ہندو احیاء پرست اور حجاب

مرزا انور بیگ

ہندو سماج آج ہندو مذہب سے پوری طرح برگشتہ ہے۔ نہ ان کا لباس نہ رہن سہن ان کے مذہب کے مطابق ہے۔ صرف چند رسومات کو ادا کرنے سے زیادہ اور کسی بات میں مذہبیت ان میں نظر نہیں آتی۔ نہ ان کی غذا نہ معاشرت نہ معیشت سب کچھ دوسروں سے مستعار لیا ہوا ہے۔ ہندو احیاء پرست تنظیمیں اس بات کی تو کوشاں ہیں کہ مسلمان اپنے مذہبی لباس نہ پہنیں، حلال غذائیں استعمال نہ کریں لیکن انہیں اس بات کی چنداں فکر نہیں ہے کہ ان کے معاشرے میں کیا خرابیاں ہیں۔ ان کی عورتیں کس مذہب کا لباس زیب تن کیے ہوئے ہیں۔ انہیں فکر ہے تو اس بات کی کہ مسلمان عورتیں حجاب کیوں کرتی ہیں لیکن انہیں اس بات کی فکر نہیں ہے کہ ان کے مذہب میں عورتیں اوپری لباس نہیں پہن سکتی ہیں تو ضرورت اس بات کی تھی کہ وہ اپنی عورتوں کو اپنے مذہب پر لانے کی مہم چلاتے۔ یہ نہ کرتے ہوئے ان کی ساری توجہ حجاب پر مرکوز ہوگئی۔ اس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا مقصد کچھ اور ہے۔ اگر مقصد اصلاح ہوتا تو شروعات اپنے گھر سے کرتے کیونکہ اصلاح معاشرہ باہر سے نہیں بلکہ پہلے اپنے گھر سے شروع ہوتا ہے۔ ہندو مرد لنگوٹ اور دھوتی کا استعمال کرتے یا ان کو اس لباس پر لانے کی کوشش کی جاتی۔ ہندو دھرم عورتوں کی تعلیم کے خلاف بھی ہے۔ اس مبارک کام کی کوشش کی جاتی مگر یہ سب نہ ہو کر صرف حجاب کا مسئلہ اٹھانا ان کی نیت کی چغلی کھاتا ہے۔ اسی طرح حقیقی ہندو مذہب میں گوشت خوری کارِ ثواب ہے اس کی کوشش کی جاتی۔ مگر ان تمام سے چشم پوشی کرکے صرف حجاب حجاب چلانا نیت میں کھوٹ ثابت کرتا ہے۔

اس سلسلے میں ایک مضمون نظر سے گزرا اسے بھی ملاحظہ فرمائیں۔ بھارتی اداکارہ گوہر خان کو ٹی وی سیٹ پر مختصر لباس پہننے پر ایک آدمی کی جانب سے تھپڑ مارنے اور ممبئی کے ایک لا کالج میں سخت ڈریس کوڈ عائد کرنے پر طلبہ میں پائے جانے والے غم و غصے کی خبریں آئیں۔ اسی پس منظر میں فیشن مورخ تولیکاگپتا نے مختلف ادوار میں بھارت میں فیشن پر ایک نظر ڈالی ہے۔ جسم کی کس حد تک نمائش کی جا سکتی ہے اس کا ہر ملک کا اپنا ایک معیار ہوتا ہے۔ لباس میں شرم و انکساری کا ہندوستانی خیال کیے جانے والا تصور درحقیقت برطانوی راج کی دین ہے۔ اگر تین سو سال قبل مسیح کے مورے اور سنگا ادوار کے مجسموں پر نظر ڈالی جائے تو ان میں خواتین اور مرد بہت مختصر لباس پہنے ہوئے نظر آئیں گےـ ساتویں یا آٹھویں صدی کے گپتا دور کی تصاویر میں عورتوں نے صرف اپنی چھاتی اور جسم کے نچلے حصے کو ڈھانپا ہوا ہے۔

بھارت کے مختلف علاقوں اور برادریوں میں وقت کے ساتھ مختلف لباس پہننے کا رواج رہا ہے جس کا زیادہ تر انحصار موسم پر ہوتا تھا اور لوگوں نے وہی پہنا جو ان کے لیے آرام دہ تھا۔ لباس کے معاملے میں علاقائی فرق خاصا دلچسپ ہے۔ نوآبادیاتی دور سے قبل جنوبی بھارت میں بعض عورتیں جسم کے اوپری حصے کو نہیں ڈھانپتی تھیں۔

بھارت کی تاریخ میں مختلف ثقافتوں سے رابطے کی وجہ سے، جن میں رومن، یونانی،  عرب اور چینی ثقافت شامل ہے، فیشن اور خیالات تبدیل ہونے لگےـ 15ویں صدی میں مسلمان اور ہندو عورتوں کے لباس مختلف ہونا شروع ہو گئے، بعد کے ادوار میں عورتوں کے لباس پر مغلیہ سلطنت کے دور کے اثرات واضح نظر آتے ہیں۔میں نے اس دور میں لباس کے ضابطے کے بارے میں کوئی تحریر نہیں دیکھی، مگر مسلم خواتین عام طور پر خود کو اچھی طرح ڈھانپ کر رکھتی تھیں اور منقسم کپڑے پہنتی تھیں۔انہی منقسم کپڑوں سے شلوار قمیص نے جنم لیا جو آج بھارت اور پاکستان میں عملی طور پر قومی لباس ہے۔

وکٹورین دور میں بنگال میں بعض عورتیں ساڑی کے نیچے بلاؤز نہیں پہنتی تھیں اور ان کے جسم کے اوپر کا حصہ ننگا ہوتا تھا۔ چونکہ اس کو وکٹورین معاشرے میں اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا اس لیے اسی دور میں چولی کا رواج عام ہو گیا۔ ساڑی کے نیچے چولی پہننے کو عورتوں میں مقبول کرنے میں جنندا نندی نےاہم کردار ادا کیا، جو مشہور بنگالی شاعر رابندر ناتھ ٹیگور کے بھائی ستیاندراناتھ ٹیگور کی بیوی تھیں۔

اگرچہ ساڑی اور چولی پہننے کے باوجود عورت کا پیٹ ننگا ہوتا ہے مگر اس کو روایت کے مطابق سمجھا جاتا ہے۔ چولی جسے انگریزی میں بلاؤز کہا جاتا ہے، برطانوی ایجاد ہے مگر بھارت میں اسے روایتی لباس تصور کیا جاتا ہے۔ وقت کے ساتھ برطانوی اثر و رسوخ مزید بڑھ گیا اور اب ہم مختلف قسم کی چولیاں دیکھتے ہیں۔ بھارت میں برطانیہ کے برعکس لباس پہننے کے کوئی تحریری قواعد و ضوابط نہیں ہیں اور جو لوگوں نے مناسب سمجھا وہ پہنا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ عورتوں کے لیے لباس کا تعین کر کے ان کی حفاظت کر رہے ہیں۔ بھارتی خواتین اب کم از کم شہروں کی حدتک اپنی مرضی سے سب کچھ کرنے میں آزاد ہیں۔

پھر بھی ہم دیکھتے ہیں کہ عورتوں کو اپنی مرضی کا لباس پہننے پر برا بھلا کہا جاتا ہے، اور کچھ لوگ لباس اور ریپ کے درمیان تعلق جوڑنے کی کوشش کر تے ہیں۔ یہ لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ ریپ کی وجہ عورت کا لباس نہیں بلکہ یہ بعض مردوں کی غلط سوچ کا نتیجہ ہے۔ ہمارا لباس ہماری شناخت ہے، لیکن بعض چیزیں جنھیں ہم ہندوستانی روایت سمجھتے ہیں وہ بالکل بھی ہندوستانی نہیں ہیں۔”

اس مضمون کا نچوڑ اس کا آخری جملہ ہے ” لیکن بعض چیزیں جنہیں ہم ہندوستانی روایت سمجھتے ہیں وہ بالکل بھی ہندوستانی نہیں ہیں-"

یہ تولیکا گپتا کے خیالات ہیں جس میں بہت سی باتوں سے اختلاف کی کافی گنجائش موجود ہے لیکن اس سے کم از کم اتنا تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہندو مرد و عورتیں آج جو لباس تن زیب کر رہی ہیں وہ ہندو مذہب سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اس لئے ہندو احیاء پرستوں کو پہلے اپنے گھر کی خبر لینی چاہیے نہ کہ وہ مسلمانوں کے پیچھے پڑیں۔ لیکن حقیقت کچھ اور ہے جس کا اوپر ذکر ہوا ہے۔

ہمارے دانشور اس بات پر زور دینے کے بجائے کہ اسلام میں حجاب کتنا ضروری ہے اور اس کے کیا کیا فوائد ہیں وہ اس بات پر زور دیں کہ ہندو مذہب میں لباس کا کیا مسئلہ ہے اور اس پر وہ خود کتنا عمل پیرا ہیں۔ ہم مدافعانہ رویہ چھوڑ کر ان پر جارحانہ انداز اپنائیں اور انہیں احساس کمتری میں مبتلا کرکے انہیں مدافعت پر آمادہ کر دیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔