تو سیاسی گھمسان سامنے آیا۔  انصاف اور عدلیہ کی ضروت باقی نہیںرہی۔  ایم ایم کلبرگی، گووند پانسرے، نریندر دا بھولکر کے نام موت کا فرمان جاری ہوا۔  اور انہیں ہلاک کر دیا گیا۔  عدم تحمل او ر عدم تشدد پر آواز اٹھنے لگی تو سارا میڈیا حکومت کے بچائو میں اتر آیا۔  دو ایک میڈیا چینل تھے جو سچ کا پرچم تو اٹھائے تھے لیکن ان کو سننے والا کوئی نہیں تھا۔  ایک ایسا ہندوستان سامنے ہے جہاں فرضی کہانیوں، مکّاری، فرقہ پرستی اور جھوٹ کے پردے میں سچ غاب ہوگیا ہے۔  سوال ہے، ہندوستان کہاں جا رہا ہے؟ آپ ایک ایسے ملک کا حصہ ہیں جہاں میڈیا چینلس فرضی اسٹنگ آپریشن، فرضی کہانیاں بنا کر جھوٹ کو عام آدمی پر تھوپنے کی کوشش کر رہے ہیں۔  ایک ایسا ہندوستان، جہاں سیاست سے سچ کو غائب کر دیا گیا۔  آپ وہی دیکھ رہے ہیں، سن رہے ہیں جو میڈیا دکھانے کی کوشش کر رہا ہے اور میڈیا حکومت کے بچائو پر اس طرح اتر آیا ہے کہ ضمیر نام کی چڑیا کب کہاں، کون سی قبر میں دفن ہوگئی، یہ کوئی نہیں جانتا۔

اخلاق کا سچ جھوٹ تھا۔  روہت ویمولا کی سیاسی خودکشی جھوٹ تھی۔  اس کی موت پر ہونے والا ہنگامہ جھوٹ تھا۔  سچ تھا تو صرف حکومت کے غنڈوں کا کردار جو کبھی سچ کے نام پر کلبرگی جیسوں کے ساتھ انصاف کرنے پہنچ جاتے، کبھی کنہیا کی گرفتاری پر وکیل بن کر عدلیہ میں ٹوٹ پڑتے۔ حب الوطنی اور دیش بھکتی کا سبق ان وحشی بھیڑیوں کے ہاتھ میں ہے جو انصاف اور عدلیہ کا کھلم کھلا مذاق بنا رہے ہیں۔  دیش بھکتی کے لیے ترنگا لہرانے کی باتیں بھی اس جماعت کے لوگ کر رہے ہیں، جن کی عمارتوں پر ترنگے کی جگہ ہمیشہ بھگوا جھنڈا لہرایا۔  غلامی کے سفّاک دنوں میں انگریزوں کا ساتھ دینے والے اور نتھو رام گوڈسے کا مندر بنانے والے دیش بھکتی کا سرٹیفکٹ بانٹ رہے ہیں۔

روہت ویمولا سے کنہیا کی گرفتاری اور جے ان یو میں ہونے والے پروگرام کی تحقیق کے لئے نہ کسی عدلیہ کی ضرورت تھی، نہ کسی میڈیا کی بلکہ ضرورت تھی دو آنکھوں کی، جو سچائی اور حقیقت کو بغیر کسی سیاسی چشمے سے دیکھ سکتے تھے۔  تمام ہنگاموں کی جڑ ۹ فروری جے این یو میں ہونے والے پروگرام کی فوٹیج ہے، جسے ابھی بھی نظر انداز کیا جا رہا ہے۔  اور نظر انداز اس لیے کیا جا رہا ہے کہ اس کے پیچھے حکومت کا ’بھونپو‘ چینل زی (چھی) ٹی وی ہے اور اس چینل کی خوفناک کارگزاریاں پچھلے دو برس سے لگاتار سامنے آتی رہی ہیں۔  یہ وہی چینل ہے جہاں بلیک میلنگ کے ذریعہ سو کروڑ کی فروتی، مانگنے والا اور فرضی ویڈیو کے ذریعہ گمراہی پھیلانے والا صحافی سدھیر چودھری آزاد گھوم رہا ہے اور بائیں بازو کے نظریہ والے اسٹوڈنٹ کنہیا کو زبردستی فرضی ویڈیو کی بنیاد پر شکنجے میں لیا جاتا ہے۔  افضل گرو اور پاکستان زندہ باد کے نعرے ویڈیو فوٹیج میں اس لیے صاف نہیں ہیں کہ یہ ’’چھی‘‘ ٹی وی کی سازشی اُپج ہیں۔  اور یہ الزام زی نیوز سے مستعفی ہونے والے صحافی وشودیپک نے بھی لگایا۔  ثبوت کے نام پر اسی چینل نے ایک سال قبل ’جل پری‘ کا تماشہ دکھایا تھا۔  جل پری بھی ایڈیٹنگ کا کمال تھی اور یہ فوٹیج بھی جس نے مکمل ہندوستان کو دیش بھکتی کے مسئلہ پر خوفناک آگ میں جھونک دیا۔  دلتوں سے کام نہیں چلا تو مسلم چہرے کی ضرورت محسوس ہوئی۔  اس سے قبل بھی ہزاروں بے گناہ مسلمانوں پر فرضی الزامات لگا کر سیاست اپنا کھیل، کھیلتی رہی ہے۔  فرضی کہانی اور فرضی اسٹنگ کو سچ بنانے کے لئے عمر خالد اور انربھان بھٹا چاریہ پر شکنجہ کسا گیا تاکہ یہ بتایا جا سکے کہ اس وقت موجودہ نظام کے خلاف ملک سے غدّاری کرنے والوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔  لیکن افسوس، کہ فرضی آپریشن اور لگاتار ہونے والے ہنگاموں سے مرکزی حکومت خود ہی بیک فٹ پر آگئی ہے۔

اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں کہ جس مسئلہ کو تاڑ کی طرح کھینچا گیا، وہ نعرہ ٹی وی چینلس کی سازش کے سوا کچھ نہ تھا بلکہ اس کے ذریعہ مرکزی حکومت اور مودی کو خوش کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔  ایک فرضی ویڈیو کی بنیاد پر دلی پولس کی لاپرواہی، غیر ذمہ دارانہ جانچ، پٹیالہ ہائوس کورٹ میں مارپیٹ نے انصاف اور جمہوریت کے چیتھڑے بکھیر دیے ہیں۔  خالصتان زندہ باد، کے نعرے لگانے والوں کے ساتھ اتحاد کرنے والی پارٹی یہ بھول گئی کہ پاکستان اور افضل گرو کے ساتھ جموں کشمیر میں اس کی اتحادی پارٹی کا رُخ کیا ہے؟

ہمیں اُس خوفناک سسٹم کا حصہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔  جہاں ہمارے خیال، ہمارے نظریہ یہاں تک کہ نصاب کی کتابوں، جامعات پر ایک مخصوص کلچر کو تھوپنے کی تیاری کر لی گئی ہے۔  کبھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور کبھی سیکولرزم کا گڑھ کہے جانے والی یونیورسٹی جے ان یو کو بدنام کرنے کے لیے فرضی من گڑھت کہانیوں اور ویڈیو کا سہارا لیا جاتا ہے۔  مرکزی حکومت بھول گئی کہ بھاجپا کی اہم شاخ اے بی وی پی کے تین اہم کارکن جے این یو مسئلہ پر استعفیٰ دے کر، جے این یو کے کردار کو بچانے کے لیے سامنے آجاتے ہیں۔  مسلمانوں اور دلتوں کو لے کر ابھی تک مرکزی سرکار کا رویہ اتنا سنگین ہے کہ بھاجپا کے اندر بھی مخالفت ہونے لگی ہے۔  سوال ہے، کیا آپ مردہ ضمیر کے ساتھ زندگی گزار سکتے ہیں۔  اسی لیے زی نیوز کے صحافی وشو دیپک نے چینل سے ملنے والی اچھی سیلری کے باوجود چینل چھوڑ دیا کہ اس اس ’قحبہ خانہ‘‘ میں رہنا جرم لگنے لگا تھا۔  وشو دیپک نے لکھا، ’لوگ ہمیں ’چھی نیو‘ کے صحافی کہتے ہیں۔  ہمارے ایمان کی دھجیاں اُڑ چکی ہیں۔  کیا ہم بھاجپا اور آر ایس ایس کی کٹھ پتلی ہیں۔  ویڈیو میں پاکستان زندہ باد کا نعرہ تھا ہی نہیں۔  اندھیرے میں آرہی آوازوں کو ہم نے کیسے قبول کر لیا کہ یہ کنہیا اور اس کے ساتھیوں کی آوازیں ہیں؟ آپ نے فساد برپا کر ملک کو خانہ جنگی کی آگ میں جھونک دیا ہے۔  یہ کیسا دیش پریم ہے؟‘

جس طرح فرضی اور پرفریب سیاست سے جنگ آسان نہیں اُسی طرح کچھ لوگوں کے لیے ضمیر کو مردہ کرکے جینا بھی آسان نہیں۔  اس پرآشوب فضا میں ایک ایک کرکے تمام چہرے بے نقاب ہو رہے ہیں۔  یہ بھی حقیقت ہے کہ مسلمانوں کی ایک بہت بڑی آبادی پر شکنجہ کسنا یا روند ڈالناحکومت کے لیے آسان نہیں۔  روہت ویمولا سے کنہیا کمار تک مسلم دلت طاقت سے حکومت خوفزدہ ہوگئی ہے اور اسے اپنا سیاسی کھیل اگلے انتخابات میں بکھرتا ہوا نظر آرہا ہے-

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔