ہندومت ایک مطالعہ (قسط چہارم)

محمد اشفاق عالم ندوی

ہندومت میں خدا تصور

ہندومت کی مقدس کتابوں یعنی وید ،اپنشد اور گیتا وغیرہ میں بعض جگہوں میں خدا کی وحدانیت اور بعض جگہوں میں شرک کا بھی تصور واضح طور پر ملتا ہے ۔چنانچہ رگ وید میں کل 33 خدائوں کا تذکرہ ہے ان میں سے گیارہ زمین کے دیوتا ہیں اور گیارہ آسمان کے  اور گیارہ فضاء کے دیوتا ہیں ۔

لیکن جو غیر مذہبی ہندو ہیں وہ ایک سے لیکر 33 کروڑ خدائوں کی پرستش کرتے ہیں ۔گویا کہ ایک غیر مذہبی ہندو کے نزدیک ہر چیز خدا ہے مثلا درخت ،پہاڑ اور دریا وغیرہ

اپنشدوں میں خدا کی وحدانیت کاتصور

چھاندوگیا  اپنشد باب 6 فصل2 مشق1میں ہے:

وہ صرف ایک ہی ہے بغیر کسی کے ،،

 شیویتا شواترا اپنشد باب 6 مشق 9 میں ہے:

 اسکے نہ ماں باپ ہیں اور نہ اس کا کوئی مالک وآقاہے،،

 یجر وید کے سمہتا حصہ کے باب 40 مشق 8 میں یہ بات مذکور ہے:

 اس کا کوئی جسم نہیں ہے وہ خالص ہے،،

  یجر وید سمہتا حصہ کے باب 40 مشق 9 میں یہ بات بھی مذکور ہے:

 وہ لوگ تاریکی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب جاتے ہیں جو سمبھوتی یعنی مخلوق اشیا ء کی پرستش کرتے ہیں ،مخلوق اشیاء جیسے میز، کرسی اور بت وغیرہ ،،

  رگ وید باب 1 مشق 26 میں ہے :

  عارفین (پڑھے لکھے دینی پیشوا ) ایک خدا کو مختلف ناموں سے یاد کرتے ہیں ،،

   ہندو ویدانت کا برہما سوتر یہ ہے:

 برہما (بھگوان ) ایک ہی ہے ،دوسرا نہیں ہے ،نہیں ہے،نہیں ہے،ذرا بھی نہیں ہے ،،

ہندو مت میں شرک کا تصور

 ہندو مت میں ابتداء ہی سے توحید کے ساتھ ساتھ شرک بھی رہا ہے چنانچہ تمام ہندو اس بات کو تسلیم کر تے ہیں کہ دیوی دیوتابھی فعال اور موثر ہیں اور ان میں اکثر لوگ اس بات کے بھی قائل ہیں کہ خدا تین ہیں برہما ،وشنو اور شیو اور یہ تینوں مستقل بالذات ہیں ۔ برہما خالق ہے جس نے تمام انسانوں اور اس دنیا کو بنایا ۔اور وہ اس عمل تخلیق کے بعد آسمانوں کے پیچھے چلا گیا ۔دوسرا وشنو ہے جو اس دنیا کے انتظام وانصرام کو دیکھتا ہے اور لوگوں کے ساتھ رحم وکرم کا معاملا کرتاہے اورتیسرااشیو ہے جو الوہی طاقت کے قہر وجلال کی تجسیم ہے اور وہی اس دنیا کو ختم کریگا ۔

 اسی طرح دیوتاوٗں کے ساتھ ساتھ ہندو مت میں دیویوں کی بھی پرستش ہوتی ہے چنانچہ شیو کی بیوی پاربتی اور شیو کی شکتی کالی ماں اور تانترک  فرقے کی دیوی بھیراویں سب سے زیادہ اہمیت کے حامل سمجھے جاتے ہیں اور بھوانی جرائم پیشہ لوگوں ،قزاقوں اور  ڈاکوئوں کا معبود رہی ہے۔ اسی طرح اور بھی بہت سارے دیویاں ہیں جیسے درگا ،کمندا،یا چندااورشیراوالی وغیرہ  ۔ لیکن ڈاکٹر ذاکر نائک صاحب کہتے ہیں کہ ہندو مت کے علماء اور پنڈت اس بات کے قائل ہیں کہ خدا ایک ہی ہے اور ویدوں میں جو ۳۳ خدائوں کا تذکرہ ہے وہ درحقیقت مستقل بالذات خدا نہیں ہیں بلکہ وہ برہما کے ہی صفات ہیں ۔

لیکن یہ با ت میرے نزدیک صحیح نہیں ہے اور اسکی وجہ ہندومت میں شرک کاتصور کے عنوان کے تحت ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں ۔

 اسلام کا تصور وحدانیت

قرآن کریم میں اللہ تعالی نے اپنی وحدانیت کو سورہ اخلاص میں بہت ہی مختصر لیکن جامع انداز میں بیان کیا ہے۔ فرماتا ہے ۔

اے نبی کہدو کہ اللہ ایک ہے ،اللہ سب سے بے نیاز ہے اور سب اس کے محتاج ہیں نہ اس کی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے اور اس کا کوئی ہمسر نہیں ۔(الاخلاص۔پارہ 30)

اسلام میں تصور وحدانیت کے سلسلے میں اس سورہ اخلاص کے بعد کسی اور دلیل اور حجت کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی ہے کیونکہ اس سورہ میں شرک کی تمام جڑیں کاٹ دی گئی ہیں اور بالکل واضح اور صاف وشفاف انداز میں یہ کہدیا گیا کہ اللہ تو صرف اور صر ف ایک ہی ہے اس کے علاوہ اس دنیا کو پیدا کرنے والا اور اس کو چلانے والا کوئی بھی نہیں ہے اور ساتھ ساتھ یہ بھی اعلان کردیا کہ نہ تو وہ کسی کے بطن سے پیدا ہوا ہے اور ناہی کوئی اس کی اولاد ہے ۔بلکہ وہ ان تمام چیزوں سے بے نیاز ہے ۔اور اس کی ذات ان تمام چیزوں سے پاک ہے ۔

ہندومت میں آواگون کا عقیدہ اور اسلام

 آواگون ہندومت کی بنیادی عقائد میں سے ایک ہے اسے پنر جنم بھی کہتے ہیں اس کے لغوی معنی بار بار جنم لینا اور مرنا ہے چنانچہ ہندو عقیدہ کے مطابق جب کوئی روح کسی انسانی قالب میں داخل ہوکر اس دنیا میں ایک بار پیدا ہوجاتا ہے تو وہ اپنے اچھے برے اثرات کی وجہ سے جنم مرن اس چکر میں  جس آواگون کہتے ہیں پھنس جاتا ہے اور اس وقت تک اس کی نجات ممکن نہیں ہوتی جب تک وہ موکش پراپت نہ کر لے ۔

اس عقیدہ کے مطابق انسان کے تمام اعمال خواہ وہ چھوٹے ہوں یا بڑے ان کے اثرات مرتب ہوتے رہتے ہیں اور جب انسان مرتاہے تو وہ فنا نہیں ہوتا اور ناہی کسی اور دنیا میں جاتا ہے بلکہ اسی دنیا میں کسی اور صورت میں پیدا ہوتا ہے اور اس پیدائش میں اس کے اعمال کے اثرات کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے چنانچہ وہ اپنے اعمال کے برے اثرات کی و جہ سے کتا ،سور یا کسی اور جانور کی شکل میں بھی پیدا ہوتا ہے ۔

ہندو مت کی کتابوں میں اس کا سبب یہ بیا ن کیا گیا ہے کہ روح کا انسانی جسم سے باہر نکلنے کے بعدچونکہ اس کے دوسرے انسانوں سے تعلقات کی بنیاد پر بہت سارے مطالبات اور معاملات باقی رہ جاتے ہیں جن کی ادائیگی کے لئے اور اپنے اعمال کے ثمرات کو پانے کی خاطر روح نئے روپ اور نئے قالب میں ظہور پذیر ہوتا ہے ۔

جبکہ اسلام بالکل اس کے برعکس اپنا فلسفہ پیش کرتا ہے قرآن میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ کل نفس ذائقۃ الموت یعنی ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے ۔(آل عمران ۔185)

اس دنیا سے فنا ہوجانے کے بعد اللہ تعالی پوری انسانیت کو ایک بار پھر پیدا کریگا اور ان کے اچھے برے اعمال کی جزاء وسزاعطا فرمائے گا ۔اور اس دن کوئی کسی کے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھائے گا قرآن کریم میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اس دن کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گااور اگر کوئی لدا ہوا نفس اپنا بوجھ اٹھانے کے لئے پکارے گا تو اس کی بوجھ کا ایک ادنی حصہ اٹھانے کے لئے  بھی کوئی نہ آئے گا خواہ وہ قریب ترین رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو ں (الفاطر ۔18۔پارہ22)۔

 اس کے بعد تمام انسانیت کو ان کے اچھے برے اثرات و اعمال کی بنا پر جنت و جہنم میں ڈال دیا جائیگا۔ یہ ابد الآباد زندگی ہوگی۔ اس کے بعد کوئی زندگی نہیں ۔

 اس دنیا میں انسان کی پیدائش کا مقصد قرآن کریم اللہ تعالی یہ فرماتا ہیکہ،کہ ہم نے انسان و جنات کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے،(الذاریات ۔56پارہ۔28)۔

اس کا ایک دوسرا مقصد یہ بھی ہیکہ جس کا قرآن کریم میں ذکر آیا ہے۔ اس نے موت اور زندگی کو اس لئے بنایا  تاکہ وہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھ لے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔ اور وہ زبردست بھی ہے۔ اور درگزر فرمانے والا بھی۔(الملک۔۲۔پارہ۔29)

  ہندومت میں ورنوں کا تصور اور اسلام کا تعلیم مساوات

 آریوں کی ہندوستان آمد کے بعد انہوں نے اپنے آپ کو یہاں کے سیاہ فام باشندوں سے الگ رکھنے کے لئے ذات پات کا نظام بنایا۔ جس کی جھلکیاں ویدوں میں جابجا ملتی ہیں ۔

  چنانچہ رگ وید باب 10 بھجن 90 میں ہے :

اس (برھما)کے منھ سے برہمن پیدا ہوئے۔ اس ہاتھوں سے چھتری راجہ اور اس کی ٹانگوں سے عام آدمی یعنی ویش پیدا ہوا جو کاروبار میں مشغول رہتا ہے۔اور کم حیثیت غلام نے اس کے پیروں سے جنم لیا ،،

 مذکورہ بالاطبقاتی نظام کے وجود میں آجانے کے بعد معاشرہ میں ان کے کام اور ان کی ذمہ داریاں بھی تقسیم کردی گئیں چنانچہ ذیل میں ہم منوسمرتی سے ایک اقتباس نقل کرتے ہیں جہاں ہر ورن اور ہر طبقہ کی ذمہ داریاں اور ان کے کام بتائے گئے ہیں ۔

  ،،اس پوری کائنات کی حفاظت اور استحکام کے لئے صاحب شان وشوکت پرش (ابتدائی دیوتا نما اساطیری انسان ) نے ان ورنوں کو جو اس کے چہرے ،ہاتھوں اور رانوں اور پیروں سے پیدا ہوئے تھے الگ الگ ذمہ داریاں سونپی،،

،،دوسروں کو تعلیم دینا ،خود تعلیم حاصل کرنا ،مذہبی ریت رسموں کوسر انجام دینا اور دوسروں کی اس سلسلے میں رہنمائی کرنا ،صدقات ،عطیات دینا اور وصول کرنا ،یہ ساری ذمہ داریاں اس نے برہمنوں کو سونپیں ۔

 لوگوں کی حفاظت کرنا ،صدقہ وخیرات کرنا ،مذہبی رسومات کو سر انجام دینا ،تعلیم حاصل کرنا اور خواہشات پر قابو رکھنا ،یہ مختصر ا ایک چھتری کی ذمہ داریاں ہیں ۔

 تعلیم حاصل کرنا ،تجارت اور سودا گری کرنا ،سود کا کاروبار کرنا ،کھیتی کرنا ،مویشی پالنا ،مذہبی رسومات ادا کرنا اور صدقہ وخیرات کرنا یہ سب ایک ویش کی ذمہ داریاں ہیں ۔

شودر کے لئے مالک نے صرف ایک ہی کام تجویز کیا ہے اور وہ یہ کہ وہ پورے خلوص سے تینوں اعلا ذاتوں کی خدمت کرے،،(منوسمرتی باب 1 اشلوک 87۔89)

 اب ہم ذیل میں معاشرہ کے اندر صرف برہمنوں کو جو مخصوص مراعات حاصل تھی،ان کے متعلق منوسمرتی کے چند اقتباسات نقل کرتے ہیں ۔

 (1) برہمن دوسرے تمام ورنوں کے لئے (پورے سماج ) گرو کا کام کرے گا۔

(2) برہمنوں کو کوئی جسمانی سزا نہیں دی جا سکتی ۔

(3) سڑکوں اور شاہراہوں پر ان کو خصوصی مراعات حاصل ہوگی ۔

(4)کسی برہمن کو دھمکانا گناہ کبیرہ اور اس کی جا ن لینا سب سے بڑا گناہ ہے ۔

 (5) کوئی کمتر ورن کا آدمی کسی برہمن پر دعوی نہیں کرسکتا ۔

 اس معاشرہ میں اس طرح کی اور بے شمار چیزیں تھیں جو صرف بر ہمنوں کو حاصل تھی اور اس معاشرہ میں شودر کی کوئی اہمیت نہیں تھی بلکہ ان ساتھ غیر انسانی سلوک کرنا ،اور ان سے جانوروں کی طرح کام لینا ایک عام بات تھی ۔

تبصرے بند ہیں۔