نہ سمجھوگے تو مٹ جاؤگے

عزیر احمد

وہی ہوا جس کا ڈر تھا، مودی حکومت سے جتنے خدشات وابستہ تھے سب دھیرے دھیرے حقیقت کا روپ دھارتے چلے جارہے ہیں، اقلیتیں بالخصوص مسلمان اور دلت نشانے پہ ہیں، لوگوں کا ایک دوسرے پر سے اعتماد اٹھ چکا ہے، محبت کی جو فضا تھی وہ نجانے کب کی تحلیل ہوچکی ہے، اس کی جگہ عداوت، بغض، دشمنی اور نفرت و عناد نے لے لی ہے، رواداری عدم رواداری میں تبدیل ہوچکی ہے، جب سے یہ حکومت منظر عام پہ آئی ہے لوگوں کو پریشان کرکے رکھ دیا ہے، ہر صبح نیا مسئلہ، ہر شام نیا تحفہ، کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب چینلوں پہ دھواں دھار بحث نہ ہو، ایک دوسرے کے خلاف بھڑکاؤ تقریریں نہ ہو، بات شروع ہوئی تھی لو جہاد سے، جو بھارت ماتا، تشدد عدم تشدد، جے.این.یو،  اور ذاکر نائیک سے ہوتے ہوئے گائے تک پہونچی، اور اس کی لپیٹ میں مسلمان اور دلت دونوں آئے، جب تک گائے مسلمانوں تک محدود تھی، تب تک کوئی مسئلہ نہیں تھا، کیوں کہ مسلمانوں میں کوئی آواز اٹھانے والا نہیں تھا، اخلاق کو مارا گیا، نعمان کو مارا گیا، ٹرک ڈرائیوروں کو پیٹا گیا، مگر کسی نے کچھ نہیں کہا، کسی نے صدائے احتجاج بلند نہیں کی، مگر دلت ایسے نہیں ہیں، وہ بھلے ہی ہندو معاشرے کے دبے کچلے لوگ ہیں، ان کی حیثیت سب سے نچلے طبقے کی ہے، مگر وہ لوگ منظم ہیں، ان کے اوپر ظلم ہوتا ہے، تو وہ چیختے بھی ہیں، چلاتے بھی ہیں، معاشرے کو اپنے درد کا احساس دلاتے ہیں، اسی وجہ سے جب دلت نوجوانوں کو گائے کا چمڑا نکالنے کی وجہ سے مارا گیا تو پورے ہندوستان میں احتجاج کی لہر دوڑ گئی، دلت سڑکوں پہ اتر آئے، لیڈران کو ان کے پاس جانے کے لئے مجبور ہونا پڑا، ان مسلمان لیڈران کو بھی بیان دینا پڑا جو اپنوں پر ہوتے ہوئے ظلم کو دیکھتے رہتے ہیں اور خاموشی کی چادر لپیٹے رہتے ہیں.

اترپردیش سمیت کئی ریاستوں میں الیکشن ہے، مودی حکومت کے پاس فرقہ وارانہ خطوط پر لوگوں کو تقسیم کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے، نہ اس نے ترقیاتی کام کئے ہیں، نہ ڈویلپمنٹ کے طریقے کو اختیار کیا ہے، نہ ملک کے باشندوں کو ان کا حق دیا ہے، نہ اقلیتیوں کو تحفظ کو احساس دلایا ہے، نہ ہی ملک میں امن و امان قائم کی ہے، نہ ہی غریبی ختم کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کئے ہیں، نہ ہی مہنگائی روک پائی ہے، غرضیکہ بی.جے پی کے پاس کچھ بھی ایسا نہیں ہے جس کو وہ دکھا کے لوگوں سے ووٹ مانگ سکے، جس کی بنیادوں پہ وہ عوام کے درمیان اپنی ساکھ بناسکے، لے دے کے اب ان کے پاس دو ہی راستہ ہیں، ایک  "پھوٹ ڈالو، راج کرو”، یہ کام نہایت ہی تیزی سے جاری ہے، مسلمانوں کے فرقوں کے درمیان نہایت ہی تندہی سے آگ لگانے کا کام جاری ہے، نفرت کی فضا قائم ہوچکی ہے،  سبرامنیم سوامی نے بہت پہلے کہا تھا کہ میں مسلمانوں کو تقسیم کردوں گا، ان کو آپس میں لڑا دوں گا، اور وہی ہو بھی رہا ہے، میڈیا سوشل میڈیا پہ ہونے والی بحثیں، ایک دوسرے کے خلاف گالی گلوچ، نفرت کا اظہار، چینلوں پہ ڈاڑھی ہری پگڑی اور کرتا میں ملبوس ہوکر بڑی شان سے  دوسرے مسلک کی ہرزہ سرائی، ان پہ دہشت گردی کا الزام، صوفی ازم جیسے مخصوص نظریے کو بڑھاوا دینے کی باتیں، اسے عین اسلام قرار دینے کی کوششیں اس بات کا غماز ہیں کہ یہ لوگ کسی نہ کسی حد تک کامیاب ہوچکے ہیں، ان کی کوشش رنگ لاچکی ہے، اب مسلمان ایک دوسرے سے دور جاچکے ہیں، اب عقیدے کے بنیاد پہ نہیں، بلکہ سیاسی بنیاد پہ بھی ایک دوسرے کے قریب نہیں آسکتے، ان کی مثال کٹے ہوئے پتنگ کی مانند ہوچکی ہے جو بغیر کسی لیڈر، بغیر کسی رہنما کے ملک کے فضاؤں میں لہراتے پھر رہے ہیں.

دوسرا راستہ من حیث القوم ہندو مسلم دونوں کے درمیان نفرت کی کھائی کھود دینا، ان کے درمیان عدم اعتماد کی لہر دوڑا دینا، بابری مسجد اور گائے کو شطرنج کے مہرے کے طور پر استعمال کرنا، اس میں بھی وہ بہت حد تک کامیاب ہوگئے، رام مندر وہیں بنے گا کہہ کرکے ہندؤوں کے جذبات مشتعل کردئیے اور مسلمانوں کو بر انگیختہ کیا اب گائے کی پونچھ پکڑ کر وہ دریا پار کرنا چاہتے ہیں، اس کو اپنی ماتا اور نجانے کیا کیا کہہ رہے ہیں، گائے کے نام پہ کبھی مسلمانوں کو پیٹ دے رہے ہیں، کبھی دلتوں کو، یہاں تک وہ مسلم عورتوں کو بھی نہیں بخش رہے ہیں.

ایسے وقت میں مسلم اکابرین، قائدین، اور تمام تر تنظیموں کی ذمہ داری ہے کہ وہ سر جوڑ کے بیٹھیں، غور کریں، اور تجزیہ کریں، اور موجودہ حالات کا سامنا کرنے کے لئے لائحہ عمل تیار کریں، ایک دوسرے کو برداشت کریں، ایک دوسرے کی سنیں، کسی ایک سیاسی پلیٹ فارم کا استعمال کریں، یاد رکھیں یہ بہت نازک وقت ہے، اس وقت بھی اگر سب ایک دوسرے کے قریب نہیں آئے تو اس بار الیکشن سے مسلمانوں کا صفایا ہوجائیگا، ان کی جو کنگ میکر کی حیثیت ہے وہ بھی حرف غلط کی طرح مٹ جائے گی، پھر کبھی دوبارہ مسلمان ابھر نہیں پائیں گے.

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔