ہند ۔ بنگلہ دیش معاہدہ!

ڈاکٹراسلم جاوید

بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ ان دنوں اپنے  چار روزہ دورۂ ہند  پردہلی میں ہیں ۔ دوروزقبل جب شیخ حسینہ واجد نئی دہلی پہنچنے ہی والی تھیں کہ اس سے پہلے ہی اندراگا ندھی بین الا قوامی طیران گاہ پر وزیر اعظم نریندر مودی اپنے اعلیٰ افسران اور ڈپلومیٹک پالیسی سازوں کے ساتھ بہ نفس نفیس موجود تھے۔وزیر اعظم مودی کے اقدام نے  اس وقت پوری دنیا کو چونکادیا تھا، جب شیخ حسینہ طیارہ سے اتررہی تھیں تو اسی پل وزیراعظم تمام پروٹو کال توڑ کر گلدستہ لے کر اپنے بنگلہ دیشی ہم منصب کے قریب پہنچے، نہایت گرم جوشی سے ان کا استقبال کیا اور بعد ازاں اپنے ہمراہ ہی وزیر اعظم انہیں لے  آئے تھے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے شیخ حسینہ کا شاہانہ خیر مقدم کرکے کئی سفارتی دانشمندی اور دوراندیشی کی جانب اشارہ کیا ہے۔

اس وقت چونکہ ہماری مغربی سرحد کے پار بیٹھا پڑوسی ہر گزرتے وقت کے ساتھ ایک نہ ایک مسائل کھڑے کرنے کی تاریخ رچ رہا ہے۔ گزشتہ سال ہندوستان کے دیرینہ حریف چین نے پاکستان کے ساتھ اپنے رشتے کو مزید استحکام بخشتے ہوئے  اقتصادی راہداری تعمیر کرنے کے پائلٹ پراجیکٹ پر مفاہمت کی تھی اور بڑ سرعت کیساتھ اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنانا بھی شروع کردیا گیا۔چناں چہ اس وقت پاکستان سے چین تک تعمیرکیا جانے والاوسیع الاستعمال کاریڈورجو دونوں ملکوں سے متصل ہماری سرحدوں کے قریب سے گزرتاہے، اس پر جنگی پیمانے پرکام شروع ہوچکا ہے۔

 کل ہی پاکستانی ذرئع ابلاغ کے بیشتر برقی صفحات پر ایک اشتہا ر وائرل ہوا ہے،جس میں لوگوں سے چین۔پاکستان اقتصادی راہداری ) (CPECکی تعمیرات میں روزگار پانے کیلئے خواہشمندلوگوں سے اپنی سی وی جمع کرنے کی دروخواست کی گئی ہے۔اشتہا رمیں لکھاگیا ہے کہ اس کاریڈور کی تعمیر کیلئے مختلف تعمیری کاموں میں مہارت رکھنے والے 3لاکھ افراد کی ضرورت ہے۔اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جس منصوبہ کی تکمیل کیلئے اس بڑی تعداد میں کام گاروں کو لگایا جارہا ہے، وہ کس قدر اہمیت کاحامل ہوگا۔ڈپلومیٹک تجزیہ نگاروں کاخیال ہے کہ چین اور پاکستان کے درمیان اسی مستحکم رشتے کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت ہند اپنے مشرقی پڑوسی سے تعلقات کومضبوط بنانے کیلئے سنجید گی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔

اگر بنگلہ دیش سے ہندوستان کے رشتوں پر نظر ڈالیں تواس کی تشکیل سے آج تک یعنی 1971 میں بنگلہ دیش کی تشکیل کے بعد سے دونوں ممالک کے تعلقات میں کئی اتار چڑھاؤ آئے ہیں ۔مگر بیشتر تناعوں کے باوصف باہم  سیاسی، اقتصادی اور اسٹریٹجک تعاون مسلسل مضبوط ہی ہوئے ہیں ۔دونوں ملکوں کے مابین تلخیاں کبھی بھی گہری کھائی میں تبدیل نہیں ہوسکیں ،آخر اس کی کیا وجوہات ہیں ،اس سے صرف نظر کرتے ہوئے ہم اس وقت ہم اپنی تحریر کودونوں ملکوں کے درمیان استحکام پانے والے حالیہ معاہدوں پرمرکوز رکھ کر بات کرنا مناسب سمجھتے ہیں ۔جمعہ کے روز جب دہلی میں شیخ حسینہ قدم رنجہ ہوئی ہیں ، اس وقت سے اب تک درجنوں ترقیاتی معاہدے طے پائے ہیں ۔اس اثناء میں انڈیا اور بنگلہ دیش کے درمیان ایک مسافر ٹرین سروس تقریباً 50 سال کے بعد دوبارہ شروع کر دی گئی ہے جو اس وقت چلتی تھی جب بنگلہ دیش پاکستان کا حصہ ہوا کرتا تھا۔

کولکتہ سے بنگلہ دیش کے شہر کھلنا کے درمیان چلنے والی فرینڈشپ ایکسپریس ٹرین کی آزمائشی سروس کا افتتاح بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے دورۂ ہند کے موقع پر دہلی میں کیا ہے۔خیال رہے کہ بنگلہ دیشی دار الحکومت  ڈھاکہ اور کولکتہ کے درمیان پہلی فرینڈشپ ایکسپریس کا آغاز تو سنہ 2008 میں کیا گیا تھا، تاہم سنہ 1947 میں تقسیم ہونے والے بنگال کے اس خطے میں بہتر ریل رابطے قائم کرنے کے مطالبات مسلسل ہوتے آئے تھے۔شیخ حسینہ واجد کے حالیہ دورہ کے دوران ٹرین سروس کے علاوہ نئی بس سروس بھی متعارف کروائی جا رہی ہے۔قابل غور ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کے سنہ 2014 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد شیخ حسینہ کاہندوستان کا یہ پہلا دورہ ہے۔بنگلہ دیشی وزیراعظم کے دورۂ ہند کے دوران دونوں ممالک کے مابین22 معاہدوں پر دستخط کیے گئے ہیں جس میں 50 کروڑ ڈالر پر مشتمل دفاعی معاہدہ بھی شامل ہے۔حالیہ دورۂ ہند میں توانائی، دفاع اور دریا ئے تیستامعاہدوں کے تناظر میں نتیجہ خیز اور مثبت پیش رفت کے امکانات واضح ہورہے ہیں ۔

صدرجمہوریہ ہند پرنب مکھرجی کو بنگلہ دیش میں لوگ بڑے پیار سے’’دادابابو‘‘ بلاتے ہیں ۔’’دادابابو‘‘ وہاں بڑی بہن کے شوہر کے واسطے بولا جاتاہے۔ ملک کی خاتون اول شبھرا مکھرجی ناریل ضلع کے بھدربیلاگاؤں سے تعلق رکھتی تھیں ۔ بھدربیلا کی بیٹی آنجہانی شبھرامکھرجی دو سال پہلے دنیا چھوڑ گئیں ، مگراپنی سسرال میں ’’دادابابو‘‘ کا احترام کم نہیں ہوا ہے۔ اس بار وزیر اعظم شیخ حسینہ ’’دادابابو‘‘ کے لئے دھوتی کرتا اور ہلسا مچھلی لے کر آئی ہیں ۔گزشتہ 19 اگست، 2015 کو صدرجمہوریہ پرنب مکھرجی کی آنجہانی بیوی کی آخری رسومات میں شرکت کے لئے شیخ حسینہ نئی دہلی آئی تھیں ۔واضح رہے کہ بنگالی میتھیولوجی میں ہلسا مچھلی کوبہترین ذائقہ کے ساتھ ساتھ ’’شبھ کاموں ‘‘ میں نیک شگون کے طور پر دیکھا جاتاہے۔

اب سے 21 سال پہلے 1996 میں شیخ حسینہ یہی نے’’ہلسا‘‘ مغربی بنگال کے سابق وزیر اعلی جیوتی باسو کیلئے تحفہ کی شکل میں بھجوائی تھی۔ تب 12 دسمبر کودریائے گنگا کے آبی تنازعہ پرکچھ مثبت معاہدے بھی ہوئے تھے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ہمارے دیرینہ حریف پڑوسی ملک پاکستان اور چین کے درمیان مستحکم ہورہے رشتے کے بعد بنگلہ دیش اوردیگر پڑوسیوں مثلاً بھوٹان اور نیپال وغیرہ سے تعلقات ہمارے لئے زیادہ اہم ہیں یا تیستاندی کے پانی کی کی تقسیم کے تناع کو طول دینا؟ اس وقت پڑوسی ملکوں میں اسٹریٹجک سرگر میوں کو سنجیدگی سے دیکھنے والوں کی عام رایے یہی ہے کہ پانی کے معمولی جھگڑے کو طول دیکر ایک مزید دشمن کھڑا کرنے کو ہندوستان کے داخلی و خارجی استحکام کیلئے دانشمندی سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔لہذا ہمیں چاہئے کہ اس تنازعہ پر مٹی ڈال کر ہمیں مسئلہ کو جلد ازجلد نمٹاکر آگے بڑھناچاہئے۔مجھے لگتا ہے کہ حکومت ہند نے غالبا وقت کی نزاکت کا احساس کرلیا ہے اور ممکن ہے کہ تیستا ندی ہی نہیں ،بلکہ دیگر دریاؤں کی آبی تقسیم پر بھی اب کی بارمعاہدہ طے پا جا ئے گا۔

غور طلب ہے کہ ہندوستان۔بنگلہ دیش کے درمیان 54 ندیاں بہتی ہیں ۔ ان دریاؤں کے آبی ذخائر سے فائدہ حاصل کرنے کے لئے جون 1972 سے’متحدہ دریا کمیشن‘ (جے آ ر سی)کام کر رہا ہے۔تاہم گزشتہ45برسوں میں اب تک دونوں ملک آبی تنازعہ حل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں ۔اسی قسم کا  آبی واراضی تنازع حکومت نیپال کے ساتھ بھی جاری ہے۔ مگروہاں بھی ابتک ناامیدی کے علاوہ کوئی بھی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوسکا ہے۔اب تیستا پر کیا کرنا ہے، اس پر یقینااسکرپٹ لکھی جائے گی، ایسی امید یں دونوں طرف کے عوام اورحکومتوں کو بھی ہے۔یہ امید اس لئے بھی زیادہ بڑھ گئی ہے کہ چین ۔پاکستان کے درمیان رشتے کے استحکام کی وجہ سے ہندوستان نے بھی اپنے دیگر پڑوسیوں کی طرف دوستی کا بڑھانا شروع کردیا ہے اوراس معاملے میں بنگلہ دیش کے ساتھ کچھ زیادہ ہی فراخ دلی کا مظاہرہ کیا جارہاہے۔

مودی حکومت کے رخ میں نرمی کاثبوت اس سے بھی مل رہاہے کہ انہوں نے بنگلہ دیش سے تعلقات کو پٹری پر لانے کیلئے بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی کو بھی شامل کیا ہے،اوراس میں کوئی شبہ نہیں کہ ’’بنگالی مانش‘‘اپنے ہم زبانوں سے قربت کوہمیشہ اہمیت دیتے رہے ہیں ۔اسے محسوس کرتے ہوئے ہی محترمہ ممتا بنرجی کو بھی بات چیت کی میز پر نمایاں رکھا جارہا ہے۔اس کے کئی دوسرے معنی بھی نکالے جا سکتے ہیں ۔مگرجب ہم ہند ۔بنگلا دیش کے درمیان ہونے والی مفاہمت کیلئے سجائی جانے والی میزوں کوماضی میں جاکر جھانکیں تواس بار پہلے زیادہ اعتماد اور سنجیدگی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ماضی میں نومبر 2000 تک جیوتی باسو بنگال کے وزیر اعلی رہے، ان کے بعد گیارہ سال تک بدھا دیب بھٹاچاریہ اس عہدے کی ذمہ داری سنبھالتے رہے، لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ بنگلہ دیش سے کسی معاہدے میں ان لیڈروں نے مرکزی طورپر کچھ ایماندارانہ سرگرمی پیش کی ہو۔

2011 میں تیستا ندی تنازع کو حل کرنے کے معاہدے  کو سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ  اور شیخ حسینہ لگ بھگ آخری مرحلے تک لے جاچکے تھے، مگر عین وقت پرممتا بنرجی نے ہی’’ویٹو‘‘ لگا دیاتھا۔ورنہ یہ رشتہ آج کچھ اورزیادہ اونچائی تک پہنچ چکا ہوتا۔اس وقت صورت حال یہ تھی کہ ممتا بنرجی یوپی اے کے ساتھ تھیں اورانہیں نظر انداز کرکے ڈاکٹر منموہن سنگھ معاہدے کو حتمی شکل نہیں دے سکتے تھے۔اگر چہ آئین کا آرٹیکل 253 مرکز کو یہ حق دیتا ہے کہ کسی ملک سے معاہدے کے لئے صوبے کی حکومت سے اتفاق لینے کی وہ پابند نہیں ہے۔مگر اس وقت منموہن حکومت کی مجبوری الائنس کو بنائے رکھنے کی تھی۔جبکہ اس بار ایسی کوئی دشواری مرکز کی راہ میں دور دور تک حائل نہیں ہے۔حالات کو اپنے حق میں دیکھ کر ہی حکومت ہند نے بنگلہ دیش سے مختلف ترقیاتی شعبوں میں 22معاہدوں کے علاوہ اسے 29ہزار کروڑ روپے بطور قرض دینے کے ایم اویو پر دستخط ثبت کردیے ہیں ۔امید ہے کہ یہ معاہدہ کے بعد آنے والے دنوں میں ہندوستان کواورزیادہ مضبوط بن کر ابھرنے کا موقع فراہم کرے گا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔