ہولی تم بھی کھیلو

معراج حبیب ندوی

(شعبہ عربی جواہر لال نہرو یونیورسٹی دہلی)

 روڈ کے کنارے  ایک چھوٹا سا محلہ ہے، اس میں پسماندہ لوگ رہتے ہیں، بانس پھوس کی چند جھونپڑیاں ہیں، کچھ لوگ  پرانی ساڑھیوں سے آنگن کو گھیر رکھے ہیں،اور کچھ لوگوں کے دروازہ پر پرانی لنگیاں پردہ کا کام کر رہی ہیں،اور لگتا ہے  کہ  اس محلہ کے لوگ مقامی نہیں ہیں، مختلف مقامات سے آکر یہاں پناہ لئے ہیں، ان کے رہن سہن اور تہذیب و ثقافت سے پتا چلتا ہیکہ زیادہ تر لوگ ان میں ہندو ہیں،خیر۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس محلہ سے ایک نوجوان گذرتا ہے،اسکی عمر اندازہ کے مطابق 23 یا 24 سال رہی ہوگی،مگر بہت ہی خوبرو،سفید کرتا اور سفید پائجامہ میں ملبوس،ڈھاڑھی کے کالے بال سجے ہوئے تھے جسکی وجہ سے چہرہ کی رونق میں چار چاند لگ گیا تھا، اسکی معصومیت سر پر  بندھی ہوئی پگڑی کی وجہ سے بڑھ گئی تھی،چلنے کے دوران سنجیدہ رفتار کی وجہ سے معلوم ہو رہا تھا کسی مدرسہ میں پڑھا رہا ہے،یا کہیں پڑھ رہا ہے،وہ اپنی تندہی رفتار میں تیز تیز قدموں سے آگے بڑھ رہا تھا۔اور منزل کی طرف رواں دواں تھا، اچانک سا ایک دردخت نظر آیا، اسکے سایہ میں کچھ بچے اور بچیاں بیٹھے ہوئے تھے، ایک چھوٹی سی بچی دوڑتی ہوئی اس نوجوان کی طرف آئی اور کہنے لگی،،،، بھیا رنگ لے لو،،،،، بھیا رنگ لے لو،،،،،، مگر نوجوان نے زیادہ توجہ نہیں دی اور یہ کہتا ہوا آگے بڑھ گیا کہ بعد میں لینگے،۔ ۔۔۔۔۔۔مگر کچھ قدم ہی چلا ہوگا کہ اس بچی کی آس بھری آواز اسکے دل کو دستک دینے لگی، لہذا وہ پلٹ کر ان بچوں کے پاس آیا،اسے دیکھتے ہی اس بچی کا دل باغ باغ ہوگیا، اور خوشی  کے لڈو دل میں پھوٹنے لگے،اور وہ کہنے لگی بھیا رنگ لے لو،،،،، بھیا رنگ لے لو۔

 نوجوان سر جھکائے کچھ دیر سوچتا رہا، پھر بچی کے بار بار کے تقاضے کو سن کر نوجوان نے پوچھا:

کیا نام ہے تمہارا؟

میرا نام دیوی ہے۔

 نوجوان : تم یہ کیا کررہی ہو؟

 دیوی: رنگ بیچ رہی ہوں۔

نوجوان: یہی پانچ پیکیٹ رنگ کے  ہیں بس؟

دیوی: ہاں بھیا،اس سے مجھکو پانچ روپئے بچینگے تو چاکلیٹ لونگی۔

پھر بچی آس بھری نظروں سے نوجوان کو دیکھنے لگی، اور کہنے لگی بھیا رنگ لے لو۔

نوجوان: میں رنگ لے کر کیا کرونگا!؟

دیوی: تعجب بھری نظروں سے، کیا ہولی نہیں کھیلوگے؟

نوجوان: پتا ہے نا تمہیں دیوی،میں کون ہوں؟ میرا تعلق کس سے ہے؟ہولی کون کھیلتے ہیں؟؟

مگر غربت کی مار نے بچی کے سامنے سب کو انسان بنا رکھا تھا،افلاس کی وجہ سے وہ بھول گئی تھی کہ ہندو کے تہوار الگ ہوتے ہیں اور مسلمانوں کے تہوار الگ ہوتے ہیں،وہ تو بس یہ جانتی تھی کہ سارے انسان ایک ہیں بقول کلیم عاجز۔

ہم تو نہ شیخ ڈھونڈھتے ہیں نہ برہمن

ہم تو بشر کو ڈھونڈھ رہے ہیں بشر ملے 

ہم چاہتے ہیں کہ چلے پھر ہوائے درد دل 

ہاتھوں سے ہاتھ ملے زباں میں اثر ملے 

خیر نوجوان کے اس سوال سے دیوی کے امید کی کرن مدھم پڑ نے لگی تھی، ایک یا دو روپے کی جو آس آئی تھی وہ ٹوٹنے لگی تھی، اور ردی کپڑہ میں ملبوس وہ بچی چکراسی گئی، گویا زبان گونگ ہو گئی تھی، اور رونی سی صورت بن گئی تھی۔

نوجوان: دیوی، کیا ہو گیا؟ کیوں رونے لگی ہو؟ مت رو،میں رنگ لونگا۔

اب پھر سے معصوم بچی کے چہرے پر امید کی کرن جاگ اٹھی اور خوش ہو کر ٹکٹکی باندھے نوجوان کو دیکھنے لگی۔

یہ سچ ہے کہ انسان کو پیدا کرنے کا مقصد ہمدردی اور پیار محبت ہے،درد دل ہے،مگر لوگوں کی ذاتی مفاد کی وجہ سے کہیں مذہب کا تو کہیں کاسٹ کا خلیج انسانوں کے درمیان نفرت اور دشمنی کا دیوار حائل کر دیتا ہے۔مگر جس کے دل کی تختی پر ذاتی مفاد کا داغ نہیں آیا ہے وہ ہر انسان کو یکساں سمجھتا ہے، اور اپنا غمگسار بھی۔

سفید پوش نوجوان نے دیوی کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے اور اسے قریب کرتے ہوئے کہا، اچھا تو یہ بتاؤ ایک پیکیٹ رنگ کتنے کا ہے؟

دیوی ایک عجیب کشمکش میں تھی، کیوں کہ وہ ایک ننھی سی غریب بچی تھی، اس سے تو لوگ یوں ہی دور بھاگتے تھے، مگر آج وہ چھوٹی سی بچی ایک سفید پوش نوجوان کے بغل میں تھی، دیوی نے خوشی کے آنسو بہاتے ہوئے کہا، ایک پیکٹ 10 روپئے کا ہے۔

نوجوان نے پچاس روپے نکالتے ہوئے کہا:دیوی یہ لو، تم چاکلیٹ کھاؤ، اور رنگ بھی رکھ لو، ہم لوگ رنگ نہیں کھیلتے۔

مگر دیوی دریائے حیرت میں ہچکولے کھا رہی تھی، اور اس کے دل میں سوال پیدا ہوا کہ آخر ایسا کیوں ہے؟ کیوں کہ اس بچی کے دل کی تختی ابھی سفید تھی، اور انسانیت کا نقش اسکے دل پر ابھرا ہوا تھا، اور ذاتی مفاد نے اس کے دل کو ابھی پراگندا نہیں کیا تھا، خیر اس نے پوچھ ہی ڈالا کہ بھیا: اس بار آپ ہولی کیوں نہیں کھیلیں گے؟ مگر نوجوان جلدی میں تھا، اس نے دیوی کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا: دیوی میں جلدی میں  ہوں، چلتا ہوں۔

تبصرے بند ہیں۔