یوپی میں ہوگا نیا سیاسی تجربہ

مظفر حسین غزالی

مسلم، دلت دوایسے طبقے ہیں جو ساتھ آجائیں تو سیاست کی نئی عبارت لکھ سکتے ہیں۔ انہیں دور رکھنے کے لئے ایک کو دوسرے کے خلاف استعمال کیاگیا۔ سیاسی پارٹیوں نے اس کیلئے مختلف تجربے کئے۔ منڈل کمیشن کا نفاذ بھارت کی سیاست میں ٹرننگ پوائنٹ ہے۔ اس کے لاگو ہونے کے بعد ملک میں پسماندہ ذاتیں اور دلت سیاست میں آگے آئے۔ ان میں یہ خیال پیدا ہوا کہ وزیراعظم کوئی پسماندہ یادلت بھی ہوسکتا ہے۔ کئی ریاستوں میں پسماندہ اور دلت لیڈر شپ ایک دوسرے کی حریف بن کر ابھری، اترپردیش ان میں سے ایک ہے۔ یہاں ایک طرف مایاوتی تو دوسری طرف ملائم سنگھ ہیں۔
آنے والے 2017کے انتخاب میں کامیابی کیلئے دونوں ہی کو مسلم ووٹ درکار ہیں۔ مشرقی اترپردیش میں مختار انصاری کے اثر کو دیکھتے ہوئے سماجوادی پارٹی نے قومی ایکتا دل کو اپنے ساتھ ملالیا ہے، جبکہ اکھلیش اس کے حق میں نہیں تھے۔ خبر یہ بھی ہے کہ مختار انصاری کے بڑے بھائی اور ان کی پارٹی کے دوسرے امیدوار سپا کے نشان پر چناؤ لڑیں گے۔ جانکاروں کا کہنا ہے کہ 2017کے چناؤ کو جتانے کیلئے ہی امر سنگھ کو پارٹی میں لایا گیا ہے۔ امرسنگھ جوڑتوڑ کرنے ومہرے بیٹھانے میں ماہر مانے جاتے ہیں۔ ان کے سپا میں آنے پر پارٹی کا ایک دھڑا خوش نہیں ہے۔ وہیں اکھلیش یادو راہل گاندھی کی تعریف کرکے کانگریس کے ساتھ اپنے رشتے سدھارنے کا اشارہ دے رہے ہیں۔ وزیراعظم نریندرمودی نے وجے دشمی پر لکھنؤ میں راوڑ دہن کرکے بھاجپا کا چناوی بگل بجادیا ہے۔ اس موقع پر دہشت گردی کو انسانیت کے خلاف بتاتے ہوئے انہوں نے کہاکہ دہشت گردی رہے گی توانسانیت نہیں رہ سکتی۔ دہشت گردی کو کسی بھی حال میں برداشت نہیں کیاجائے گا۔ انہوں نے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے وسرجیکل اسٹرائیک کو کامیاب بنانے کیلئے فوج کی تعریف کی۔ اس موقع پر انہوں نے جے شری رام کے نعرے بھی لگوائے اورکہا کہ نعرے اتنی زور سے لگائے جائیں کہ اس کی آواز دور تک جائے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی یوپی انتخاب میں کوئی رسک لینا نہیں چاہتی۔ وہ ہر حال میں کمل کھلانے کی خواہشمند ہے۔ اس لئے ایک ساتھ کئی فرنٹ پر کام کررہی ہے۔ ایک طرف کیشو پر ساد موریہ کے ذریعہ پسماندہ ووٹوں کو جوڑنے کی کوشش کی گئی ہے تودوسری طرف دیا شنکر سنگھ کو پارٹی سے نکالے جانے سے ناراض ٹھاکر ووٹوں کو ساتھ لانے کیلئے دیا شنکر کی اہلیہ سوامی سنگھ کو مہیلا مورچے کا صدر بنایاگیا ہے۔ سواتی زمانۂ طالب علمی میں اے بی وی پی کی ممبر رہ چکی ہیں۔ دیاشنکر سنگھ کو مایاوتی کے بارے میں ہتک آمیز الفاظ استعمال کرنے کی وجہ سے نکالاگیا تھا۔ بی جے پی نے ان کے بیان سے پلہ جھاڑتے ہوئے دوری بنالی تھی۔ لیکن اب ان کی اہلیہ کو ذمہ داری دینے سے ضرور کچھ ظاہر ہوتا ہے۔
سرجیکل اسٹرائیک کو بھی بھاجپا آنے والے انتخابات میں بھنانا چاہتی ہے۔ وزیردفاع کا آگرہ میں استقبال اس کا اشارہ ہے۔ کیرانہ کی طرح مشرقی یوپی کے کئی اضلاع سے ہندوؤں کے نقل مکانی کا سروے بھی کرایاجارہا ہے۔ پارٹی کے صدر امت شاہ ریاست میں ریلیاں کرکے یہ جتانے کی کوشش کررہے ہیں کہ ان کا مقابلہ سماجوادی پارٹی سے ہے۔ اترپردیش میں کانگریس کی مضبوطی بھی بھاجپا کی انتخابی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ اس لئے ایسی بیان بازی کی جارہی ہے۔ جس کا جواب دے کر کانگریس چرچا میں بنی رہے۔ مقصد ہے مسلم ووٹوں کو سپا اور کانگریس میں بانٹنا۔ مسلمانوں کے بغیر جیت حاصل کرنے کا تجربہ بھاجپا آسام میں کرچکی ہے۔ یوپی میں شاید وہ کوئی اور تجربہ کرنا چاہتی ہے۔
منڈل کمیشن کی وجہ سے آئی سیاسی تبدیل پر سنگھ نے انتہائی سنجیدگی سے غور کیا، اور ہندوتو میں برہمن کے بجائے برہمن واد کے اقتدار کو بچانے کا فارمولہ بنایا۔ اس کو سوشل انجینئرنگ کا نام دیاگیا۔ یعنی پسماندہ ذاتوں کے لوگوں کواقتدار کی اہم جگہوں پر بیٹھانا۔ ان میں بنگارو لکشمن کو پارٹی کا صدر بنانے سے لے کر کلیان سنگھ، اومابھارتی اور نریندرمودی وغیرہ کو وزیراعلیٰ بنانے کے فیصلوں کو یاد کیا جاسکتا ہے۔ سوشل انجینئرنگ سے سنگھ اور ہندوتو کے نظریہ کو یہ فائدہ ہوا کہ نہ صرف برہمن واد کی مخالفت رک گئی بلکہ برہمن واد کی بنیاد تیار ہوتی دکھائی دینے لگی۔ پسماندہ طبقے کی جو ذاتیں اور دلت ہندوتو کے نظریہ کی مخالفت، ان پر برہمنیت کے تسلط کی وجہ سے کرتے تھے۔ ان میں سے کئی کو برہمن واد کا سرگرم سپاہی بنانے دینے میں سنگھ کو کامیابی ملی۔ فرقہ وارانہ حملوں میں بھی ان کا رول بہت بڑا رہا ہے۔
اس سوشل انجینئرنگ کو ذہن میں رکھ کر یوپی کے آنے والے انتخاب پر غور کیا جائے تو موریہ کو بھاجپا کا صدر بنائے جانے کی وجہ سمجھ میں آتی ہے۔ یہاں رک کر یہ بھی غور کرتے چلیں کہ اگر بھارتیہ جنتا پارٹی یوپی میں کامیاب نہیں ہوتی توپھر وہ کس کو اترپردیش کی گدی پر بیٹھانا چاہے گی؟ دھیان دیں توامت شاہ سماجوادی پارٹی کو اپنا مد مقابل بتاکر اس کا جواب دے چکے ہیں۔ عام آدمی یہ سوال کرسکتا ہے کہ بھاجپا ایسا کیوں کرے گی؟ اس کا سپا سے کیا تعلق ہے؟ ویسے تو ملائم سنگھ بھاجپا اورسنگھ کے تئیں ہمیشہ ملائم رہے ہیں۔ یہی ہیں جنہوں نے بابری مسجد پر گولی چلواکر بھارتیہ جنتا پارٹی کو پہلی مرتبہ مرکز میں اقتدار تک پہنچایاتھا۔ سپا کے نرم رویہ سے ہی مظفر نگر جیسا واقعہ ہوا۔ جس نے بھاجپا کو پارلیمانی انتخاب میں تہتر سیٹیں دلوائیں۔ یوپی میں فرقہ پرست، لینڈ مافیا اور کرمنل کس کی شہ پر کھلے گھوم رہے ہیں؟ یادوسنگھ معاملہ سی بی آئی کو کیوں نہیں سونپا گیا؟ مائنارٹی فائنینس کارپوریشن سے کتنے مسلمانوں کو کاروبار کیلئے قرض دیاجا سکا؟ موڈرانائزیشن آف دینی مدارس اسکیم کے تحت کتنے مدرسوں کو جدید آلات سے آراستہ کیاگیا؟ کتنے مسلمانوں کو نوکری ملی؟ سچر کمیٹی کی سفارش کے تحت اوبی سی کوٹے میں مسلم اوبی سی کا کوٹہ مقرر ہو پایا؟ ہر معاملے میں ملائم سنگھ نے سنگھ کے سپاہی کا رول ادا کیا ہے۔
گجرات کے اونا میں دلت لڑکوں کو آدھا ننگا کرکے پیٹے جانے، مایاوتی کے بارے میں نازیبا الفاظ نے دلتوں کو آندولن کرنے پر مجبور کردیا۔ پہلے تو اس پر کوئی خاص دھیان نہیں دیاگیا۔ لیکن اس تحریک کے شدت اختیار کرنے ونئی دلت لیڈر شپ ابھرنے سے سنگھ اور بھاجپا بے چین ہوگئے۔ وزیراعظم نریندرمودی کو کئی مرتبہ اس مسئلہ پر بولنا پڑا۔ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر گولی مارنا ہے تو مجھے مارو۔ موہن بھاگوت نے وجے دشمی کے موقعے پر آر ایس ایس کے کارکنوں کو سماجی نابرابر کو دور کرنے کی ہدایت دی ہے۔ یہ بات سنگھ اور بھاجپا دونوں جانتے ہیں کہ اتنے بھر سے دلتوں کا غصہ شانت ہونے والا نہیں ہے۔ دلتوں کی ناراضگی کا اسے گجرات، پنچاب اور یوپی میں خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ اسے اپنی سوشل انجینئرنگ ناکام ہوتی نظرآرہی ہے۔ اس لئے وہ یوپی میں دلت ووٹوں کو نیوٹل کرنے کا تجربہ کرنا چاہتی ہے۔
اترپردیش میں بی جے پی کا سیاسی منصوبہ یہ ہوسکتا ہے کہ مسلمان اور دلت ووٹ سپا اور کانگریس میں بٹ جائیں تاکہ بہوجن سماج پارٹی کامیاب نہ ہو۔ پارلیمنٹ میں پہلے ہی اس کے پاس کوئی سیٹ نہیں ہے۔ ایسی صورت میں پارٹی کے اندر ٹوٹ یا قیادت بدلنے کی آواز اٹھ سکتی ہے۔ بھاجپا اس کا فائدہ اٹھاکر اپنی پسند کے لوگوں کو بی ایس پی پر مسلط کرانے کی کوشش کرے گی۔اگر یہ فارمولہ کامیاب ہوتا ہے کہ تودوسری ریاستوں میں بھی اس پر عمل کیا جائے گا۔مایاوتی یاپھر دلتوں میں جونئی قیادت ابھررہی ہے لگتا ہے وہ سنگھ اور بھاجپا کے دباؤ میں نہیںآرہی۔اس لئے یہ اس وقت ہندوتو اور برہمن واد کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے جوسنگھ اوربھاجپا کیلئے ناقابل برداشت ہے اس لئے یوپی کے عوام کو اس موقع پر سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ہوگا۔
چناؤ توآتے جاتے رہتے ہیں لیکن یوپی کایہ چناؤ اس لحاظ سے اہم ہے کہ کیاملک میں سیکولر جمہوری حکومت رہے گی یا پھر فسطائی،اس کا فیصلہ یوپی کے الیکشن سے ہوگا۔ دلت اور مسلمان جس طرف جائیں گے پلڑا اسی کا بھاری رہے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مایاوتی بھی اس نزاکت کو محسوس کریں اور مسلمانوں کو اہمیت دیں۔ مسلمان ایسی قوم ہے جس کا ساتھ دیتی ہے دل کھول کر دیتی ہے یہ الگ بات ہے کہ بعد میں دھوکہ بھی اسی سے ملتا ہے۔ مسلمانوں کو دلتوں کی اوردلتوں کو مسلمانوں کی ضرورت ہے۔ بس دونوں کو ایک دوسرے کے مفادات کا خیال رکھنا ہوگا تبھی دونوں اس ملک میں عزت کی زندگی گزارسکیں گے۔ ضرورت کا رشتہ زیادہ مضبوط ہوتا ہے سیاست میں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔