ہندو پاکستان؟

ڈاکٹرعابد الرحمن

آزادی سے پہلے ہی وطن عزیز کو ہندو راشٹر بنانے کی باتیں کہی جارہی تھیں ،ہندو احیا کی تحریکیں بھی شروع ہو چکی تھیں ،ہندوتوا کی اصطلاح بھی گھڑی جا چکی تھی اور ہندوراشٹر میں مسلمانوں کی حیثیت پر بھی کافی باتیں ہو چکی تھیں ،لیکن آزادی کے بعد ملک کی تقسیم کی گئی اور مسلمانوں کو ایک الگ ملک دے دیا گیا ، شاید ملک کی یہ تقسیم ہندو راشٹر کے قیام کے لئے ہی کی گئی تھی لیکن اس تقسیم کی ذمہ داری مسلمانوں کے سر ڈالنے کے لئے یہاں سے ایک مسلمان مسلمان کو پاکستان نہیں بھیجا گیا بلکہ انہیں اپنی مرضی سے اپنا وطن چننے کی آزادی دی گئی جس کی وجہ سے آج ملک میں بسنے والے مسلمانوں نے اپنی مرضی خوشی اور پسند سے انڈیا کو اپنا مادر وطن چنا اور اس پر نہ صرف فخر جتایا بلکہ پاکستان کی مخالفت بھی کی ،یعنی آج ہندوستان میں بسنے والے مسلمان ہندوؤں سے زیادہ دیش بھکت ہیں کہ وہ بحالت مجبوری یہاں نہیں رہے بلکہ انہوں نے اپنے مذہب کے نام پربنے ایک الگ ملک پاکستان کے مقابلہ آزادانہ طور پر اپنی پسند اور محبت کے تحت انڈیا کو اپنا وطن چنا۔

آزادی کے بعد آئینی طور پر ملک کو ہندو راشٹر کی بجائے سیکولر مملکت بنایا گیا جس میں تمام مذاہب کے ماننے والوں کو اپنے مذاہب پر چلنے اور ان کی ترویج و اشاعت کی آزادی دی گئی ساتھ ہی ان کے کچھ حقوق بھی محفوظ کر دئے گئے اور یہی بات ہندو راشٹر کے متوالوں کے لئے آکسیجن بن گئی جس کے ذریعہ وہ ابھی تک زندہ ہیںبلکہ اسی کے ذریعہ روز بروز طاقتور ہو کر آج پورے ملک پر غالب آ گئے ہیں۔ملک آئینی طور پر تو ہندو راشٹر نہ بن سکا لیکن عملی طور پر اسے ہندو راشٹر بنانے کی کوششیں انتہائی منظم طریقہ سے باقاعدہ اور ترتیب وار کی گئیں،جس میں پہلے لٹریچر وغیرہ کے ذریعہ عوام کی ذہن سازی کر کے انہیں اپنا ہم نوا بنانے کی کوشش کی گئی پھر زبانی اشتعال انگیزیوں کے ذریعہ انہیں اکسانے اور متحرک کر نے کی کوشش کی گئی اس دوران مسلمانوں کو ملک کا اور ہندو مذہب کا دشمن اور حملہ آور اور ہندوؤں کی زمینوں اور عبادت گاہوں پر قابض بنا کر پیش کیا گیا ،بابری مسجد کی سیاست اورمسلمانوں کی دوسری مساجد پر دعویداری دراصل ہندوراشٹر کے قیام کی کوششوں کا ہی حصہ ہیں جس کے ذریعہ ہندوؤں کے دلوں میںمسلمانوں کے تئیں نفرت بھر دی گئی اور انہیں مسلمانوں کے خلاف فسادات کے لئے اکسا یا گیا اور پھر فسادات کے ذریعہ مسلمانوں کو خوف و ہراس کے احساس میں مبتلاء رکھنے کی کامیاب کوشش کی گئی۔

ہندو راشٹر کے متوالوں کے ان اقدامات پرتمام وزراء اعظم اور ان کی حکومتیں خاموش رہیں بلکہ اپنے مفادات کے حصول کے لئے الخاموش نیم رضا کی صورت ان کی پذیرائی کر کے انہیںمزید پھلنے پھولنے کے مواقع بھی فراہم کرتی رہیں۔ جس کی وجہ سے ملک کی اکثریتی عوام کے اذہان اس قدر مسموم ہو گئے کہ وہ معمولی معمولی باتوںکو مذہب کا رنگ دے کر خود ہی بغیر کسی اکساہٹ اور تحریک کے تشدد پر اتر آتی ہیں۔ اب بی جے پی کے بر سر اقتدار آ نے کے بعد ہندو راشٹر کے قیام کی عملی کوششوں میںبے تحاشہ اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے ۔مودی سر کار آ نے کے بعد سے لو جہاد ، انٹی رومیو اسکویڈس ،گھر واپسی ،گؤ رکشا، اور دھرم سیناؤں کے نام مسلمانوں کو ’قومی دھارے ‘یا مجوزہ ہندو راشٹر سے الگ کر نے کی بھر پور کوشش کی گئی ،گائے کے نام پر پر تشدد کارروائیوں کا سلسلہ روز بروز دراز ہورہا ہے اور ہر نئی کارروائی پہلے کے مقابلہ شدید تر ہوتی جارہی ہے اور اس طرح کی وارداتیں کر نے والے اب اتنے ڈھیٹ ہو گئے ہیں کہ انہیں قانون و انصاف کا ذرہ برابر ڈر نہیں رہا ، بلکہ شاید وہ تو یہ بھی سمجھنے لگے ہیں کہ ان کے سامنے آئین قانون اور عدلیہ کی کوئی حیثیت نہیںہے بلکہ مسلمانوں اور دوسری مذہبی اقلیتیوں کے خلاف ان کی دہشت گردی میں قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی ان کے ساتھ رہیں گے جواگر ان کو قانون کے شکنجے سے بچا نہیں پائیں گے تو کم از کم اس میں نرمی تو برتیں گے ہی ۔

چونکہ ہندوراشٹر کے قیام کی کوششیں کر نے والے بی جے پی کے ہی نظریاتی بھائی بند ہیں اس لئے ان کی دہشت گردی کے خلاف کھل کر اور عملی طور پر سامنے آنا پچھلی حکوتوں سے زیادہ اس کی ذمہ داری ہے، لیکن حکومت اپنے پیشروؤں سے بھی زیادہ خاموش ہے اگر بولتی ہے تو اسے عملی جامہ نہیں پہناتی جس کی وجہ سے حالات اس انتہا تک پہنچ گئے ہیں کہ اب ہندو مسلم پرابلم کے حل بالفاظ دیگر ہندوراشٹر کے قیام کے لئے خانہ جنگی کی باتیں بھی ہونے لگی ہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح کی پر تشدد کارروائیوں یا خانہ جنگی کے ذریعہ قائم کیا گیا ہندو راشٹر کیا خوداپنے ہندوشہریوں کو امن ،پر سکون ماحول ،ظلم و ستم سے نجات اور اپنے من پسند طریقہ سے مذہب پر چلنے کی آزادی فراہم کرے گا؟اس ہندوراشٹر میں امن کی حالت کیا ہوگی اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ حال ہی میں سناتن سنستھا نامی ہندو تنظیم کی ایک ذیلی تنظیم ہندو جن جاگروتی سمیتی کے ذریعہ گوا میں منعقد کئے گئے چھٹے آل انڈیا ہندو کنوینشن میں انڈیا اور نیپال کو ہندو راشٹر ڈکلیئر کر نے کی مانگ کی گئی۔

اب ذرا سناتن سنستھا تنظیم کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس تنظیم پر اپنے نظریات کے خلاف کام کر نے والے ہندوؤں کے خلاف بھی پر تشدد کارروائیوں میں ملوث ہونے کے الزامات لگ چکے ہیں ۔اس کے ممبران کو تھانے اور واشی کے ان آڈیٹوریم میں بلاسٹ کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھاجن میں چلنے والے ڈرامے یا شو ان کے مطابق ہندو مخالف تھے ۔ان ملزمین میں سے کچھ تو عدلیہ کے ذریعہ مجرم بھی ثابت ہوئے ۔اسی طرح ہندو دھرم کے مصلحین اور اندھے اعتقاد کے خلاف کام کر نے والے ہندو دانشوروں ڈاکٹر نریندر دابھولکر ،گووند پنسارے اور ایم ایم کلبرگی کے قتل کا الزام بھی اسی تنظیم کے ممبران پر ہے ۔یعنی اس انتہا پسندی اوردہشت گردی کے ذریعہ جو ہندو راشٹر قائم ہو گا وہ خود ہندوؤں کے لئے بھی عذاب سے کم نہ ہوگا۔     ویسے بھی انتہا پسندی چاہے کسی قسم کی ہو ،اس کی خاص بات یہی ہے کہ جب اس کو اکثریت کی حمایت مل جاتی ہے تو وہ اپنی مخالفت کرنے والے ہر کس و ناکس کو ختم کر دینا چاہتی ہے چاہے وہ کوئی ہو ۔

جب بااقتدار لوگ عوام کے مذہبی یا کسی بھی نظریاتی جذبات کو اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کرتے ہیں اور ان جذبات کو انتہا پسندی تک لے جانے والی تنظیموں کو سہولیات بہم پہنچاتے ہیں تو اس انتہا پسندی میں اضافہ ہوتا ہے اور جب یہ انتہا پسندی عوام کے بڑے حصہ کی حمایت حاصل کرلیتی ہے تو پھر اپنے سر پرستوں کو بھی نہیں چھوڑتی انھیںبھی راستے سے ہٹانے میں نہیں ہچکچاتی جنھوں نے اس کی آبیاری کی۔ ہمارے سامنے پاکستان اس کی زندہ مثال ہے۔ پاکستانی حکومتوں نے اپنے سیاسی اور سماجی مفادات کے لئے اس انتہا پسندی کی آبیاری کی اور پورے پاکستان کو اس کا شکاربنا ڈالا ۔

اب ہمارے یہاں بھی سرکار اسی انتہا پسندی کی آبیاری کر تی نظر آ رہی ہے اور ہندو عوام کا بڑا طبقہ نہ صرف اس پر خاموش ہے بلکہ اس کا حامی بھی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ وطن عزیز بھی ایک ہندو پاکستان بننے جارہا ہے اور خدا نخواستہ سو بار خدا نخواستہ اگر ایسا ہو گیا تو مسلمان تو چھوڑئے یہ ہندوؤں کے لئے بھی وہی ہوگا جو آج خود مسلمانوں کے لئے پاکستان ہو گیا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔