یومِ دستور ہند

مسعود جاوید

کل میں نے لکھا تھا کہ ہمیں دستور پڑھنا اور پڑھانا چاہئے لیکن بدقسمتی سے نہ عصری اداروں اسکول و کالج میں نصاب کا حصہ ہے اور نا ہی دینی مدارس میں اسے ہڑهایا جاتا ہے۔ جبکہ اقلیتوں کے حقوق اور مراعات کی ضمانت یہی دستور دیتا ہے اس لئے بھی معاشرہ  کی اقلیتوں اور محروم طبقات کو اس پر خصوصی توجہ دینی چاہئے۔

آج ہی کے دن یعنی 26 نومبر 1949 کو دستور ساز اسمبلی نے دستور کی اس فائنل شکل کو قبول کیا اور جس کا نفاذ 26 جنوری 1950 سے ہونا شروع ہوا۔

آج چیف جسٹس آف انڈیا عالیجاہ رنجن گگوئی نے یوم دستور کی ایک پر شکوہ تقریب میں کہا کہ :

1- دستور ہند عوام کی زندگی کا ایک اٹوٹ حصہ ہے۔

2- یہ حاشیہ پر آئے لوگوں کی آواز ہے

3- یہ اکثریتی طبقہ کو ہوشمندی اور صحیح رہنمائی کرنے والا ہے۔

4- اگر ہم دستور کی سننے اور ماننے میں ناکام ہوئے تو ہماری نخوت اور کبریائی کے نتیجے میں ہم تیزی سے بدنظمی کی راہ پر مائل ہو جائیں گے۔

5- ملک کو آزادی دلانے والوں کا مطالبہ تھا کہ ہمارا اپنا دستور ہو جس کے لکھنے والے  ہندوستانی ہوں یعنی ہندوستانی  ہندوستانی کے لئے لکھے۔

کل میں نے اس کا ذکر کیا تھا کہ دستور کے منتخب بابوں کا جاننا اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں کے لئے بے حد ضروری ہے۔ قانون اور دستور کی ضرورت دبنگوں اور امیروں کی بہ نسبت  کمزوروں اور غریبوں کو زیادہ ہے۔

لیکن شاید ہی کوئی ملی تنظیم اور دینی مدرسہ آج یومِ دستور ہند کی تقریب کا انعقاد کرکے ہر شہری خاص طور ہم لوگوں کے لئے اس کی اہمیت افادیت اور ہمیں جاننے کی ضرورت پر گفتگو کے لئے ماہرین کو مدعو کیا ہو۔

یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہمیشہ ہمارے دانشور حضرات ہمیں fear  انجانے خوف اور مفروضوں پر مبنی ڈر سے آگاہ کرتے رہتے ہیں یا ہمیں victim  مظلوم اور دونظری رویہ کا شکار بتا کر رونا روتے رہتے ہیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ بعض اوقات ہمارے ساتھ امتیازی سلوک discrimination ہوتا ہے لیکن ہم بهی تو عام لوگوں سے کٹے ہوئے رہتے ہیں۔ نا ہم یومِ دستور ہند اور نا یومِ تنفیذ دستور ہند یعنی یوم جمہوریہ سے اپنی اولاد کو واقف کراتے ہیں اور  نا ہم یوم آزادی پر لیکچر تقاریر سیمینار سمپوزیم منعقد کرا کے موجودہ نسل کو آزادی کے حصول کے لئے اپنے اسلاف کی قربانیوں کو بتاتے ہیں۔ اس کا عموماً source تاریخ کی کتابیں ہوتی ہیں لیکن جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ہماری تاریخ کو مٹانے کی باضابطہ کوشش ہو رہی ہے اس لئے یہ توقع رکھنا کہ ہمارے بچے صحیح تاریخ اسکول کی کتابیں پڑھ کر جان جائیں گے یہ خود فریبی کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے۔ بدقسمتی سے دینی مدارس نے بهی آزادی کی تاریخ جو ان کے  اسلاف کا ذکر کے بغیر ادھوری رہے گی ، ان اسلاف کی تاریخ تک اپنے مدارس کے نصاب میں شامل نہیں کیا ہے۔ صد سالہ کے موقع پر میں نے ہجوم کے صد سالہ نمبر میں ایک مضمون لکھا تھا جس میں اپنے اس درد کا اظہار کیا تھا کہ ” دارالعلوم کی نئی نسل سے ایک سوال – ہمارا ریشمی رومال کہاں ہے”۔

حقیقت یہی ہے کہ مدارس کے اکثر طلباء نا شیخ الہند کی تحریک ریشمی رومال سے واقف ہوتے ہیں نا عبیداللہ سندھی سے نا  شوکت علی و محمد علی جوہر سے نا ابوالکلام آزاد سے۔ ۔ ۔ ۔ فہرست اتنی طویل ہے  کہ ہر ایک کا نام یہاں ذکر کرنا ممکن نہیں۔ عموما یہ اس سے واقف نہیں ہوتے ہیں  کہ انگریزی استعماریت کے خلاف پہلی جنگ 1857 میں علماء کرام کی قیادت میں لڑی گئی تھی۔ اس جنگ اور انقلاب کو انگریزوں نے بغاو ت کا نام دیا تو ہمارے مورخین نے بهی اسے بغاوت اور غدر کہا اور آج تک ہم اسے بغاوت یا غدر ہی کہتے ہیں۔ یہ انقلاب ناکام ہوا تو لا تعداد علماء کرام کو قتل کرکے عبرت کے لئے دہلی کی سڑکوں کے کنارے درختوں ہر لٹکا دیا گیا تھا۔

تاریخ سے مسلح رہنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے وگرنہ متعصب طبقہ  گهڑی ہوئی تاریخ سے اس قدر پتھر مار مار زخمی کرتے رہیں گے کہ ایک دن ہم بهی ان کی لکھی تاریخ کو تسلیم کر لیں گے وہ تاریخ  جس میں ملک کو آزاد کرانے اور اس کی تعمیر و ترقی میں مسلمانوں کے کردار کا کوئی ذکر نہیں ہوگا۔

دستور ہند ہی دبے کچلے لوگوں اور اقلیتوں کی پناہ گاہ ہے اس کی حفاظت میں ہماری اپنی حفاظت ہے اس لئے اس کا تحفظ اور بقا کے لئے نا صرف الرٹ بلکہ ہمخیال دانشوروں کے ساتھ مل کر اسے چھیڑ چھاڑ سے بچانے کے لئے جلسے جلوس اور کتابچے  تقسیم کرکے بیدار رہیں اور دوسروں کو بیدار کریں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔