شامی مہاجرہ کی کرب انگیز داستان

تحریر: لنا الشامی، ترجمانی: واحد بشیر

 قریب چھ سال ہونے کو آئے ہیں جب 2011 ء میں میرے ملک میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا جس سے میری بظاہر دکھنے والی نارمل زندگی میں ہلچل پیدا ہوگئی۔ ایک نارمل طالبہ کی حیثیت سے یونیورسٹی میں پڑھائی کو ختم ہوئے بھی اب چھ سال ہو گئے ہیں ۔ میری سمجھ میں کچھ بھی نہیں آرہا ہے کہ میں کہاں جاکر زندگی گزاروں ۔ میں شام کے ایک شمالی قصبے ادلب میں ہی پلی بڑھی ہوں اور 2008ء کو حلب کی یونیورسٹی میں فن تعمیرات  (Architecture) کے شعبے میں داخلہ لے کر حلب شہر ہی میں منتقل ہو گئی۔ مجھے حلب کے ساتھ بچپن سے ہی محبت ہوگئی تھی جب میں اپنے ننھیال نانا جان سے ملنے جاتی تھی۔ میں شہر کے ان تنگ راستوں سے گزرتے ہوئے اکثر لکڑی کے بنے مکانات کے جالی دار برآمدوں کو حیرت سے دیکھتی رہتی تھی جن کو میری ماں اپنے بچپن سے ہی واقف تھی۔ یونیورسٹی زمانے کے دوران میں اکثر دوپہر گزارنے کے لئے آٹھویں صدی عیسوی میں تعمیر ہونے والی اُموی مسجد میں چلی جاتی تھی جس کاخوبصورت دبلا پتلا مینارۂ گیارہویں صدی کا تعمیر شدہ ایک قابل دید فن پارہ ہے۔

بارہویں صدی عیسوی میں تعمیر ہونے والے قلعے کی بھی میں شیدائی تھی، جس کے دروازے پردار سانپوں کے مجسموں سے سجائے گئے تھے۔ شہر کے نواح میں بازنطینی دور کا بناہواسینٹ سائمن چرچ اور بھی پرانی تاریخ کی یاد دلاتا تھا۔ ان سارے شاندار تاریخی مقامات اور فن تعمیر کے شاہکاروں کو کھوجنے کی خوشی اور مسرت کے دوران اکثر مجھے اس وقت بے کلی محسوس ہوتی تھی جب صدر بشارالاسد کی حکومت کے تحت میں اپنے ملک شام کی گھٹن زدہ فضا میں اپنے تاریک مستقبل کے بارے میں سوچتی۔ اگر آپ کسی ایسے طبقے اور قبیلے کے ساتھ تعلق نہیں رکھتے ہو جس کو صدر اور اس کے حواریوں کی سرپرستی حاصل ہے تو شام میں آپ کا مستقبل انتہائی تاریک ہے۔

  جنوری 2011ء میں حلب یونیورسٹی میں میرا تیسرا سال تھاجب ’’عرب بہار ‘‘مظاہروں کی خبریں تیونس اور مصر سے آنی شروع ہوئیں ۔ میرے اکثر دوست اس انقلاب کے اثرات کا شام میں پھیل جانا ناممکن تصور کرتے تھے ، کیونکہ ہم اسد حکومت کی بے رحمی سے خوب واقف تھے۔ ہمیں اس بات پر اپنی پرورش کے دوران ہی یقین دلایا گیا تھا کہ ہمارے ملک میں دیواروں کے بھی کان ہیں ۔ اور حکومت مخالف کوئی بھی سرگرمی پوشیدہ نہیں رہ سکتی۔ مگر اسی سال اپریل کے مہینے تک لگ بھگ سارے ملک میں اسد حکومت کے خلاف مظاہرے پھیل گئے تھے۔ گرمیوں کے ایک دن میں اپنی کچھ سہیلیوں کے ساتھ شہر کے مغربی حصے میں ایک بازار کے اندر گھوم رہی تھی۔ سارے بازار میں حکومت اور اسد مخالف بینرس آویزاں تھے۔ چند ہی لمحات بعداسد حکومت کے فوجیوں نے سارے بازار کا محاصرہ کرکے لوگوں کو گھیرنا شروع کیا۔ ہم نے بھاگنا شروع کیا۔

میں نے اپنی ایک سہیلی کے ساتھ قریب کی گلی سے ملحق ایک مکان میں چھپنے کی کوشش کی لیکن ہم دونوں کو اسد کی فوج گرفتار کر کے لے گئی۔ ہم کو ہتھکڑیاں لگا کر پہلے پولیس سٹیشن لے جایا گیا اور پھر بعد میں انٹیلی جنس ہیڈکوارٹر میں تفتیش کے لئے لے جایا گیا۔ مجھے انٹیلی جنس دفتر کا وہ منظر اب بھی یاد ہے کہ کئی مردصرف زیر جامہ پہنے ہوئے تھے اور ان سب کے ہاتھ پیچھے بندھے ہوئے تھے۔ ان کے کمر خون سے لتھڑے ہوئے تھے۔ میں نے اپنی سہیلی سے کہا کہ بازار میں موجودگی کے بارے میں تفتیش کے دوران مظاہرے میں شرکت سے بالکل لاتعلقی کا اظہار کرنااور شورش کی وجہ سے بھاگ جانے کی بات تفتیشی افسروں سے کو باور کرانا۔ رات کو ہماری آنکھوں پر پٹی باندھی گئی اور ہم کو ایک ایسے کمرے میں لے جایا گیا جو مردوں سے بھرا ہوا تھا۔ ہم سے مظاہرے کے بارے میں پوچھا گیا اور ہم نے مسلسل یہ کہا کہ ہم بازار دوپہر کا کھانا کھانے کے لئے گئے تھے۔ کچھ دیر بات ہم دونوں کو رہا کیا گیا۔

 2012ء کے موسم گرما تک مظاہروں میں بڑی شدت آگئی تھی اور حکومتی ظلم اور جبر نے بھی سخت رخ اختیار کیا تھا۔ میں ایک ماہ تک اپنی ماں کے ساتھ شام کی سرحد کے نزدیک ترکی کے ایک قصبے میں رہائش پزیر رہی۔ اپنی ماں کے منع کرنے کے باوجود میں نے واپس حلب آکر اپنی یونیورسٹی کی ڈگری مکمل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اسی سال جولائی اور اگست کے مہینوں میں فری سیرئین آرمی (Free Syrian Army)نے مشرقی حلب کے بڑے حصے پرقبضہ کر لیا۔ اس طرح باغی گروہ کے زیر انتظام حلب اور اسد حکومت کے زیر انتظام حلب کے دو نزدیکی حصوں میں نقل و حمل انتہائی مشکل کام بن گیا۔ یونیورسٹی چونکہ حلب کے مغربی حصے میں واقع ہے اور ہم مسلسل اسدحکومت کے جہازوں کو مشرقی حلب پر بم برساتے دیکھتے تھے۔ مغربی حلب کے لوگ بظاہر معمول کی مصروفیات  کے ساتھ محو تھے،لیکن مجھے بازاروں کی چہل پہل،لوگوں کا ہنسنا مسکرانا، اور ریستورانوں میں بیٹھ کر کھانا انتہائی ناگوار گزرتا تھا قریب ہی مشرقی حلب کے لوگ بموں کی برسات سے ریزہ ریزہ ہونے والے مکانات کے کھنڈروں میں بیٹھ کر مظلومیت کے دن گزار رہے تھے۔

میری یونیورسٹی مظاہروں کا مرکز بن گئی۔ کلاسز، مظاہرے اور سیکورٹی فورسز کے چھاپے یونیورسٹی ماحول کا معمول بن گئے تھے۔ میں خود اگرچہ جیل جاتے جاتے بچ گئی مگر میرے کئی طلباء ساتھیوں کو جیل جانا پڑا۔ 15جنوری 2013ء کو میں یونیورسٹی لیب میں مصروف تھی جب میری ایک ساتھی طالبہ نے کھڑکی سے کچھ گرتے دیکھا۔ کچھ ہی لمحات کے بعد میں نے اپنے اردگرد اور لیب (تجربہ گاہ)میں موجود میز پر گرد وغبار اور تباہ شدہ عمارت کا ملبہ دیکھا۔ میرے چہرے اور ہاتھوں پر گہری خراش ، جب کہ میری دو کلاس فیلوز کے سروں پر شدید زخم آئے تھے۔ اس حملے سے یونیورسٹی طلباء کے علاوہ دیگر لوگوں سمیت 80لوگ جاں بحق ہوگئے۔ یہ گویا اسد حکومت کی طرف سے یونیورسٹی میں مظاہرہ کرنے والوں کے لئے ایک وارننگ تھی۔ اس کے بعد یونیورسٹی میں مظاہروں اور احتجاج کا سلسلہ بند ہوگیا۔ اپنی گریجویشن ختم کرنے کے بعد میں ایک دن بھی حلب میں رہنا نہیں چاہتی تھی، سو میں نے اس کے فوراََ بعد ترکی کا رخ کیا اور وہاں اپنی ماں کے ساتھ رہنے لگی۔

ترکی میں قیام کے دوران میرا رابطہ شام کے ان انجینئرز سے قائم ہوا جو وہاں خیموں میں رہنے والے مہاجرین کے لئے عارضی قسم کے شیڈ تیار کرتے تھے۔ ہم نے وہاں ایسے کئی شیڈ مہاجرین کے رہنے کے لئے تیار کئے۔ دو سال بعد2015ء میں یوسف نامی ایک ماہر انجینئر ، جو کہ حلب کا رہنے والا ہے، سے میری شادی ہوگئی۔ شادی کے فوراََ بعد ہم نے رہنے اور رضاکارانہ خدمات انجام دینے کے لئے باغیوں کے زیر قبضہ مشرقی حلب کا رخ کیا۔ وہاں سکونت کے دوران ہمیشہ کہیں بھی اور کسی بھی وقت بم گرنے کا خطرہ رہتا تھا۔ اموی مسجد اور قلعہ ،جن کے ساتھ اپنے طالب علمی کے زمانے سے محبت تھی، بمباری کی وجہ سے تباہ ہوگئے تھے۔ اس وقت تک بھی مشرقی حلب میں قریب ڈھائی لاکھ لوگ رہتے تھے۔

 یوسف گو کہ ایک ماہر انجینئر ہے اور فن تعمیر کا کافی تجربہ رکھتا ہے لیکن وہ ہر طرح کی رضاکارانہ خدمات انجام دیتا تھا۔ کبھی نیم طبی عملے کے ساتھ رضاکارانہ طبی امداد اور کبھی زیر زمین قائم اسکولوں میں بچوں کو پڑھانا۔ میں خود بھی چل کر بمباری سے تباہ شدہ مکانات سے گزر کر ایک اسکول میں بچوں کو رضاکارانہ طور پر پڑھانے جاتی تھی۔ جولائی 2016ء میں اسد حکومت کی فوج نے مشرقی حلب کا محاصرہ کیا۔ اس محاصرے کے دوران گیس اور ایندھن کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہمارے گھر میں کبھی کبھار ہی کھانہ پکتا تھا۔ ہمارے نزدیک ہی بیت الفلافل نامی ایک ہوٹل پر بھی بم باری کی گئی، جہاں کبھی ہم شام کا کھانہ کھانے جاتے تھے اور وہاں کام کرنے والے کئی ملازمین جاں بحق ہوگئے۔ محاصرے کے باعث بازار اور دکانیں بند ہونا شروع ہوگئے۔ ایک ماہ کے گھیراؤ کے بعد بازاروں میں مشکل سے ہی کھانے پینے کی کوئی چیز دستیاب ہوتی تھی۔ چند ایک ریلیف تنظیموں نے پیش بندی کے بطور چاول اور دالیں محاصرے کے خدشے کو مدنظر رکھ کر ہی اسٹور کرکے رکھی تھیں ، جن سے لوگوں کو کچھ مدد ملی۔ بہت سارے اضلاع پر حکومتی فوج نے قبضہ کیا۔ ہزاروں لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر ہجرت کرگئے۔

نومبر2016ء تک مشرقی حلب میں صرف پچاس ہزار لوگ رہ گئے تھے۔ جنگی محاز دن بدن تنگ ہورہا تھا اور ہمارے گھر کے نزدیک پہنچ رہا تھا۔ ہر چیز میں جیسے ٹھہراؤ سا آگیا تھا۔ یوسف ہر روز صبح فری سیرئین آرمی کے ساتھ جاکر لڑنے کے لئے جاتا  اور میں ہر دن کو اپنی ملاقات کا آخری دن سمجھ کر اس کو رخصت کرتی تھی۔ اور ہر بمباری کے بعد جب فون پر میرا اس کے ساتھ رابطہ منقطع ہوجاتا تھا تو میرا ذہن بالکل ماؤف ہوجاتا تھا۔ محاصرے کے دوران ایک دن صبح ہم نے بس چائے ختم کی تھی کہ اچانک ایک زور دار دھماکہ ہواجس سے ہمارے گھر کے سارے دروازے اور کھڑکیاں ہل گئیں ۔ گھر میں دھماکے سے دھول جمع ہوگئی۔ میں صوفے پربیٹھی تھر تھر کانپ رہی تھی اور میرا دل بڑی تیزی کے ساتھ دھڑک رہا تھا۔ دو دن بعد ہی ہمارے گھر کے نزدیک ہی ایک دوسری عمارت پر بیرل بم گرا، جہاں حال ہی میں ایک اسپتال منتقل ہوا تھا۔ اسد اور روسی حکومت کے جنگی جہاز دانستہ طور پر چن چن کے ہسپتالوں اور طبی سہولت کے مراکز کو نشانہ بنا رہے تھے۔ ہم بار بار گھر تبدیل کررہے تھے اور اسد حکومت کے فوجی بھی آہستہ آہستہ گھیراؤ تنگ کررہے تھے۔

چند دن بعدترکی اور روس کی کوششوں سے جنگ بندی کا اعلان کیا گیا۔ حلب اب مفتوح تھا۔ اور لوگ اپنے گھر چھوڑ کر حلب سے جانے پر مجبور تھے۔ جنگ بندی معاہدے کے تحت عام شہریوں کو نکالنے کے لئے کوششیں جاری تھیں ۔ میں اور یوسف حلب سے نکلنے والے آخری قافلے میں شامل تھے۔ حلب سے ہجرت کرنے والے لوگوں کے پاس اور کوئی چارہ کار نہیں تھا، ان کے دل اپنے گھروں کو چھوڑنے کے لئے آمادہ نہیں تھے۔ مگر حلب میں ہونے والے موت کے رقص کو دیکھ کر وہ دل میں اپنی خواہشوں کو دبا کر نکلنے کے لئے مجبور تھے۔ 22دسمبر2016ء کو صبح برف نے سارے شہر کو ڈھک لیا تھا  جب ہم آخر کار حلب سے رخصت ہوئے۔ میں نے نکلتے وقت واپس مڑ کر اپنے شہر کو نہیں دیکھا، ویران اور تباہ شدہ شہر حلب۔ میں نے اپنے شہر کو اللہ حافظ بھی نہیں کہا اور نہ میں کہنا چاہتی تھی۔ شہر سے نکلتے ہوئے مجھے جیسے وقت کی رفتار میں ٹھہراؤ سا محسوس ہورہا تھا اور شہر سے باہر آکر تو میرے لئے جیسے وقت رک سا گیا۔ میرے لئے وقت حلب کی رفتار سے وابستہ تھا۔ میرا شہر دنیا کے سب سے پرانے آباد شہروں میں سے ایک ہے۔

یہاں کے لوگوں کو اپنے شہر اور اس کی ہنستی مسکراتی زندگی سے پیار تھا۔ حلب شام کا دل ہے؛ خوشی اور مسرت کا گہوارہ شہر اور اس شہر کو جبر کی بنیاد پر شکست دینا ناممکن ہے۔ مجھے اپنے لوگوں پر بھروسا ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ وہ آزادی کے حصول کے لئے راہ ڈھونڈ نکالیں گے۔ حلب میں رہتے ہوئے موت کے ساتھ میرا جب بھی کبھی سامنا ہوا مجھے اپنے مقصد اور اپنے لوگوں پر مزید یقین پیدا ہوا۔

 (نوٹ:  لنا الشامی شام کے ایک قصبے ادلب کی رہنے والی ہے اور اس نے اپنی انجینئرنگ کی تعلیم حلب یونیورسٹی سے مکمل کی ہے اور حلب میں ہی اس کی شادی بھی ہوئی ہے۔ بشارالاسد کے ہاتھوں شامی شہر حلب کی تباہی اور مسماری کے دوران موصوفہ وہاں موجود تھی۔ دسمبر 2016ء میں وہاں سے ہجرت کے بعد یہ مضمون انہوں نے تحریر کیا ہے جو مختلف عالمی اخباروں اور جریدوں میں تھوڑی سی تبدیلیوں کے ساتھ شائع ہوا ہے۔ نیویارک ٹائمز نے اس مضمون کو جنوری 2017ء میں شائع کیا۔ افادۂ عام کے لئے اس کا ترجمہ پیش خدمت ہے۔  واحد بشیر)

تبصرے بند ہیں۔