بزم غزل کے زیر اہتمام بین الاقوامی آڈیو مشاعرہ کا انعقاد

کامران غنی صبا
بہت ناراض ہیں ظل الٰہی : ذرا لہجہ بدلنا چاہتا ہوں

پٹنہ(پریس ریلیز) واٹس ایپ کے سب سے مقبول ادبی گروپ ’بزم غزل‘ کی طرف سے 17 ویں بین الاقوامی آن لائن مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا۔ اس مشاعرہ کی خاص بات یہ تھی کہ سبھی شعرا و شاعرات نے اپنی آواز میں کلام پیش کیے۔ مشاعرہ کی صدارت قطر میں مقیم معروف شاعر اور بزم اردو قطر کے جنرل سکریٹری احمد اشفاق نے کی جبکہ نظامت کافریضہ ترانۂ بہار کے خالق نوجوان شاعر ایم آر چشتی نے انجام دیا۔ صدر مشاعرہ احمد اشفاق نے اپنے صدارتی کلمات میں بزم غزل کی بین الاقوامی شہرت و مقبولیت پر مسرت کا اظہار کیا اور منتظمین بزم کو ان کی کامیابی پر مبارکباد پیش کی۔ مشاعرہ میں جن شعرائے کرام نے شرکت فرمائی ان کے اسمائے گرامی ہیں احمد اشفاق اشفاق، فراغ روہوی، مرغوب اثر فاطمی، نیاز نذر فاطمی، فوزیہ رباب، نور جمشید پوری، اصغر شمیم، رئیس رحمان، نصر بلخی، منصور اعظمی، منصور قاسمی،ایم آر چشتی، کامران غنی صبا، منصور خوشتر، خورشید الحسن نیر، جمیل اختر شفیق، جہانگیر نایاب، بشر رحیمی، ایم رضا مفتی، یوسف جمیل،انعام عازمی، ارکان احمد صادق۔ مشاعرہ میں پیش کیے گئے کلام کا منتخب حصہ ہدیۂ قارئین ہے:
احمد اشفاق
ہم سے تہذیب کا دامن نہیں چھوڑا جاتا
دشتِ وحشت میں بھی آداب لیے پھرتے ہیں
فراغ روہوی
بہت ناراض ہیں ظل الٰہی
ذرا لہجہ بدلنا چاہتا ہوں
مرغوب اثر فاطمی
کر گیا جب کوئی روشن ذہن و دل کی کھڑکیاں
دیکھتا ہوں میں جہاں کو اک الگ ہی رنگ میں
ڈاکٹر اسرائیل رضا
دینِ محمدی کو بچایا حسینؓ نے
باطل کے آگے سر نہ جھکایا حسینؓ نے
فوزیہ رباب
تمہاری یاد ہے ماتم کناں ابھی مجھ میں
تمہارا درد ابھی تک سیہ لباس میں ہے
نیاز نذر فاطمی
نبھاتا ہے وہ ہر وعدہ مگر اک بات ایسی ہے
ہٹو جی تم بڑے وہ ہو یہ کہہ کر ٹال دیتا ہے
نور جمشید پوری
خود ہی گر گر کے سنبھلنے کا ہنر سیکھا ہے
کون آتا ہے یہاں ہاتھ بڑھانے والا
اصغر شمیم
غم کا سیلاب کیا ڈرائے گا
حادثوں کے بھنور میں رہتا ہوں
رئیس رحمان
تم کو دیکھا آنکھ میری خوبصورت ہو گئی
تم کو چاہا تو مجھے جینے کی چاہت ہو گئی
نصر بلخی
کبھی جی چاہتا ہے توڑ دوں میں سارے رشتوں کو
وہ اک سازش ہے برسوں سے پسِ دیوار چلتی ہے
منصور اعظمی
محفل کو سجانے میں ذرا دیر لگے گی
ماحول بنانے میں ذرا دیر لگے گی
منصور قاسمی
خواہشوں کا بنا کے تاج محل
اپنے ہاتھوں سے توڑ آئے ہیں
کامران غنی صبا
ستارے بامِ فلک سے خورشید کی شہادت پہ رو رہے ہیں
زمیں پہ شبنم کا قطرہ قطرہ، اک استعارہ ہے روشنی کا
منصور خوشتر
جو تم پر نظم لکھی تھی نشانی چھوڑ جائیں گے
محبت کی یہ دولت جاودانی چھوڑ جائیں گے
خورشید الحسن نیر
یہ راستہ میاں انکار تک پہنچتا ہے
وہ پیار ہو کہ عداوت میں کچھ غلو کرنا
جمیل اختر شفیق
آسماں ہے چھت اپنی اور زمین بستر ہے
ہم فقیر لوگوں کا کوئی گھر نہیں ہوتا
جہانگیر نایاب
جب بھی فرصت ملے چلے آنا
قصۂ غم تجھے سنانا ہے
بشر رحیمی
اوروں کو ہوگی مجھ سے عداوت ہوا کرے
لیکن کسی سے کوئی عداوت نہیں مجھے
ایم رضا مفتی
وقت کی ٹھوکر تلے وہ رہ نہ پایا دیر تک
گردشِ ایام میں اک شخص پاگل ہو گیا
یوسف جمیل
اور کچھ روز مہلت دے ائے مفلسی
اور کچھ روز بیٹی سیانی نہ ہو
انعام عازمی
تمنا جس کی تھی ہم کو اسے پانا ضروری تھا
محبت میں حدوں کو پار کر جانا ضروری تھا
ارکان احمد صادق
پل دو پل کی ہے یہ زندگی دوستو
دل کسی کا دکھانے سے کیا فائدہ

تبصرے بند ہیں۔