ہند و پاک کے مابین تلخیاں

سجاد الحسنین

ہند پاک کے درمیان ایسا معلوم ہوتا ہے کہ رویہ تلخ ہوگئے ہیں۔ راج ناتھ سنگھ جب سارک اجلاس میں تقریر کررہے تھے تو پاکستانی میڈیا نے ان کی تقریر کا مکمل بلیک آوٹ کیا۔ اس کے علاوہ ہندوستانی میڈیا کو بھی اس موقع پر داخلے کی اجازت نہیں دی گئی۔ الم ناک پہلو تو یہ ہے کہ جب راج ناتھ سنگھ اسلام آباد کے ایرپورٹ پہنچے تو پاکستان کا کوئی بھی وزیر ان کے خیر مقدم کے لئے ایرپورٹ پر موجود نہیں تھا جبکہ ماضی میں چدمبرم بحیثیت وزیر داخلہ پاکستان گئے تھے تو پاکستان کے وزیر داخلہ بہ نفس نفیس ایرپورٹ پر ان کے خیر مقدم کے لئے موجود تھے۔ اور پھر جب راج ناتھ سنگھ ہوٹل پہنچے تو ہوٹل کے باہر سو افراد پر مشتمل ایک گروپ مظاہروں کے لئے موجود تھا اور راج ناتھ سنگھ کی موجودگی میں احتجاجیوں نے ہندوستان کے خلاف نعرے بازی کی۔ یہ ہوٹل بلیو ایریا میں موجود ہے اور یہاں مظاہروں کی ممانعت ہے اور اس مظاہرے سے ایساس لگ رہا تھا کہ پاکستانی حکومت کی مرضی اور اشارے پر یہ مظاہرہ کیا گیا ہو۔ پاکستان کے ناروا ریہ کو دیکھتے ہوئے راج ناتھ سنگھ سارک کانفرنس کے اختتام سے قبل ہی ہندوستان لوٹ گئے وہ اتنے دل برداشتہ تھے کہ انہوں نے دوپہر کو کھانا بھی نہیں کھایا۔ راجناتھ سنگھ جب عجلت میں ہندوستان پہنچے تو ایرپورٹ پر موجود صحافیوں سے انہوں نے بات نہیں کی ہاں وزارت داخلہ نے کہا ہے کہ پاکستان کے حوالے سے راجناتھ سنگھ پارلیمنٹ میں بیان دینگے۔ پاکستان کے اس رویہ کی ہندوستان میں کڑی مذمت کی جارہی ہے۔ المناک پہلو یہ ہے کہ راجناتھ سنگھ کی موجودگی میں پاکستان میں احتجاج کیا گیا۔ احتجاجیوں نے الزام لگایا کہ کشمیر میں سیکوریٹی فورس کے ظلم سے معصوم لوگوں کی جانیں جارہی ہیں اور ایسے میں ہندوستان سے تعلقات روا نہیں رکھے جانے چاہئے۔ احتجاجیوں نے ایک روزہ بھوک ہڑتال منعقد کرتے ہوئے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ ہندوستان کو کشمیر کے تعلق سے سخت پیغام دیں اور وہاں جاری ظلم و خون خرابے کا خاتمہ ہو پائے۔ واضح رھیکہ و ادی کشمیر کے متعدد علاقوں میں احتجاجی مظاہرے اور سیکورٹی فورسز کے مابین شدید جھڑپیں جاری ہیں اور ہلاکتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اس کے علاوہ درجنوں علاقوں سے پرامن احتجاجی ریلیاں برآمد کی جارہی ہیں۔  ہزاروں کی تعداد میں لوگ آزادی کے حق میں اور سیکورٹی فورسز کے خلاف نعرے بازی کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔ اس سے قبل افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے کہاکہ سارک ملکوں کے چیلنجس یکساں ہیں۔ ان کاکہناتھاکہ دہشت گردی،انسانی اسمگلنگ،پیرے سی اورسائبرکرائم اوربدعنوانیوں سے متعلق نمٹنے کیلئے مشترکہ حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ انھوں نے بتایاکہ دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے حکومت پاکستان نے ضرب عضب کااغازکیاتھا۔ انھوں نے راجناتھ کے دورہ پاکستان کے موقع پرنوازشریف نے ایک مرتبہ پھرکشمیرسے متعلق اظہارخیال کیا۔ ان کاکہناتھاکہ تنازعہ کشمیرہندوستان کااندرونی معاملہ نہیں بلکہ یہ ایک بین الاقوامی تنازعہ ہے۔ واضح رہیکہ ہندوستان کشمیرتنازعہ کے حل کیلئے تیسرے فریق کی ثالثی کومستردکردیاتھا۔ جبکہ جنوبی ایشیا کی تنظیم سارک کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چوہدری نثار نے کہا کہ ’اگر ہم پرانے موقف پر قائم رہیں گے تو پھر شاید مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہو سکیں۔ ‘ا_±ن کا کہنا تھا کہ پاکستان اور اس کے ہمسایہ ممالک کو ایک دوسرے سے تحفظات ہو سکتے ہیں لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ مل بیٹھ کر تمام مسائل کا حل تلاش کیا جائے۔ وزیرِ داخلہ نے کہا کہ اس امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ کچھ شدت پسند عناصر مختلف ممالک کے ریاستی اداروں کی سرپرستی میں کام کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ گذشتہ 60 برس سے پاکستان اورہندوستان ایک دوسرے پر الزامات عائد کرتے آ رہے ہیں لیکن اس کا فائدہ کسی کو بھی نہیں پہنچا ہے۔ چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ حل طلب معاملات کا تصفیہ اور تحفظات دور کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے اور وقت آ گیا ہے کہ تمام معاملات کو بات چیت سے حل کیا جائے۔ چوہدری نثار نے یہ بھی کہا کہ پاکستان ہمسایہ ممالک کے ساتھ مذاکرات کے لیے ہر وقت تیارہے اور پرامن اور بامقصد تعلقات کا خواہاں ہے۔ ’ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے کبھی بھی مذاکرات کے دروازے بند نہیں کیے اور نہ ہی مذاکرات شروع کرنے سے پہلے پیشگی شرائط رکھی ہیں۔‘ بہر حال جو کچھ بھی ہو اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ حالات سنگین ہیں اور ہند و پاک کے مابین تلخیاں اپنی انتہا کو پہنچ گئی ہیں اور تعلقات کی ان تلحیوں کا اگر سب سے زیادہ کسی کو نقصان اٹھانا پڑسکتا ہے تو وہ ہیں کشمیری۔ چاہے تجارتی تعلقات کی معطلی ہو چاہے سرحد پار سے فائیرنگ ہو یا پھر در اندازی کے خلاف کاروائیوں میں تیزی۔ کسی بھی طرح کی تلخی سب سے پہلے کشمیریوں ہی کو متاثر کرے گی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔