ہندو مذہب نہیں تو بحث کیسی؟

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

پچھلے کچھ عرصہ سے ہندو یا ہندوتو کسی نہ کسی بہانے گفتگو کا حصہ رہا ہے۔ اس بار یوگی آدتیہ ناتھ کے بیان سے یہ بحث شروع ہوئی۔ انہیں ہندوتو کا چہرہ جو مانا جاتا ہے۔ اس سے قبل موہن بھاگوت کے سب کو ہندو لکھنے کے مشورے پر یہ معاملہ سرخیوں میں آیا تھا۔ سندھو گھاٹی تہذیب کی روشنی میں سنگھ بھارت کے سبھی باشندوں کو ہندو مانتا ہے۔ سپریم کورٹ نے ہندو کی تعریف’’طرز زندگی‘‘ کی ہے۔ بھارت کا آئین ہندو اسے کہتا ہے جو مسلمان، عیسائی، یہودی اور پارسی نہ ہو۔اس لئے وہ سبھی لوگ ہندو کہلاتے ہیں جو مورتیوں کی پوجا کرتے یانہ کرتے ہوں ۔ نراکار بھگوان کے اوپاسک یا ناستک ہوں ۔ ہندو ایکٹ میں رسم ورواج کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ کیوں کہ شادی بیاہ، رہن سہن، کھان پان اور رشتے ناطے سب روایتوں کے مطابق ہوتے ہیں ۔

دنیا میں ندیوں کے کنارے یا آس پاس انسانوں کے بسنے سے تہذیبیں وجود میں آئیں ۔ ندی کے قرب وجوار میں بسے علاقوں کو ندی کے نام سے پکارے جانے کی مثالیں بھی موجود ہیں ۔ سندھ ندی بھارت کے لوگوں کا سندھو یا ہندو نام رکھے جانے کی وجہ بنی۔ یہ ندی مغرب میں واقع ہے۔ زیادہ تر باہر سے آنے والے اسی ندی کو عبور کرکے بھارت میں داخل ہوئے۔ فارسی زبان بولنے والوں نے سندھو کو ہندو بنادیا۔ کیوں کہ فارسی میں ’’دھ‘‘ لفظ نہیں ہوتا۔ وہ ’’دھ‘‘ کو’’د‘‘ استعمال کرتے ہیں ۔ یہ ایک جغرافیائی اصطلاح تھی جس نے نہ جانے کب مذہب کی شکل اختیار کرلی۔ یہاں دیوی دیوتائوں کی پوجا ہوتی تھی۔ روایتی طورپر سبھی ویدک تہذیب یا دھرم کو ماننے والے تھے۔ انہوں نے اپنے دھرم کا کوئی نام نہیں رکھا تھا۔ ویدک تہذیب نے ہی مذہب کی جگہ لے لی۔ گوتم بدھ اور مہاویر جین نے ہندو دھرم سے نہیں ویدک مذہب سے ہی بغاوت کی تھی۔ کیوں کہ اس مذہب کے ماننے والے ذات، پات، چھواچھوت کے پیروکار تھے۔جنت، دوزخ میں یقین رکھتے۔ مورتیوں کی پوجا کرتے اور گوشت کھاتے تھے۔ دیو کی نندن کرشن نے ارجن کو دیئے اپدیشوں میں ورن واد کے تعلق سے پائی جانے والی غلط سوچ کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا پورا زور کرم پر ہے۔ گوتم بدھ اور مہاویر جین نے بھی برابری اور اہنسا پر زور دیا۔بعد میں سکھ پنتھ اور آریہ سماج نے بھی سماجی برابری کو اہمیت دی، جنہوں نے بودھ، جین اور سکھ مذہب کو نہیں اپنایا وہ اپنے آپ کو سناتنی یا سناتن دھرمی کہنے لگے۔

بھارت کی قدیم تاریخ پر نظر ڈالیں تو دو لفظوں کا استعمال بار بار نظرآتا ہے، آریہ  اور  اسُر۔ ایسا لگتا ہے کہ ایران کے راستے آئے لوگوں کو یہاں کے اصل باشندوں نے (اری)یعنی اپنا دشمن کہا ہوگا۔ اس اری سے ہی یہ آریہ کہلانے لگے اور انہوں نے بھی اپنے آپ کو آریہ مان لیا۔ مانا جاتا ہے کہ زرخیز زمین اور اچھی آب وہوا کی تلاش میں ہی آریوں نے ہمالیہ کو پار کیا ہوگا۔ انہوں نے یہاں بسنے کیلئے کہیں مقامی باشندوں سے جنگ کی تو کہیں ان سے سمجھوتہ۔ آریوں نے جب ملک کے شمالی حصہ پر قبضہ کرلیا تو اس کا نام آریہ ورت رکھا۔آج ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو آریوں کو بھارت کا اصل باشندہ مانتا ہے جبکہ تاریخ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان کی ملک کے جنوبی حصہ میں دسترس نہیں تھی۔ا یک تو بیچ میں وندھیاچل کاپہاڑ تھا، دوسرے وہاں کی آب وہوا گرم تھی، تیسرا انہیں شمال میں عیش وآرام کی کوئی کمی نہ تھی،وہ خوشحال تھے۔یہ زمانہ ملک گیری کا نہیں تھا لوگ لالچ سے نہیں ضرورت یا مجبوری میں ہی کوچ کرتے تھے۔ کرشن نے گیتا میں اسے آریہ روت کے نام سے ہی پکارا، بعد میں انہوں نے اسے بھارت نام دیا۔

دوہزار سال کی تاریخ میں ’ہندو‘ نام سے نہ کوئی مذہب ملتا ہے نہ ہی کسی شخص کی پہچان اس لفظ کے ساتھ جڑی ہوئی۔ جبکہ بودھ، جین، سکھ روایتی طورپر ویدک دھرم کا حصہ تھے۔ باہر کے لوگوں کے  ہمیں ہندوکہہ کر پکارنے پر ہم نے اپنے آپ کو ہندو کہنا شروع کردیا۔یہ ہماری ویدک تہذیب  ، اپنشدوں کے چن تن ، اسمرتیو ں اور پرانوں کی تعلیمات کو بھلا کر اپنے آپ کو ہندو مان لینا  بھارت کی قدیم تہذیب کا خاتمہ تھا۔ ویدک یا سناتن دھرم کے ساتھ لوگوں کا مضبوط جڑائو نہ کل تھا نہ آج ہے۔ مسلمانوں اور عیسائیوں کے اپنے مذہب کے ساتھ گہرے تعلق کو دیکھتے ہوئے کچھ سناتن دھرمی دانشوروں نے غیر مسلم، غیر عیسائی،غیر یہودی اور غیر پارسیوں کو ہندو لفظ کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی۔مسلم دورحکومت کے زوال کے ساتھ اس میں تیزی آئی۔ یہ لفظ تہذیبی کم سیاسی مقصد کیلئے زیادہ استعمال ہونے لگا۔ سیاسی طاقت حاصل کرنے کیلئے من گھڑت اور جھوٹی تاویلیں کی گئیں ۔اوراسے ایک مذہب کی شکل دینے کی کوشش کی گئی ۔ اس کو آگے بڑھانے میں راجہ رام موہن رائے، پنڈت مدن موہن مالویہ، وویکانند، شیاما پرساد مکھرجی وغیرہ پیش پیش رہے۔ گاندھی جی کی سوراج اور رام راج کی تحریکوں سے بھی اس کو تقویت ملی۔ لیکن تمام عوام کو’’ہندو‘‘ چھاتے کے نیچے لانے کیلئے کسی مضبوط سہارے کی ضرورت تھی۔

انگریزوں کے بنگال کو تقسیم کئے جانے کے فیصلے کی ملک میں زبردست مخالفت ہوئی۔ ملک کی عوام نے سرکار کے خلاف اتنے زبردست مظاہرے کئے کہ انگریز گھبرا گئے۔ ان مظاہروں کی خوبی یہ تھی کہ ایک ہی جلوس میں ایک بار اللہ اکبر کا نعرہ لگتا تو دوسری بار ہر ہر مہادیو کا۔ انگریزوں نے نہ صرف بنگال کی تقسیم کا فیصلہ واپس لیا بلکہ اپنی راجدھانی کوکلکتہ سے دلی منتقل کرلیا۔ ان کی سمجھ میں آگیا کہ متحد بھارت پر وہ زیادہ دیر حکومت نہیں کرسکتے لہٰذا انہوں نے عوام کے درمیان درار پیدا کرنے کا منصوبہ بنایا۔ انگریزوں نے ایک طرف ہندو (ہندوتو) فکر کی پشت پناہی کی تو دوسری طرف مسلمانوں میں سے کچھ لوگوں کو کھڑا کرکے اس کی مخالفت کروائی گئی۔ اس وقت ملک کا ڈھانچہ کچھ اس طرح تھا کہ جہاں غیر مسلموں کی تعداد زیادہ تھی اس ریاست کا ذمہ دار کوئی مسلمان تھا۔ ریاست کے اہم شعبوں پر غیر مسلم فائز تھے اور جہاں مسلمانوں کی تعداد زیادہ تھی وہاں کا راجہ ہندو۔ راجہ کے دربار میں مسلمانوں کے پاس بڑی بڑی ذمہ داریاں تھیں ۔ دیش کی اس خوبصورتی، خوبی اور تہذیبی ورثہ کو انگریزوں نے نفرت  میں بدل دیا۔ ساتھ ہی جن لوگوں کی پشت پناہی کی گئی ان سے ملک کے مجاہدین آزادی کی مخبری بھی کرائی گئی۔

مذہبی شدت پسندی سے حالات اتنے کشیدہ ہوئے کہ ملک تقسیم ہوگیا۔ بھارت سے الگ ہوئے حصہ میں مذہب کی حکومت قائم ہوئی لیکن بھارت نے ہندوتو کے بجائے جمہوریت کو اپنایا۔ اگراس وقت بھارت نے ہندوراشٹر بننے کا فیصلہ کیا ہوتا تو شاید ملک کی کئی ریاستیں ہمارے ساتھ نہ آتیں ۔ ملک کا دستور بنانے والوں نے سماجی نفرت اور نابرابری کو بھی دھیان میں رکھا اور آئین میں سب کے حقوق  محفوظ کئے گئے۔ کسی طرح کی غلط فہمی نہ رہے اس کیلئے ملک کا نام ہندوستان کے بجائے آئین میں بھارت لکھا گیا۔جن ممالک میں مذہب کی بنیاد پر سرکاریں چل رہی ہیں ان کی حالت سے آج ہم واقف ہیں ۔ نیپال جیسی حکومت کو جمہوری نظام اپنانے کیلئے مجبور ہونا پڑا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جمہوریت میں لوگوں کی تعداد اہم ہوتی ہے،جس کے ساتھ زیادہ تعداد ہوگی اسی کی سرکار بنے گی۔ جمہوریت قائم رکھنے کیلئے جمہوری  اداروں میں توازن ضروری ہے ورنہ لوک تنتر بھیڑ تنتر میں بدل جاتا ہے۔ سرکاریں بھیڑکوخوش اور مطمئن کرنے کیلئے کام کرنے لگتی ہیں ۔

ہندو یا ہندوتو کا استعمال،بحث صرف ملک کے کم سمجھ بے پڑھے لکھے عوام کے جذبات کو بھڑکا کریاگمراہ کرکے سیاسی مفاد کے لئے کسی کے حق میں یا کسی کے خلاف ماحول بنانے کیلئے کیا جاتا رہا ہے۔ جنہیں ہندو کہہ کر ہندوتو کی دہائی دی جاتی ہے ان میں سے بہت سے لوگ قوم واد کے نظریہ سے اتفاق نہیں رکھتے۔ دین دیال اپادھیائے ہندوتو کو راشٹر واد کی بنیاد مانتے تھے، ملک نے ہمیشہ اس سوچ کو خارج کیا ورنہ ملک کی تصویر کچھ اور ہوتی۔ موہن بھاگوت نے مسلم دانشوروں کے بیچ اس بات کو مانا تھا کہ ہندو کوئی مذہب نہیں بلکہ ہماری تہذیبی پہنچان ہے۔اگر اسے کسی مذہب یا کسی خاص طبقہ سے نہ جوڑا گیا ہوتا تو شاید اپنے آپ کو ہندو کہنے میں کسی کوا عتراض نہ ہوتا۔ آئین نے بھارتیہ کہا ہے تو’ہندو‘کہنے پر اصرار کیوں ؟آزاد ملک میں اتنا حق تو ہونا ہی چاہئے کہ انسان یہ طے کرسکے کہ اسے کس نام سے جانا جائے۔ ہندی ہیں ہم وطن ہیں کیا قومی اتحاد کیلئے اتنا کافی نہیں ہے۔

تبصرے بند ہیں۔