جدید یورپ کا ارتقاء اور اسلام پر جدید مطالعات کا آغاز

محمد اشفاق عالم ندوی

 ابتداء آفرینش ہی سے حق و باطل کی کشمکش رہی ہے اور ہر دور میں حق کو باطل کے تیر وں کا نشانہ بننا پڑا ہے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ اس شمع اسلام کو گل کرنے والی ہزاروں آندھیاں اٹھی اور کاروان حق کی اس ناؤ کو ڈبو دینے کی ہزاروں کوششیں ہوئیں لیکن ہر طوفان اس چٹان سے ٹکرا کر اپنا رخ پھیر لینے پر مجبور ہوگیا۔اسلامی تاریخ نے وہ بد ترین دن بھی دیکھا جس دن اسلام کے بڑھتے قدم کو روکنے کے لئے دار الندو میں آخری رسول کے قتل کا منصوبہ بنایا گیا تھا لیکن خدائی قانون کی دفعات اس کے بالکل برعکس تھیں قرآن کریم میں اس کا قانون یہ بتایا گیا ہے ۔ جاء الحق و زھق الباطل ان الباطل کان زھوقا ۔اس کے بعد مدینہ کے یہود و منافقین نے اشاعت اسلام کے راستے میں بند باندھنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن حق پھیلنے کے لئے ہی کرہ ارضی پر جلو اگر ہواتھااور پھیلتا ہی رہا اور ایک صدی سے بھی کم عرصہ میں اس نے دنیا کے دو بر اعظموں ایشیاو افریقہ کو اپنا زیر نگیں بنالیا اور بر اعظم یورپ کے دروازوں پر دستک دینا شروع کردی جس سے گھبرا کر یہودیت و نصرانیت مل کر اسلام کے راستے میں مزاحم ہوئے لیکن شکست ان کا مقدر بنی، چنانچہ میدان کارزار میں شکست خوردگی کے بعد انہوں نے تلوار چھوڑ کر قلم کا سہارا لیا اور اسلام کی شکل مسخ کرکے اسے جدید دنیا کے سامنے پیش کیا ۔اسکی شبیہ بگاڑنے کے لئے انہوں نے اپنی ریسرچ اور تحقیقات کی آڑ میں سیدھے سادے اسلام کو ایک خوشنما زہر بنادیا جس کا ہلکا سا اثر بھی ایک مسلمان کو اس کے دین پر باقی نہ رہنے دے لیکن اس میدان میں بھی ان کا مقابلہ ایسے سرفرشوں سے ہوا جنہوں نے اس زہر کے لئے تریاق تلاش کرلیا ۔اور اس بار بھی شکست ان کامقدر قرار پائی ۔اس مختصر سے مقالے میں ہم جدید یورپ کے عروج و ارتقاء اور اس کے اسباب و وجوہات اور پھر اسلام کی شبیہ کو مسخ کردینے کی جو کوششیں ہوئیں اس پر بھر پور روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے۔

تاریخ یورپ کے ادوار

 آٹھویں صدی قبل مسیح کے بعد تاریخ یورپ کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

1۔دور  قدیم:۔جو آٹھویں صدی قبل مسیح سے پانچویں صدی عیسوی تک پھیلا ہوا ہے ۔یہی وہ زمانہ ہے جب رومہ کی عظیم سلطنت قائم ہوئی تھی اور یونان سے علوم و معارف کے دریا بہہ نکلے تھے ۔

2۔قرون وسطی :۔ یہ وہ زمانہ ہے جو زوال رومہ  476 ء سے شروع ہوکر یورپ کی نشأۃ ثانیہ یعنی سولہویں صدی عیسوی پر ختم ہوتا ہے۔

 3۔دور جدید:۔جو سولہویں صدی عیسوی سے شروع ہوا ہے ۔

قرون وسطی میں یورپ کی اخلاقی ،معاشی، معاشرتی اور علمی حالت:

 تاریخ بتاتی ہے کہ یورپ مختلف وحشی قبائل کا مسکن تھا ۔بحیرۂ اسود کے شمالی اور دریائے ڈنیپر (deniper) کے دونوں طرف گاتھ آباد تھے ،موجودہ پولینڈ ،رومانیہ ،اور ہنگری وغیرہ کے مقام پر ہنز رہتے تھے ،جرمنی تین خونخوار قبائل یعنی دینڈلز ،سیکسنزاور اینگلز کا وطن تھا ،فرانس میں فرانک اور برطانیہ میں سلٹ (CELTS ) رہتے تھے اور باقی حصوں میں بھی اجڈ قبائل آباد تھے۔جو کہ صدیوں تک وحشت و بربریت اور تہ بتہ جہالت میں ڈوبے ہوئے تھے ،تہذیب و اخلاق کا کوئی تصور ہی نہیں تھا۔

  ڈاکٹر ڈریپر (1882ء) لکھتے ہیں کہ قرون وسطی میں یورپ کا بیشتر حصہ لق و دق بیا باں یا بے راہ جنگل تھا۔کہیں کہیں راہبوں کی خانقاہیں اور چھوٹی چھوٹی بستیاں آباد تھیں جابجا دلدلیں اور غلیظ جوہڑ تھے ۔لندن اور پیرس جیسے شہر وں میں لکڑی کے ایسے مکانات تھے جن کی چھتیں گھاس کی تھیں ۔ آسودہ حال امراء فرش پر گھاس بچھاتے اور بھینس کے سینگ میں شراب ڈال کرپیتے تھے۔صفائی کا کوئی انتظام نہیں تھا ،گلیوں میں فضلے کے ڈھیر لگے رہتے تھے ۔روشنی کا کوئی انتظام نہیں تھا ۔عوام ایک ہی لباس سالہا سال تک پہنتے تھے جسے دھوتے نہیں تھے نتیجہ وہ چرکین ،میلا اور بدبودار ہوجاتا تھا ۔

 فقر و فاقہ کا یہ عالم تھا کہ لوگ سبزیاں ،پتے اور درختوں کی چھالیں ابال کر کھالیتے تھے ۔متوسط طبقہ کے یہاں ہفتے میں ایک مرتبہ گوشت عیاشی سمجھا جاتا تھا ۔ مذہبی طور پر عیسائیت کا غلبہ تھا چنانچہ ان کے پادری فریب اور جعلسازی سے کام لیتے تھے ۔پوپ جنت کی راہداری اور گناہ کرنے کی پرمٹ (اجازت نامہ) فروخت کرتے تھے۔علماء عشائے ربانی ،کرامات اولیاء ،رہبانیت اور تصرفات روح کی بحثوں میں الجھے ہوئے تھے ۔

دوسری طرف ساتویں صدی عیسوی میں اسلام سرزمین عرب میں آیا تو عربوں کو علم وہنر کی کنجی مل گئی جس کے ذریعہ انہوں نے نئے نئے علوم و فنون سے دنیا کو متعارف کرایا ۔فتوحات کا سلسلہ بھی بڑھا اور مسلمان ایشیا سے نکل کر افریقہ اور پھر یورپ میں داخل ہوگئے اور اسپین سے لیکر فرانس کے حد ود تک پہونچ گئے ۔اور اسپین میں مسلمانوں کی ایک شاندار حکومت قائم ہوگئی ۔یہ حکومت بہت جلد علم وفن کا مرکز بن گئی۔صنعت و حرفت ، تجارت و معیشت میں دنیا کی ترقی یافتہ قوموں سے نظریں ملانے لگی ۔دوسرے ممالک سے لوگ جوق در جوق علم کی تلاش میں وہاں آنے لگے چنانچہ جربرٹ دی اورلیاک (Jerbert de Oraliac)  پہلا شخص تھا جس نے خفیہ طور پر اندلس جاکر علوم اسلامیہ حاصل کی اور اشبیلہ اور قرطبہ کے اساتذہ فن سے کسب فیض کیا اور اندلس سے واپسی کے بعد اس کو سلوسٹردوم (999ء۔1003ء) کے نام سے روم کے کلیسا کا پوپ منتخب کیاگیا ۔

 ڈاکٹر مصطفی سباعی لکھتے ہیں کہ اس کے بعد مغرب کے دیگر فضلاء اور اہل علم اندلس گئے اور وہاں مسلمانوں اور عربوں کے علوم و فنون سے استفادہ کیا اور واپس آکر اپنے اپنے وطن میں اسلامی تہذیب و ثقافت کی اشاعت کی ،عربی زبان کی تعلیم کے بہت سے ادارے قائم کئے ۔‘‘

  طلیطلہ کے اسقف اعظم ریمنڈلل نے بعض عربی کتب کا لاتینی زبان میں ترجمہ کیا ۔اٹلی نزاد جیرارڈ دی کریمون (Gerard de cermona) (1114ء۔1187 ء) نے طلیطلہ کا سفر کیا ۔وہاں عربی زبان سیکھی اور اپنے وطن واپس آ کر فلسفہ ،طب ،فلکیات اور دیگر موضوعات پر 87 کتابوں کا ترجمہ کیا۔

 یہ سب انفرادی علمی کاوشیں تھیں کیونکہ کلیسا نے جس کی اب تک بالا دستی قائم تھی اور علم پر اس کا قبضہ تھا عام طور پر علم حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی تھی یہی نہیں بلکہ متعدد اہل علم  پاپاوں اور پادریوں کے علم دشمنی کی وجہ سے موت کے گھاٹ تار دیئے گئے ۔کوپر نیک (1473ء۔1543) گلیلیو گلیلی (1564ء۔1642ء) اس کی زندہ مثال ہیں ۔

 لیکن صلیبی جنگوں میں شکست فاش کے بعد لوئی نہم کی وصیت کے مطابق بعض پادریوں نے پاپائے اعظم سے ملاقات کی اور ان کے سامنے مسلمانوں کو زیر کرنے اور ان کو شکست دینے کے لیے لوئی نہم کا فارمولہ پیش کیا جس میں اس نے مشورہ دیا تھا کہ جنگ کے بجائے علم کے راستے کو اختیار کیا جائے اور مسلمانوں کی طاقت اور ان کے جذبے ایثار و قربانی کے اسباب و عوامل کا پتہ لگا یا جائے اور پھر ان کی قوت و طاقت کے سرچشمہ کو خشک کردیا جائے۔چنانچہ ان پادریوں نے پوپ کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ کلیسا علم حاصل کرنے کی عام اجازت دے اور اس کے لئے ادارے قائم کرے اور اس کے ذریعہ عیسائیت کی تبلیغ و اشاعت کی جائے۔

 یہ منصوبہ پیش کرنے والوں میں سر فہرست روجربیکن اور ریمنڈلل تھے اس کے بعد 1312ء میں ویانا کے کلیسا نے علم حاصل کرنے خصوصا اسلامی علوم وفنون اور عربی زبان سیکھنے کی اجازت دیدی اور فوری طور پر اس مقصد کے لئے پیرس ،آکسفورڈ ،پولینڈ کے تعلیمی اداروں میں عربی زبان و ادب اور مشرقی علوم کے شعبے کئے گئے اور عربی کتابوں کے انگریزی زبان میں ترجمہ ہوئے ۔ایک تحقیق کے مطابق پندرہوں صدی عیسوی تک تقریبا چار سو کتابیں عربی سے انگریزی اور یورپی زبانوں میں منتقل ہوگئیں ۔اور تقریبا چھ صدیوں تک عربوں کی کتابیں یورپی یونیورسٹیوں میں نصاب کی بنیاد رہیں اور یورپ ان کو اپنا علمی مآخذ سمجھتا رہا۔

دورجدید کا یورپ:

پندرہویں صدی میں قسطنطنیہ کے سقوط (1453ء) اور ویانا کے سرحد تک عثمانی فوجوں کے پہونچنے کے بعد جس نے یورپ کی چولیں ہلا دیں اور جس سے اہل یورپ کے حصول علم رجحان میں مزید تیزی آئی اور دوسری ایک وجہ یہ بھی رہی کہ صلیبی جنگوں میں مسلمانوں سے معاندانہ ٹکراو اور اسپین میں مسلمانوں سے مصالحانہ میل جول کا نتیجہ یورپ کی نشأۃ ثانیہ کی شکل میں ظاہر ہوا۔

 مسیولیٹری لکھتے ہیں کہ اگر تاریخ میں عرب منصہ شہود پر نمودار نہ ہوتے تو علوم و فنون اور تہذیب و تمدن مین یورپ کی بیداری کئی صدی اور مؤخر ہوجاتی۔‘‘  بریولٹ اپنی کتاب’’ انسانیت کی تعمیر‘‘ میں لکھتے ہیں کہ جدید دنیا پر عربی تہذیب کا سب سے بڑا احسان علم ہے لیکن اس کے نتائج بعد میں رونما ہوئے ۔جس عظیم جنیئس نے اسپین میں عربی تہذیب کو جنم دیا وہ ایک طویل وقت گزارنے کے بعد اپنے شباب کو پہونچی اور تنہا علم ہی نے یورپ کو حیات نو نہیں کی بلکہ اسلامی تہذیب کے اور بھی بہت سے مؤثرات کا رفرماتھے جس اسلامی تہذیب نے اپنے فن کی پہلی کرنیں یورپ پر ڈالیں ،یورپ کی ترقی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جو اسلامی تہذیب سے متأثر ہوئے بغیر رہ گیا ہو۔‘‘

یورپ نے مسلمانوں سے علم سیکھا ۔تہذیب وتمدن سیکھی اور نظریہ آزادی حاصل کیا اور مسلمانوں سے تجربی علوم حاصل کئے اور ان پر اپنی نشأۃ ثانیہ کی بنیاد رکھی ۔

یورپ کی نشأۃ ثانیہ:

 قرون وسطی کے مقابلے میں جدید دور کے ذہنی رنگ ڈھنگ کا آغاز اٹلی میں ہونے والی تحریک سے ہوا جسے نشأۃ ثانیہ کہتے ہیں ۔ابتداء میں چند لوگ اس طرح کا نظریہ رکھتے تھے جس میں خاص طور پر پٹرارک کا نام آتا ہے لیکن پندرہویں صدی میں یہ تحریک باذوق ،باادب،دنیادار اور دین دار دونوں قسم کے اطالوی باشندوں کی ایک بڑی تعداد میں پھیل گئی۔

 فلورینس دنیا کا بہت تہذیب یافتہ شہر ہونے کے علاوہ نشاۃ ثانیہ کا منبع ہونے کی وجہ سے بھی اہم ترین سمجھا جاتا ہے۔ادبی دنیا کے تقریبا تما م بڑے ادباء اوردنیائے فن کے اہم ترین اور نامور لوگوں کا تعلق فلورینس سے تھا ۔

تیرہویں صدی میں فلورینس میں تین طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگ رہتے تھے۔اشرافیہ (دولت مند اور جاگیردار) امیر کبیر تجار( بورژوا) اور ادنی لوگوں کا طبقہ ۔یہ سب باہمی مفادات کے لئے باہم دست و گریباں تھے، ان میں سے اشرافیہ کے لوگ بنیادی طور پر پوپ کے خلاف شہنشاہ  کی حمایتی تھے جب کہ دوسرے طبقوں کے لوگ شہنشاہ کے خلاف پو پ کی حمایت کر رہے تھے۔ان میں اول الذکر طبقہ شکست سے دوچار ہوا اور چودہویں صدی مین ادنی طبقہ کے لوگوں نے بھی بورژوا طبقے سے اپنی جان چھڑالی۔

 نشأۃ ثانیہ کا دور فلسفے میں حاصل کی گئی کسی بڑی کامیابی کا دور نہیں تھا لیکن اس کے نتائج کے طور پر جو چیزین سترہویں صدی میں ہوئیں وہ بڑی اہمیت کا حامل تھی ۔اس نے افلاطون کے مطالعہ کا ازسر نو احیاء کیا ۔آزادی رائے اور فکری آزادی پروان چڑھی چنانچہ نشأۃ ثانیہ کے نتیجہ میں انسانوں نے معقول انداز سے سوچنا شروع کیا اور قدیم دور سے چلی آرہی لغویات کی بابت ان کے افکار و خیالات میں وسعت نظری پیدا ہوئی۔

 اسی طرح اخلاقی حالات و واقعات کے دائرہ کار سے باہر نشأۃ ثانیہ بڑی خوبیوں کی حامل تھی ۔فن تعمیرات ،فن مصوری،شاعر ی اور دیگر علوم وفنون کو اس دور مین بڑی ترقی حاصل ہوئی ،عربی و عبرانی زبان سیکھنے کا عام رواج ہو ا۔ مشنریوں نے ادارے اور اسکول قائم کئے۔اس دور میں بڑے بڑے فلسفی اور اہل علم پیدا ہوئے جیسے لیوناڈو،مائیکل ،اینجلو اور میکاولی وغیرہ ۔اس نے پڑھے لکھے انسانوں کو قرون وسطی کے تنگ وتاریک تمد ن سے آزادی دلائی ۔

صنعتی انقلاب

 نشأۃثانیہ کے نتیجہ کے طور پر یورپ میں علوم و فنون کا عام رواج ہوگیا ۔طب ،فلکیات،اور سائنس و ریاضی کے عربی کتب کے تراجم انگریزی و دیگر یورپین زبانوں میں ہوچکی تھی ۔اب صرف ان علوم و فنون کا مظہرسامنے آنا باقی تھاجو اٹھارہویں صدی کے آخر کے پچاس سالہ مدت میں بر طانیہ میں صنعتی انقلاب کی شکل میں رونما ہوا اور پھر انیسویں صدی کے ابتداء میں بڑی تیزی کے ساتھ باقی یورپ میں پھیلتا چلاگیا ۔فرانس ،جرمنی ،اٹلی،آسٹریا اور روس وغیرہ اس سے متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے ۔ہر جگہ جسمانی محنت کی جگہ مشینوں نے لے لیں ۔کپڑا بننے اور دھاتوں کی چیزیں بنانے کی صنعتوں اور انجن بنانے میں نئے نئے ایجادات ہونے لگے۔

 1829ء میں بھاپ سے چلنے والی ریل گاڑی کی ایجاد سامنے آئی اور بہت کم عرصہ میں اس کو خوب ترقی ملی ۔صرف 1850ء سے 1870ء تک ایک لاکھ40 ہزار میل ریلوے لائن بنا دی گئی۔ ریلوے کی وجہ سے ذرائع آمد و رفت میں حیرت انگیز توسیع ہوئی ۔اس سے ملک میں تجارتی کاروبار میں بڑی سہولت میسر آئی اور بیرون ممالک سے تجارتی روابط بڑھے ۔ایندھن کی مانگ میں بڑا اضافہ ہوا۔قریب قریب اسی زمانے میں دخانی جہاز کی ایجاد کے باعث ذرائع نقل و حمل میں ایک اور انقلاب رونما ہوا  اوربڑے بڑے سمندر جو کبھی آمد ورفت میں بڑی روکاوٹ بنے ہوئے تھے اس میں آسانیاں پیدا ہوئیں ۔

 صنعت وحرفت کی اس قدر ترقی نے پورے یورپ کا نقشہ ہی بد ل کر رکھ دیا ،چنانچہ عیش و عشرت کے سامان کی فراوانی تو ہوئی۔لیکن تجارتی منڈیاں ماند پڑ گئیں ۔چنانچہ سرمایہ داری کے اس تیز رفتار ترقی اور بورژوا طبقے کے بڑھتے ہوئے قدم کے باعث نو آبادیاتی توسیع کی ایک نئی لہر کا آغاز ہوا ۔بورژوا کو خام اشیاء اور سستے وسائل اور نئی منڈیوں کی ضرورت محسوس ہوئی اور اسی ضرورت کو پوری کرنے کے لئے نوآبادیاتی نظام کی ابتداء ہوئی اور ان توسیع پسند ملکوں میں برطانیہ صف اول پر تھا ۔اس نے برما، ہندوستان،چین پر اپنا تسلط جما لیا ۔ہندوستان میں کپڑے کی صنعت کو تباہ و برباد کرکے اپنے تجارتی منڈی کی طور پراس کا استعمال کیااور چین سے افیون سستی قیمتوں میں خرید در آمدکرنا شروع کیا ۔اور جس سے اس کو بہت زیادہ منافع ہوا۔ساتھ ہی ساتھ یہاں کے علمی سرمایے کو اٹھاکر یورپ منتقل کردیا گیا ۔ہندوستان کی سنسکرت اور فارسی زبان میں موجود تمام کتابیں بڑی اہمیت کے حامل تھیں ۔ طب ،فلسفہ ،اور اسلامی علوم وفنون سے متعلق یہ کتابیں آج لندن کے کتب خانوں کی زینت بنی ہوئی ہیں ۔

 دوسری طرف فرانس نے الجیر ،مصراور دیگر افریقی ممالک پر قبضہ کرلیا اوروہاں کے صحت مند اور تندرست مرد و خواتین کو گرفتار کر کے غلام بنالیا ۔اور یورپ میں انسانوں کی خرید و فروخت عام ہوتی چلی گئی۔ان غلاموں سے کمپنیوں میں جانوروں کی طرح کام لیاجاتاتھا۔اور ایک زمانہ تک افریقی غلاموں کو امریکہ اور امریکی غلاموں کو یورپ منتقل کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔اس کے بعد زوال پذیر اسپین کی طرف نگاہیں اٹھیں اوربرطانیہ ،فرانس،پولینڈکی متحدہ افواج نے اسپین پر حملہ کرکے اسے بھی تباہ و برباد کردیا اور وہاں کے کتب خانوں کو فرانس منتقل کردیا گیا ۔

دوسری طرف صنعتی انقلاب کی وجہ سے دولت بورژوا طبقہ میں محدود ہوکر رہ گیا تھا اور ادنی طبقہ اپنی زمینوں سے بے دخل ہوکر فیکٹریوں میں کام کرنے پر مجبور تھے۔اس لئے سرمایہ دار ان مزدوروں کی بڑی بے رحمی سے استحصال کررہے تھے ۔کم سے کم وقت میں وہ مزدوروں کو نچوڑ کر زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی ہر طرح کوشش کرتے تھے ۔اوراکثر ان سے 16 سے 18 گھنٹے کام لیتے تھے ۔عورتوں اور بچوں کی محنت کا وسیع پیمانے پر استعمال کیاجاتاتھاجو آسانی سے سستی قیمتوں میں مل جاتے تھے۔مزدوروں کے اس بے انتہا استحصال سے ان کے جسمانی یا کم از کم روحانی تنزل کا خطرہ ضرور لاحق ہوگیا تھااور اس طرح جاگیردارانہ نظام کے بعد سرمایہ دارانہ نظام اس کی جگہ پر قابض ہوگیا تھا ۔

یورپ میں اسلام پر جدید مطالعہ کا آغاز

 ایک طرف اسلامی تہذیب و تمدن اور علوم و فنون اور مسلمان علماء ومفکرین کے بدولت یورپ میں سوچنے اور غور وفکر اور علمی میدان میں آگے بڑھنے کا شوق بیدار ہوا تھا جس کی وجہ سے پاپائیت اور ملوکیت کے رد عمل میں سیکولرازم ،پھرجاگیردارانہ نظام کے خلاف کیپٹل ازم اورخود کیپٹل ازم کے خلاف اشتراکیت جیسے نظریات یکے بعد دیگرسامنے آرہے تھے

دوسری طرف ایک ترقی یافتہ قوم کے علوم و فنون ،تہذیب وثقافت کو اپنا کر اپنی ترقی کی راہیں ہموار کرنے کی کوششیں دسویں صدی یا اس بھی پہلے سے شروع ہوگئی تھی ۔اور اس وقت ان کے بحث و تحقیق کا مقصد خالص علمی و معروضی تھا۔

مولانا وثیق ندوی لکھتے ہیں ’’ اسلامی علوم وفنون کی خالص علمی بحث و تحقیق کا آغاز دسویں صدی عیسو ی میں ہوا یہ تحقیق کرنے والے مستشرقین معروضی اور تحقیقی و علمی مزاج رکھنے والے تھے ان میں حسد و عداوت نہ تھی ‘‘

پروفیسر خلیق احمد نظامی لکھتے ہیں کہ اسلام اور اس کے تہذیبی کارناموں سے واقفیت حاصل کرنے کا جذبہ مغرب میں اس وقت بیدار ہوا تھا جب اسپین اور سسلی کی سر زمین پر عربوں نے قدم رکھا تھا ۔یہ صرف ایک ملک یا ایک جزیرہ کی فتح نہ تھی بلکہ تہذیب و تمدن اور علوم و فنون کے ایک نئے اور انقلاب آفریں دور کا آغاز تھا۔جس نے بقول فرانسیسی مستشرق پروفیسر میسی نیون تہذیبی اعتبار سے یورپ کو بیدار کیا اور مغرب کے ترقی کے لئے نئے نئے امکانات پیدا کردئے ۔عربوں کے علوم و فنون کو حاصل کرنے، ان کا علمی سربلندی کا راز دریافت کرنے کا جذبہ اس بات کا محرک ہوا کہ اسلام کا تحقیقی مطالعہ کیا جائے ۔عربوں کی نئی تحقیقات ،نئے علمی تجربات اور نئے علمی رجحانات سے یورپ کے عالم استفادہ کرنا چاہتے تھے۔‘‘

چنانچہ یورپ کا شاہراہ ترقی پر یہ پہلا قدم تھا جس پر قدم رکھتے ہی اس نے علمی دنیاکی سر براہی کا راز پالیا اور اس کے بعد وہ عظیم الشان علمی کارنامے انجام دئے جنہوں نے اس کو علمی فضیلت کی صف اول میں پہونچا دیا ۔اب مسلم ممالک زوال پذیر تھے اور یورپ زمین سے ثریا کی طرف اپنے علمی،سیاسی ،اور تہذیبی سفر میں مصروف تھا اور اس سفر میں سد راہ بننے والے کانٹے کو جڑ سے اکھاڑ دینے کی کوششیں تیز تر ہوگئی تھیں ۔

لارنس براؤن کہتے ہیں کہ پہلے ہم یہودی خطرے سے ڈرتے تھے ،زرد خطرے (جاپان،چین) سے ڈرتے تھے اور اشتراکیت سے ڈارتے تھے لیکن یہ خیال غلط ثابت ہوا ،اس لئے کہ یہودی ہمارے دوست نکلے ،چنانچہ ان پر ظلم کرنے والا ہمارا جانی دشمن ہوگا پھر دوسری جنگ عظیم کے دوران اشتراکی ہمارے حلیف بنے رہے ،رہا زرد خطرہ (جاپان ،چین) تو اس نمٹنے کے لئے بڑی جمہوری حکومتیں کافی ہیں ۔اب اصل خطرہ نظام اسلامی اور اس کے زندہ و جاوید مذہب ہونے کی حیثیت سے اپنے حلقہٗ متبعین کو وسیع کرلینے کی غیر معمولی قدرت و صلاحیت سے ہے ۔مسلمان زبردست ،حیرت انگیز،حیات بخش طاقت و قوت کے مالک ہیں ۔یورپی سامراج کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ تنہا یہی (اسلام)ہے‘‘۔

ایک دوسرے مغربی رہنما کہتے ہیں کہ میرے خیال میں کمیونزم یورپ کے لئے کوئی خطرہ نہیں ہے بلکہ حقیقی خطرہ اسلام سے ہے ،جو ہم کو براہ راست چیلنج کررہا ہے ۔مسلمان ہماری مغربی دنیا سے الگ اپنی ایک مستقل دنیا رکھتے ہیں ۔ان کے پاس خالص روحانی سرمایہ ہے اور وہ ایک حقیقی سچی اور تاریخی تہذیب و تمدن کے مالک ہیں ۔مسلمانوں میں اس کی صلاحیت و اہلیت ہے کہ وہ بغیر کسی تعاون و مدد کے ایک نئی دنیا کی بنیاد رکھ سکتے ہیں ‘‘۔

اس دور کے مستشرقین اسلام اور اسلامی تہذیب کو اپنے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے تھے ۔ اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ سے واقفیت اور اسلام کے دوبارہ غالب ہونے کے خوف نے مستشرقین کے ذہن میں یہ جذبہ پیدا کردیا کہ ایسے وسائل اختیار کئے جائیں کہ جن سے یہ خطرہ جس سے یورپ ایک ہزار سال تک دوچار رہا ہے  واپس نہ آئے ۔اس لئے اب ان کے مطالعے اور تحقیق کا رخ ہی بدل گیا۔

مولانا شبلی نے اس دور کے مستشرقین کی علمی دلچسپیوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یورپ کی فیاض دلی رشک کے قابل ہے کہ ایک طرف تومذہبی اختلافات کی بنا پر مسلمانوں کے خون کا پیاسا تھا لیکن دوسری طرف اس نے بے تکلف مسلمانوں کے خوان کرم سے زلہ ربائی شروع کردی لیکن اس فیاضی کا تعلق غیر مذہبی لٹریچر سے تھا جہاں تک مذہب کا تعلق ہے تو صلیبی جنگوں کے بعد مستشرقین کے طرز فکر اور انداز تحقیق میں بنیادی تبدیلی رونما ہوگئی ۔اب اسلام کی تعلیمات اور پیغمبر اسلام کی حیات طیبہ اور اسلامی تہذیب کا کوئی گوشہ ایسا نہیں رہا تھا جو ان کے متعصبانہ افکار کی زد میں نہ آگیا ہو‘‘۔

تیرہویں صدی کے آخیر میں مستشرقین کو کلیسا کا تعاون حاصل ہوگیا اوراب کلیسا نے انہیں اسلامی علوم وفنون پر مواد فراہم کرانے کی ذمہ داری اپنے سر لے لی۔

مولانا وثیق ندوی لکھتے ہیں کہ’’ خود ویٹی کن میں مشرقی علوم و مذاہب پر مشتمل کتابوں کا ایک کتب خانہ قائم کیا گیا ۔اور سولہویں صدی عیسوی میں اس علمی تحریک نے ترقی حاصل کرلی اور رومن کلیسا نے مشرقی زبانوں کے سکھنے کے لئے ہر ممکن تعاون فراہم کیا۔‘‘

 کلیسا کا یہ تعاون اس راہ کا سنگ میل ثابت ہوا چنانچہ کلیسا نے فرانس ،روس،امریکہ اور دیگر مغربی ملکوں کے تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں میں اسلامک اسٹڈیز کے عنوان سے سنٹر قائم کئے ۔عربی کتابوں کے انگریزی زبان میں ترجمے ہوئے اور خاص طور پر رازی ،زہراوی ،ابن رشد،ابن سینااور دیگر مسلم فلاسفہ کی کتابیں انگریزی زبان میں منتقل ہوئیں ۔

اس کے بعد صنعتی انقلاب نے یورپی ممالک میں استعمار اور ملک گیری کی نئی خواہشات کو بیدار کردیا جس کے نتیجہ میں انہوں نے دنیا کے بہت سارے ممالک پر اپنی نو آبادیات قائم کیں اور وہاں کے سیم و زر بھر بھر کر یورُ پ منتقل کرنے لگے ،وہاں کے خام اشیاء پر قبضہ کرلیا اورعوام پر ظلم و تشدد کے پہاڑ توڑنے شروع کردئے ۔اسی کے ساتھ ساتھ وہاں کے علمی اور فنی ذخائر کو سمیٹ کر یورپ منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔اور سترہویں صدی عیسوی میں اس پر عمل در آمد بھی شروع ہو گیا۔

پروفیسر خلیق احمد نظامی لکھتے ہیں کہ’’ آکسفورڈ کے عربی پروفیسر ایڈورڈ پوکاک نے حلب سے عربی مخطوطات کے بیش بہا ذخیرے حاصل کئے ۔اسی زمانے میں جارج سیل نے قرآن مجید کا ترجمہ انگریزی میں کیا ۔یورپی زبان میں قرآن مجیدیہ پہلا مکمل کا ترجمہ تھا۔نیپولین نے 1798ء کے بعد مصر کے علمی ذخیروں کو فرانس منتقل کرنا شروع کردیا اور انگریزوں نے 1757ء کے بعد ہندوستان کے نادر قلمی نسخے لندن پہونچا دیئے ۔انڈونیشیا ، ہندوستان ،ایران،مصر،شام اور عراق کے کتنے ہی انمول موتی جن کو غیر ملکوں میں دیکھ کر بقول اقبال ’’ دل سی پارہ‘‘ ہوتا ہے ‘‘

پھر جب نو آبادیاتی نظام سے آزادی کی تحریکیں شروع ہوئیں تو اب یورپین کے لئے نو آبادیوں کی آزادی کو ٹالنا اور اس کو مزید طول دینا ممکن نہ رہا ۔اس لئے دولت برطانیہ نے اپنی نو آبادیوں سے دست بردار ہونے میں پس وپیش نہیں کیا ۔لیکن اس دور میں حالات بدل چکے تھے اس لئے اب سیاسی برتری قائم رکھنے کے لئے ضروری تھا کہ بظاہر اپنی انداز تحقیق میں احترا م کے پہلو کو ملحوظ خاطر رکھاجائے۔ اس سیاسی مقصد کی حصولیابی کی خاطر مستشرقین کے انداز تحقیق کے رخ میں بھی بدلاؤ آگیا اور اب ان کے تعصب میں بھی کچھ نرمی آئی ۔

پروفیسر نظامی لکھتے ہیں کہ اس دور کے مستشرقین کی تحقیقی کاوشوں میں رنگ احترام آگیا ۔اقبال نے 1932 میں جب پروفیسر میسی نیون سے کہا کہ مغرب کے مؤرخین کو اسلام سے جو تعصب و عناد ہے وہ وقت گزرنے کے ساتھ کم ہورہا ہے اور اسلام کی صداقت ان پر آشکارہ اور واضح ہوتی جارہی ہے تو میسی نیون نے ان کی رائے پر پوری طرح سے اتفاق کیا‘‘۔

 لیکن دوسری طرف ایسے فتنوں کو خاموشی کے ساتھ بیدار کردینے کی جستجو شروع ہوگئی جس سے مسلمان ممالک افتراق و انتشار کا شکار بنے رہیں اور ملی وحدت کی پرچھائیاں بھی ان کے ذہن و دماغ پر نہ پڑنے پائیں ۔اس دور کے مستشرقین اپنے ملکوں کے وزارت خارجہ کے مشیر خاص بن گئے اور ان کی تحقیق اگر ایک طرف مغربی حکومتوں کی خارجہ پالیسی کا رخ متعین کرنے لگی تو دوسری طرف ان علاقوں میں خیالات کی تبدیلی لانے کے لئے وزارت خارجہ ان مستشرقین سے مدد لینے لگی۔اور دوسری جنگ عظیم کے بعد مستشرقین نے اسکا برو رپورٹ تیا رکیا جس کو صحیح معنوں میں مستشرقین کا منشور کہاجاسکتا ہے جس کا مقصد ہی یہ تھا کہ بدلتے ہوئے حالات پر نگاہ رکھی جائے ورنہ ایسا نہ ہو کہ ان بدلتے ہوئے حالات کیوجہ برطانوی سامراجی مقاصد کو بری طرح نقصان پہونچے ۔چنانچہ اب برطانیہ نے امن عالم کا پر فریب نعرہ بلند کرنا شروع کردیا تاکہ اس کی آڑ میں وہ  اپنے مقاصد کو بعینہ پوراکرسکے ۔لیکن حالات نے کروٹ لیا اور عربی ممالک میں تیل کے ذخائر دریافت کرلے گئے۔اب عرب ممالک کچھ سالوں میں سیم وزر سے مالا مال ہونے والے تھے ۔اس لئے اب صورتحال تبدیل ہوتی ہوئی نظر آنے لگی جس سے مستشرقین کی پریشانیاں مزید بڑھ گئیں ۔ لیکن ان حالات پر قابو پانے کے لئے ان کے تحقیقات کا مرکز اب اسلامی تحریکات ،سماجی رجحانات،اقتصادیات و معاشیات کے امکانات قرار پائیں

 پروفیسرنظامی لکھتے ہیں کہ اب مستشرقین کی دلچسپی جدید مذہبی تحریکات ،سماجی رجحانات اور اقتصادی امکانات کے مطالعہ کی طرف منتقل ہوچکی ہے اور فکر اسلامی کی توجیہ و تاویل سے زیادہ مسلمان ملکوں کے اندورونی اور بیرونی حالات کے تجزیہ کی طرف توجہ ہے ۔قومیت کے وہ عناصر جو عربوں کی وحدت ملی کے تصورات کو پارہ پارہ کرسکتے ہیں ،اب توجہ کا مرکز بن گئی اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صہیونیت نے مستشرقین کے انداز تحقیق سے خاموش ساز باز کرلیا ہے۔‘‘

مستشرقین کے مطالعے اور تحقیقات کے مقاصد:

مستشرقین کے پیش نظر ان تحقیقات اور مطالعات کے ذریعہ بہت سارے مقاصد کو حاصل کرنا تھا جن میں سے اکثر و بیشتر میں انہیں کامیابی ملی ہے۔اسلام کے تناظر میں ان کی تحقیقات کا جائزہ لیاجائے تو اس میں سب سے اہم مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو ان کی تہذیبی وتمدنی ورثہ اور اجتماعی زندگی کے دینی شعور سے بالکل الگ کردیا جائے تاکہ ان کے افکار و خیالات میں مغربیت کی جھلک نظر آئے،اور جب بھی وہ اپنی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ان کے ہیروز اور قائدین مغرب کے ہیروز اور ان کے لیڈروں کے سامنے کمتر نظر آئیں ۔اور اس طرح سے وہ مغرب کی برتری اور ان کے قیادت قبول کرنے پر مجبور ہوجائیں ۔

 مولانا شبلی لکھتے ہیں کہ ہم کو صرف یہی رونا نہیں ہے کہ ہمارے زندوں کو یورپ کے زندوں نے مغلوب کرلیا ہے بلکہ یہ رونا بھی ہے کہ ہمارے مردوں پر یورپ کے مردوں نے فتح پالی ہے‘‘۔

مستشرقین کا دوسرا اہم مقصد یہ رہاہے کہ اسلام کے روشن اور تابناک چہرہ کو مسخ کرکے پیش کیا جائے اور مسلمانوں کے دلوں میں ان کے دین ،ان کی تہذیب و ثقافت اور ان کے قانون و شریعت کے سلسلے میں ایسی تشکیک اور بیزاری پیدا کردی جائے کہ وہ انہیں فرسودہ خیال کرنے پرمجبور ہوجائیں ۔بقول پروفیسر نظامی کے مسلمان سائنس کی بر تری تسلیم کرکے مذہب بیزار ہوجائیں ‘‘

 ان کے مطالعے کا تیسرا اہم مقصد یہ تھا کہ ان کو فروعی مسائل میں ایسے الجھا کر رکھا جائے کہ جس سے ان کے سوچنے ،سمجھنے اور غور وفکر کرنے کا مادہ باقی ہی نہ رہے ۔اس مقصد کے لئے انہوں نے نبی ﷺ، صحابہ کرام و صحابیات ،تابعین اور دیگر علماء اسلام پر الزام تراشیاں شروع کردیں ۔ساتھ ہی ساتھ قرآن عیسائیت و یہودیت سے ماخوذ اورمحمد ﷺ کی تصنیف کردہ کتا ب اورکتب ا حادیث اور اسماء الرجال کو عہد عباسی کی خود تراشیدہ تصنیفات ثابت کرنے کی بھرپور کوشش ہوئی ۔بقول پروفیسر نظامی کہ مسلمانوں کے ذہن کو ایسے مسائل میں الجھا کر رکھ دیا جائے جن کا ان کے علمی زندگی سے کوئی تعلق نہ ہو لیکن جو قوائے ذہنی کو مضمحل کرنے میں کارگر ثابت ہوں ‘‘

اکیسویں صدی میں مستشرقین کارخ:

 اخبارات ورسائل پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ اسلام اور مغرب کی کشمکش آج بھی جاری ہے ،مستشرقین کے انداز تحقیق کا رخ ضرور بد ل گیا ہے ان کے تحقیقات و مطالعات کا سلسلہ بند نہیں ہوا ہے چنانچہ انہی مقاصد کی حصولیابی کے لئے 9/ ستمبر  2001  ء کو امریکہ کے ولڈ ٹریڈ سنٹر پر حملہ کراگیا تاکہ اس کے ذریعہ افغانستان میں اسلامی حکومت کی اٹھنے والی چنگاری کو بجھا کر رکھ دیا جائے جس میں شاید انہیں کامیابی کم نقصان زیادہ ہوا اور اسی مقصد کے پیش نظر ابھی دو سال قبل ابو بکر البغدادی کی قیادت میں اسلامک اسٹیٹ کے نام پر جو خونی کھیل شروع ہوا وہ بھی اسی کا ایک حصہ ہے جسے امریکہ اور دیگر یورپین ممالک کا تعاون حاصل ہے ۔اس کے ذریعہ اسلام کے چہرہ کو مسخ کرنے اور اسلام کی طرف مائل ہونے والوں کو اس سے بیزار کرنے کی کوشش کی گئی جس میں انہیں ناکامی ملی ۔

حوالہ جات:۔

1۔ تاریخ وتہذیب عالم ۔مترجم امیر الدین /ْْتقی حیدر

2۔انسائیکلو پیڈیا تاریخ عالم   ۔ولیم ایل لینگر (مترجم  مولانا غلام رسول مہر)

3۔یورپ کی بیداری (RENAISSANCE) ۔مکمل

4۔ہسٹری آف ویسٹرن فلاسفی۔ برٹر ینڈرسل (مترجم :ذکی احمد) (نشأۃ ثانیہ سے ڈیوڈ ہوم تک )

5۔یورپ پر اسلام کا احسان۔  ڈاکٹر غلام جیلانی برق۔

6۔تاریخ اور سیاست۔ڈاکٹر مبارک علی

7۔عالم اسلام پر مغرب کا تسلط۔ مولانا وثیق ندوی

8۔یورپ مسلمانوں کی نظر میں ۔ مترجم :۔مسعود اشعر

The Discovery of Europe ۔برنارڈ لیوس

9۔جدید جاہلیت ۔ محمد قطب

10۔اسلام اور مستشرقین۔ سید صباح الدین عبد الرحمن

11۔ضیاء النبی ۔ پیر محمد کرم شاہ ازہری

12۔علوم اسلامیہ اور مستشرقین۔مترجم ڈاکٹر ثناء اللہ ندوی

13۔معرکہ سائنس و مذہب ۔ریپر(مترجم مولانا ظفر علی خان

14۔اسلام اور مستشرقین۔ڈاکٹرحافظ محمد زبیر

15۔سرمایہ داری ،اشتراکیت اور اسلام ۔مولاناابو الاعلی مودودی

16۔اسلامی سیاست۔ مولانا گوہر رحمن

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    مسلم دنیا پر مغربی استعمار کے مادی و تہذیبی تسلط کے بعد مسلم معاشروں میں بعض ایسے سوالات اٹھائے گئے جو سوالات تو کجا تیرہ سو سالوں تک مسلم معاشرے میں متفقہ علیہ حقائق کا درجہ رکھتے تھے۔ ان بہت سے سوالات میں سے ایک سوال ریاست اور مذہب کے آپسی تعلق سے متعلق تھا۔ مغربی معاشرے میں ریاست کی مذہب سے جدائی اور اس کے بعد مغربی معاشرے کی مادی ترقی نے ہمارے چند کم علم و کم فہم مفکرین کو اس کج نتیجہ پر پہنچادیا کہ اس دنیا میں کسی بھی قوم کی ترقی کا اصل راز اس قوم کے اجتماعی معاملات پر مذہب کی پہرہ داری ختم کرنے میں ہے۔ جس طرح سے مغرب نے مذہب کو سیاست و ریاست سے دیس نکالا دےکر صرف عبادت گاہوں تک اس کے اثر و رسوخ کو مقید کرکے دنیاوی ترقی حاصل کی ، اسی طور سے ہم مسلمانوں کو بھی اس دنیا میں اپنا کھویا مقام حاصل کرنے کے لئے مذہب و ریاست کے باہمی تعلق کو منقطع کرنا ہوگا۔ اسی لئے کبھی تو یہ کہا جانے لگا کہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا تو کبھی یہ باور کروایا جاتا ہے کہ خلافت کی اصطلاح کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ کبھی فرمایا جاتا ہے کہ ریاست کو کوئی حق نہیں کہ وہ لوگوں کو اسلامی شعار اپنانے کا پابند کرے تو کبھی فرمایا جاتا ہے کہ دین پر عمل ہر فرد کا انفرادی معاملہ ہے سو علماء و صاحب اقتدار طبقے کا کام صرف تبلیغ کرنا ہے ، عمل کا پابند بنانا نہیں ۔ جہاں یہ اصحاب اسلام کو یہ مشورے دیتے نظر آتے ہیں وہاں ان کو مغرب میں سیکولرزم کا بطور ریاستی دین اپنایا گیا مذہب بہت بھاتا ہے۔ فرانس میں اگر مسلم عورت کو اسکارف لینے سے منع کیا جائے تو یہ افراد فوراً فرمادیتے ہیں کہ یہ اس ملک کا قانون ہے اور ان کو پورا حق ہے اپنے شہریوں پر اپنا قانون لاگو کرنے کا، سو مسلمانوں کو وہاں رہنا ہے تو ان کا قانون ماننا ہوگا۔ لیکن جب ان ہی اصحاب کے سامنے یہ فرمایا جاتا ہے کہ ایک مسلم ملک میں کسی غیر مسلم عورت کو اسکرٹ پہن کر برہنہ ٹانگیں دکھانے کی اجازت نہیں ہوگی تو وہاں یہ حضرات فوراً شخصی آزادی کی دہائیاں دیتے نظر آتے ہیں اور فرمانا شروع کردیتے ہیں کہ آپ صرف لوگوں کو تبلیغ کریں، حکومت کو کوئی حق حاصل نہیں وہ لوگوں کو حکماً مجبور کرے کہ ان کو کیا پہننا ہے اور کیا نہیں۔ غیر مسلم ملکوں میں مسلمانوں پر اپنی مساجد میں لاوڈ اسپیکر پر اذان دینے پر پابندی عائد کردی جائے تو یہ شخص فرمادیتے ہیں کہ وہ ممالک اپنے قوانین پر عمل کروانے پر آزاد ہیں لیکن اگر مسلم ملکوں میں غیر مسلموں کو ان کی عبادت گاہوں میں ناقوس و گھنٹی بجانے سے منع کردیا جائے تو فوراً اقلیتوں کے مذہبی حقوق کا لاگ الاپنا شروع کردیتے ہیں۔
    دراصل ان اصحاب کا سارا بیانیہ یا تو مغربی استعمار کے ایجنڈے کے حق میں ہے یا پھر مغرب کی مادی ترقی کے زیر اثر شکست خوردہ ذہنیت کا نتیجہ ہے۔ ان اصحاب کی بنیادی غلطی یہ ہے کہ انہوں نے مسلم معاشرے کو مغربی معاشرے پر قیاس کرلیا ہے اور وہ یہ بات بھول گئے ہیں کہ جو عوامل مغربی معاشرے کی ترقی میں کارفرما ہیں وہ مسلم معاشرے کی تنزلی کی کلید ہیں۔ مغرب نے ترقی حاصل کی جب اس نے مذہب کو ریاست سے دیس نکالا دےدیا جب کہ مسلمانوں نے ترقی ہی صرف اس وقت کی جب دین ان کی دنیاوی قیادت کا بنیادی عنصر تھا۔ مغربی معاشرے میں ساری سائنسی ایجادیں اور مادی ترقی مذہب سے چھٹکارا پانے کے بعد ہوئیں جبکہ مسلم معاشرے میں اسلام اور سائنس کی ترقی ساتھ ساتھ ہوئی۔ مسلمان کا پہلا نامور کیمیادان اور اصل بابائے کیمیا خالد بن یزید بن معاویہ بن ابو سفیان ۵۰ ہجری کی دہائی میں پیدا ہوچکا تھا جس کی کتابوں سے فیض حاصل کرکے صرف چند سالوں بعد ہی جابر بن حیان ایک نامور کیمیادان کے طور پر ابھرا۔ اور یہ سب خیر القرون کے دور میں ہوچکا تھا ۔ جیسے جیسے مسلمانوں نے اسلام کو اپنی اجتماعی زندگی سے دیس نکالا دینا شروع کیا مسلمانوں کا علمی و سائنسی انحطاط بھی شروع ہوگیا۔ مغرب نے ساری سائنسی ترقی ہسپانیہ سے سیکھی اور ہسپانیہ میں ایک مسلم ریاست قائم تھی جس کا ریاستی مذہب اسلام اور جس کے تمام حدود و قوانین اسلامی فقہ کے تحت تھے۔

تبصرے بند ہیں۔