جہان لطیف

عدنان قمر

ڈاکٹر جاوید منظر کسی تعارف کے محتاج نہیں آپ کا شمار پاکستان کے مایہ ناز ادیبوں میں ہوتا ہے آپ کی پانچویں کتاب "جہان لطیف” شاہ عبدالطیف بھٹائی کے ایجاد کردہ سروں پر لکھی گئی مثنوی کی صورت میں ہے۔ جہاں ایک طرف ڈاکٹر صاحب نے اس کتاب کے ذریعے شاہ عبدالطیف بھٹائ کے سروں سے ہمیں روشناس کرایا ہے وہیں دم توڑتی مثنوی جیسی صنف کو بھی جلا بخشی ہے جو کہ ایک قابل ستائش عمل ہے۔ شاہ صاحب کا پورا کلام ۳۰ سروں "سر کلیان” سے "سر بلاول” تک پر مشتمل ہے، تمام سروں کو آپ نے انتہائ سادہ اور سلیس زبان میں پیش کیا ہے جسے ایک عام طالب علم پڑھ کر بھی مستفید ہو سکتا ہے۔

تقریبا ہر سر کو بیان کرنے سے پہلے نثری صورت میں اس کا تاریخی پس منظر بھی پیش کیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے یقینا ان جگہوں اور تاریخی کتابوں پر اپنا ایک طویل وقت صرف کیا ہوگا جس سے ان کی تحقیقی، فکری، اور فنی صلاحیتوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ ہر سر اپنے اندر ایک کہانی رکھتا ہے، جس سے سندھ کی تاریخی، اخلاقی، سماجی اور مذہبی تہذیبوں کا علم ملتا ہے۔

 ڈاکٹر جاوید منظر اس لحاظ سے بھی داد کے مستحق ہیں کہ مثنوی جیسی صنف جس میں صرف ایک کہانی کو بیان کرنے کے لیے ہزاروں نہیں تو سینکڑوں اشعار کی ضرورت ہوتی ہے آپ نے نہایت عمدگی کے ساتھ اسے بیان کردیا۔ شاہ عبدالطیف بھٹائ کی شاعری مولانا روم کے کلام سے بہت قریب تر محسوس ہوتی ہے، جس طرح مولانا روم اسرار حق کو آشکار کرتے ہیں اسی طرح شاہ صاحب کے کلام میں بھی والہانہ روحانی کیفیت، تصوف سے گہری وابستگی کی مرہون منت ہے دونوں کا سرچشمہ ایک ہے یعنی قرآن مجید دونوں ایک ہی سمندر کے غواص ہیں۔ دونوں کی شاعری سچے موتیوں کی طرح ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ مولانا رومی نے ایک نکتے کو بیان کرنے کے لیے حکایت تخلیق کی اور شاہ بھٹائ نے عوامی کہانیوں کے کرداروں کے عمل میں نکتہ تلاش کیا۔ شاہ صاحب نے ہنس پرندے کو اپنا آئیڈیل بنایا ہے "کارایل” ہنس کو کہتے ہیں جس طرح شاہین مردار نہیں کھاتا اور اونچی پرواز کرتا ہے اسی طرح ہنس بھی شفاف پانی میں رہتا ہے گندگی سے بچ کر تہہ میں پہنچ کر اپنی صاف غذا لاتا ہے، شاہ صاحب نے ہنس کو موضوع بناتے ہوۓ تلقین کی ہے کہ انسان بری صحبت سے بچتے ہوئے رزق حلال حاصل کرے۔

‏”اس سر میں کچھ پرندوں کی خصلت بتائی ہے”
‏”پاکیزگی سے شاہ نے چاہت دکھائی ہے”

ڈاکٹر جاوید منظر صاحب نے نہایت عمدگی سے لفظیات کا بہترین استعمال کرتے ہوئے شاہ صاحب کے سروں کو قلم بند کیا ہے مجھے بالخصوص وہ ہیروئن کی داستانیں بہت پسند آئیں جو اپنے وقت کی رول ماڈل ہیں جن میں ۱ ماروی ۲ مومل ۳ سسی ۴ نوری ۵ سوہنی اور لیلی وغیرہ شامل ہیں۔ ‏

‏1 "دنیا میں ابتدا ہی سے کیسا سفر ہوا”

"سسی ترا جنم جو برہمن کے گھر ہوا”

‏2 "سچی وطن پرست ہمیشہ تھی ماری”

"اس کو عزیز اہل وطن کی تھی زندگی”

‏3 "گجرات کا تھا حسن بڑی خوش جمال تھی”

"یہ سوہنی تو حسن کی اعلی مثال تھی”

‏4 "یہ داستان ہے مومل و رانو کے نام سے”

"پرکیف ہے یہ عشق و محبت کے جام سے”

‏5 "رہروان شوق کا انجام یہ ہوا”

"لیلا مری تو ساتھ میں راجا بھی چل بسا”
الغرض ڈاکٹر جاوید منظر صاحب نے وہ کام کر دکھایا ہے جسے شاہ صاحب کے باب میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔  ‏”جہان لطیف” کا مطالعہ ہمیں نئے جہان کی سیر کرواتے ہوئے ماضی، دھرتی اور فکر کے دریچے کھولتا ہے۔ یقین نہ آئے تو کتاب کا مطالعہ کیجیے۔

تبصرے بند ہیں۔