علمِ حدیثِ پاک کا دیوانہ چل بسا!

عبدالرشید طلحہ نعمانیؔ

آسمان علم و معرفت کاایک ستارہ اورٹوٹ گیا، اخلاص و تقویٰ کے روشن چراغوں میں ایک دیا اور بجھ گیا، گزرے وقتوں کے باخدا بزرگوں ، پچھلے زمانے کے باکردارصوفیوں اوراسلاف کی میراثِ علم کےامینوں کی ایک جیتی جاگتی تصویرنمونۂ اسلاف، شیخ الحدیث حضرت مولانا شیخ محمد یونس رحمہ اللہ بھی خلد آشیاں ہوگئے۔

آپ کی رحلت کےجگرپاش اور اعصاب شکن حادثے نےہردردمند دل کی دنیاکو ویران اورذہن ودماغ کو پریشان کردیا،آپ کے انتقال سےعلمی حلقوں میں ایک سُن کردینے والی خاموشی اورسخت اضطراب و بے چینی محسوس ہوئی،میدان حدیث میں کارہائے نمایاں انجام دینے والے چہروں کی لکیریں غم وحزن سےسرخ ہوگئیں ،خصوصاً طالبین علم حدیث ایک ایسے آبشار؛بل کہ بحر ناپیداکنار سے محروم ہوگئے،جس کے ہرقطرہ میں حب رسول ﷺکی بو، پاکیزگی اورنفاست جھلکتی تھی،جس کا ہرسیل علمی لطافتوں اورفنی وحدیثی تجربات کی عکاسی کرتاتھا؛ جنہوں نےتقریباًپچاس سال سے زائدعرصےتک مسند حدیث کو رونق بخشئ اور علماء و فضلاء کی ایسی کھیپ تیارکی دور دور تک آپ کا کوئی ثانی نظر نہیں آتا  ؎

جان کر مِن جملہء خاصان مے خانہ تجھے

مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ تجھے

سوانحی اشارئیے:

آپ کااسم گرامی:محمد يونس۔والدکانام:شبير أحمد بن شير علي۔آپ کا تعلق ہندوستان کے مردم خیز اور علم دوست علاقے جونپور سے ہے۔آپ کی ولادت:25؍ رجب 1355ھ مطابق2؍ اکتوبر 1937ءکوکھیتا سرائے ضلع جونپورمیں ہوئی۔

عمر پانچ سال 10؍ ماہ تھی کہ والدہ ماجدہ کےسایۂ عاطفت سے محروم ہوگئے،مکتب کی ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں ہی میں حاصل  کی اور13؍سال کی عمر میں مدرسہ ضیاءالعلوم مانی کلاں ضلع جونپور میں داخل ہوئے ،فارسی سے لے کر نورالانوار تک کی کتابیں وہیں پڑھیں 15؍شوال 1377ھ میں مظاہر علوم میں داخلہ لیا  اور پہلے سال میں جلالین ،ہدایہ اولین،میبذی اورسراجی وغیرہ سے تعلیم کاآغاز کیا،1379ھ میں بیضاوی،میرقطبی،ہدایہ ثالث ،مشکوٰۃ،مقدمہ مشکوٰۃ،شرح نخبۃ الفکر،سلم العلوم اورمدارک پڑھیں ، 1380ھ میں علوم ظاہرہ  کی تکمیل کی اوردورہ حدیث کے سال پوری جماعت میں اول مقام حاصل کیا۔

آپؒ نے بخاری شریف، شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدزکریامہاجرمدنیؒ سے،ابوداؤدشریف،حضرت مولانا محمداسعد اللہ صاحبؒ(ناظم مظاہرعلوم)سے،مسلم شریف، حضرت مولانامنظوراحمدخان صاحبؒ سے،اورترمذی ونسائی حضرت مولانا امیر احمد کاندھلوی رحمہ اللہ سے پڑھیں ۔

آپ کے رفقا ءمیں حضرت مولاناسیدمحمدعاقل سہارنپوری ،حضرت مولاناشجاع الدین حیدرآبادی،حضرت مولانا اجتباء الحسن کاندھلوی خصوصیت کے ساتھ قابل ذکرہیں ۔

بعدازاں فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسین صاحبؒ کی توجہات وعنایات سے ۱۳۸۱ھ کو مظاہرعلوم میں معین مدرس مقرر ہوئے پھر دوہی سال میں اپنی خداداد صلاحیتوں کی بناءپر مدرس وسطی بنائےگئے اور استاذمحترم حضرت مولاناامیراحمد کاندھلویؒ کی وفات کےبعدآپ مسند حدیث پر جلوہ گرہوئےاورجب شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریاصاحب ؒکو نزول آب کی شکایت ہوئی توشوال 1388ھ میں مظاہرعلوم میں شیخ الحدیث کے عہدۂ جلیلہ پر فا ئز ہوئے ۔

علم حدیث میں درک وکمال :

حضرت مولانا محمد ناظم ندوی ؔمہتمم المعہد الاسلامی سہارنپور‘‘الیواقیت الغالیہ’’کےمقدمہ میں ‘‘تذکرۂ صاحب کتاب’’کا عنوان قائم کرکے ارقام فرماتے ہیں :

‘‘بارہویں صدی ہجری میں جس طرح قرآنی علوم اللہ تعالیٰ نے حجۃ الاسلام حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی ؒ کو عطافرمائے تھے ؛جس کو انہوں نے بہت سے مقامات پر بطور تحدیث نعمت کے بیان بھی فرمایا ہے، اس زمانہ میں حدیث کا علم حق تعالیٰ شانہ نے اسی طرح آپ کو عطا فرمایا ہے ؛جس کا ایک موقعہ پر آپ نے تحدیث بالنعمۃ کے طورپر اظہار بھی فرمایا ہے ، پھر آپ کی تحقیقات ،روایت ودرایت پر نقد، وسعت مطالعہ اور متقدمین ومتاخرین کی کتابوں پر بھرپور نقدوتبصرہ اور علامہ ابن حجر العسقلانیؒ جیسے جبل العلم فی الحدیث کے مسامحات کا تذکرہ، یہ وہی شخص کرسکتا ہے جس نے پوری بصیرت ،انہماک ،عشق کے سوز اور مجتہدانہ فراست کے ساتھ پورے ذخیرہ احادیث کو کھنگال ڈالا ہو۔

دراصل ابتداہی سے آپ نے علم حدیث کے ساتھ اشتغال رکھا اور اسے اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا، آپ خودفرماتے ہیں کہ‘‘ اگر مجھے کسی سے کچھ پیسے میسر آجاتے تو ان سے حدیث کی کتابیں خریدلیتا ، حضرت الاستاذ قطب العرب والعجم نے جب بھی ہدیۃً کچھ پیسے عنایت فرمائے تو میں نے ان کی کتابیں خریدلیں ’’۔

 اور آپ کی قیام گاہ پر اپنا ذاتی علم حدیث کا اتنا بڑا ذخیرہ ہے کہ شاید ہی برصغیر میں کسی کے پاس ہو، بلکہ بڑے بڑے کتب خانے بھی ان امہات کتب سے خالی ہیں ، اس کے باوجود حج کے موقع پر کتب خانوں میں نئی نئی کتابیں تلاش کرنے کے لئے جاتے ہیں ، حالاں کہ وہاں کے نشیب وفراز والے راستوں سے گزرتے ہوئے آپ کا سانس پھولنے لگتا ہے ، پیشانی عرق آلود ہوجاتی ہے لیکن ان سب پریشانیوں کے باوجود آپ کے علمی مطالعہ اور ذوق کا اندازہ کچھ وہی حضرات لگاسکتے ہیں جو آپ سے کچھ آشنا ہیں۔ ’’(الیواقیت الغالیہ ؛ص21)

مردم گر ورجال سازشخصیت:

اس حوالے سےمحترم مولانا محمد ایوب سورتی مرتب  الیواقیت الغالیہ ‘‘عرض مرتب’’کےتحت تحریر کرتے ہیں کہ

‘‘ہمارسے سلف صالحین نے ہمیشہ افراد سازی اور رجال سازی کی فکر زیادہ کی ،حضرت اقدس مولانا خلیل احمد صاحب ؒ نے حضرت شیخ میں جو ہر قابل دیکھ کر جوانی میں ہی شیخ الحدیث کا لقب دے کر بٹھایا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ شیخ الحدیث واقعۃً شیخ الحدیث ہی ہے، وہی کام حضرت شیخ نے اپنے پرائے کا خیال کئے بغیر حضرت الاستاذ کو جو ہر قابل پاکر اپنی مسند پر بٹھایا اور دنیائے علم اس کا فائدہ دیکھ رہی ہے ۔

دارالعلوم دیوبند میں شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن صاحبؒ، حضرت مولانا حبیب الرحمن عثمانی صاحبؒ، حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ، میں یہ وصف تھا کہ افرادسازی کرتے تھے، چنانچہ وہ توچلے گئے لیکن اپنے بعد پچاس سال تک کا انتظام کرگئے۔

کسی شخصیت کی یہ بڑی خوبی ہے کہ اس کے بعد بھی کام یتیم نہ ہو اور نائبین کے ذریعہ سلسلہ جاری رہے ؛مگر افسوس ہے کہ وہ وصف مردم سازی اب ختم ہوتاجارہا ہے ، آدمی جارہا ہے اور مسند بھی خالی ہوتی جارہی ہے اور یہ کہنا پڑرہا ہے؎

اب انھیں ڈھونڈ چراغ زیبا لے کر

حال یہ ہوگیا ہے کہ مدارس کا جال ہے مگر رجال نہیں ،جامعات ہیں مگر جامع شخصیات نہیں ،مدرسین ہیں مگرصدر مدرس نہیں ، مہتمم ہیں مگرادارہ کا فکر وہم نہیں …….۔’’(ایضاً:ص16)

حضرت شیخ الحدیث ؒ کاآپ پر اعتماد:

قطب الاقطاب حضرت مولانا زکریا صاحب ؒ  نےحضرت شیخ کو آج سے پچاس قبل ایک  تحریر یہ کہہ کر عنایت فرمائی کہ اس پرچہ کو نہایت احتیاط سے کسی کتاب میں رکھیں ، چالیس سال کے بعد پڑھیں !

تحریر کا مضمون یہ ہے :

‘‘ابھی کمسن ہیں وہ کیا عشق کی باتیں جانیں

 عرضِ حالِ دل بے تاب کو شکوہ سمجھے

  ابھی تدریسِ دورہ کا پہلا سال ہے اور اس سیہ کار کو تدریسِ دورہ کا اکتالیسواں سال اور تدریسِ حدیث کا یہ سینتالیسواں سال ہے ۔

 اللہ تعالیٰ تمھاری عمر میں برکت دے اور مبارک مشغلوں میں تا دیر رکھے،جس سینتالیسویں پر پہنچ جاؤگے تو ان شاء اللہ مجھ سے آگے ہوگے ۔ فقط زکریا (27رجب 1387ھ)’’

اس تحریر سے انداز لگایاجاسکتا ہے کہ قطب  وقت کو اپنےتلمیذخاص سے کتنی توقعات وابستہ تھیں اور وہ ان کے علمی مقام کو مستقبل میں کس قدر بلند دیکھ رہے تھے۔

اجازت وخلافت :

علوم ظاہرہ کی تکمیل اور ان میں درک وکمال کے باوجود آپ نے تزکیۂ نفس اور اصلاح باطن سے کبھی غفلت نہیں برتی؛ابتداءمیں علمی انہماک اوردرسی مشغولیات کی بناءپر بیعت وارشاد کی طرف کچھ خاص التفات نہ رہا؛پھر رمضان المبارک ۱۳۸۶ھ کے عشرۂ اخیرہ میں اس کا شدید تقاضاہوا،چناں چہ اپنے استاذمحترم حضرت مولانا شیخ زکریا صاحب ؒ سےبیعت کی درخواست کی ۔

حضرت نے فرمایا‘‘بیعت میں انقیاد اور عدم تنقیدضروری ہےاستخارہ کرلے’’

تیسرے استخارےکےبعد خصوصی  طور پر بیعت فرمالی اور کچھ دن بعد ذکر کی تلقین کی۔

اس کےچند سال بعد،۵؍ محرم الحرام 1396ھ میں حضرت مولانا شاہ اسعداللہ صاحب ناظم اعلی جامعہ مظاہر علوم نےاجازت بیعت مرحمت فرمائی؛مگرآپ نے حضرت شیخ زکریاؒ ہی سے تربیت کا تعلق برقرار رکھااورآپ ہی سے وابستہ رہے حتی کہ حضرت نےبھی مخصوص مشفقانہ اندازمیں پاس بلواکرمجلس ذکرمیں خلافت سے سرفرازفرمایا۔

اوصاف وخصائل:

معتدل قد وقامت،روشن وتابندہ جبیں ،سرخ و سفیددمکتا چہرہ،گھنی نورانی ڈاڑھی،آنکھیں ؛فکر و تدبرکی آئینہ دار،سینہ ؛علوم ومعارف کا مخزن،ذہن ودماغ ؛روایات کی تلاش وجستجو میں منہمک،زبان قال اللہ وقال الرسول کے زمزموں سے ترمختصر یہ کہ آپ کا سراپا نضر اللہ امراً سمع مقالتی الخ کاجیتاجاگتانمونہ تھا۔

حضرت شیخ ، نیک طینت، پاک سیرت، نیک صفات با فیض عالمِ دین تھے، تواضع وانکساری،گوشہ نشینی وگم نامی  آپ  کا طرہٴ امتیاز تھا، نرم خوئی و نرم روی آپ کی عادتِ ثانیہ تھی، حلم و بردباری آپ  کا مزاج وطبیعت تھی،آپ کی کتابِ زندگی میں نمود ونمائش اور خواہشِ شہرت کاباب ہی نہ تھا ،آپ کے پیشِ نظر تو محض رضائے الٰہی کے لیےتشنگان علوم کی علمی سیرابی اوربندگان خداکی دینی ہدایت اور رہنمائی تھی، ستائش کی تمنا اور صلہ کی پرواہ کیے بغیر اسی میں آپ نے اپنی پوری حیات صرف کردی۔

وفات حسرت آیات :

16شوال 1438ھ مطابق 11جولائی 2017ء کی صبح حدیث نبوی کا یہ نیرتاباں تقریباً پون صدی تک علم حدیث کی عظیم ترین خدمات انجام دینے اورآسمان علم کو اپنی ضوفشانیوں اور درخشانیوں سے منور کرنے کے بعد سہارنپورکے شہر خموشاں میں ہمیشہ ہمیش کے لیے روپوش ہوگیااورجنازے کا منظردیکھ کرامام احمد کا یہ قول ایک بار پھر ذہن میں گردش کرنےلگا کہ‘‘ اہل حق کا امتیاز ان کے جنازوں سے نمایاں ہوگا’’   ؎

آسماں تری لحد پر شبنم افشانی کرے!

تبصرے بند ہیں۔