یوگا تندرستی کی ضمانت بھی تو نہیں

رویش کمار

"یوگا کسی مذہب کی سیلز پچ نہیں ہے، یوگا اندرونی انجینئرنگ کا ذریعہ ہے جو آفاقی طور پر افادیت کا حامل ہے۔ یوگا کو ہندو کہنے پر میں اکثر کہتا ہوں کہ ایسا کہنا ویسا ہی ہے جیسے یہ ماننا کہ نظریہ اضافت   ایک یہودی نظریہ ہے۔ جغرافیائی طور پر بھلے ہی یوگا کی بنا برصغیر میں پڑی ہے لیکن خود آگہی کے اس سائنسی طریق کار میں مذہب کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ "

ٹائمز آف انڈیا کے اسپیکنگ ٹری کالم میں سدگورو جگی واسودیو نے یہ بات کی ہے۔ اقوام متحدہ میں یوگا کے دن پر خطاب کرتے ہوئے سدگورونے یہ بھی کہا کہ "یوگا بھارتی نہیں ہے۔ اگر آپ ایسا سوچتے ہیں تو آپ کو یہ بھی سوچنا چاہئے کہ کشش ثقل یوروپی ہے۔ "

ایسا لگ رہا ہے یوگا کی تشریح کو لے کر کچھ یوگا گوروؤں اور وزیر اعظم کے درمیان نظریاتی کشمکش چل رہی ہے۔ کئی نکات پر دونوں فریقین متفق بھی ہیں لیکن کئی مقامات پر غیر متفق۔ لیکن کھل کر کہنے کی جگہ اپنی بات رکھنے کے انداز میں یہ سب جوابات ظاہر ہورہے ہیں۔ چندی گڑھ میں وزیر اعظم مودی نے کہا کہ "یوگا خدا کو ماننے والوں کے لئے بھی ہے اور نہ ماننے والوں کے لئے بھی ۔ یوگا مذہبی سرگرمی نہیں ہے۔ اسے لے کر تنازعہ نہیں ہونا چاہئے۔”

امید ہے اب کوئی بھگواپوش  ترجمان وزیراعظم یا سدگورو جگی واسودیو جیسی سرکردہ ہستیوں کے پیچھے پڑنے کی ہمت نہیں دکھائے گا اور دوسرے درجے کی اشتعال انگیز بحث کرنے والے چینلوں کو بھی پیغام جائے گا۔ اب کوئی یہ نہیں کہے گا کہ سدگورویا وزیر اعظم کون ہوتے ہیں کہنے والے کہ یوگا مذہبی نہیں ہے۔ ہندو نہیں ہے اور تو اور بھارتی ہی نہیں ہے۔ ہم تو دو سال سے گلا پھاڑ کر اس کا رشتہ ہندو مذہب، ہندو ثقافت کی برتری  سے جوڑ رہے ہیں اور اب کیسے مان لیں کہ یوگا مذہبی نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کو یہ پیغام جانا چاہئے۔

گزشتہ سال یوم یوگا کے موقع پر این ڈی ٹی وی کے منیش کمار سے بات کرتے ہوئے سوامی نرجنانند جی نے ایسی ہی بات کہی تھی۔ مونگیر کے بہار اسکول آف یوگا کے بارے میں بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ منیش کے ایک سوال کے جواب میں نرجنانند جی نے کہا تھا کہ "یوگا طرز زندگی ہے۔ اگرچہ بہت سے لوگ اس کے مذہب سے لے کر ثقافت تک سے جوڑے جانے کو لے کر الجھن میں ہو سکتے ہیں اور اسے ہندو مذہب کا حصہ بتانے لگتے ہیں لیکن جو یوگا کے بارے میں جانتے ہیں، وہ تسلیم کرتے ہیں کہ یوگا اپنے آپ میں ایک ثقافت ہے جس کی مدد سے ہم اپنی زندگی کی ہر سرگرمی میں برتری حاصل کر سکتے ہیں۔ ” انہوں نے یہ بھی کہا کہ” یوگا کا کوئی مذہب نہیں ہے۔ "

پہلے سال ان باتوں کو نہیں سنا گیا لیکن کیا دوسرے سال میں ٹھیک سے سنا جا سکے گا؟ یوم یوگا کے آتے ہی سوريہ نمسكار سے لے کر اوم کو لے کر تنازعے پیدا کئے جانے لگتے ہیں۔ ایک مکمل بریگیڈ ہے جو سوريہ نمسكار کو لے کر ہنگامہ رچتا رہتا ہے۔ حکومتیں بھی اسکولوں میں سوریہ نمسکار کی پابندی کروانے کا فیصلہ کرتی رہتی ہیں۔ جبکہ سدگورو جگی واسودیو کہتے ہیں کہ "یوگا نہ تو جسم کی عبادت ہے نہ سورج کی۔ اسے جسمانی چستی کی ورزش  تک محدود کر دینا اتنا ہی افسوسناک ہے جتنا اسے کوئی مذہبی اصول گرداننا۔ "

ایک ماسٹر کہتے ہیں کہ یوگا محض جسمانی ورزش نہیں ہے۔ نرجنانند جی نے کہا ہم جن آسنوں کو یوگا سمجھتے ہیں وہ یوگا کا صرف دسواں حصہ ہیں۔ باقی کا 90 فیصد یوگا آسنوں سے ماورا ہے۔ لیکن وزیر اعظم تو اس کے برعکس کہتے ہیں کہ صفر بجٹ میں صحت کاکوئی بیمہ نہیں ملتا، لیکن یوگا صفر بجٹ میں صحت کا ضامن ہے۔ ایک طرف صفر بجٹ کی بات کرتے ہیں پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ دنیا میں یوگا بڑا کاروبار بھی بنتا جا رہا ہے۔ دنیا کے ہر ملک میں یوگا ٹرینر کی ضرورت ہے۔ یوگا کے ساتھ اربوں کھربوں کام وابستہ ہو گیا ہے۔

یوگا صفر بجٹ میں صحت کی انشورنس بھی دیتا ہے اور اربوں کھربوں کا کاروبار بھی پیدا کر دیتا ہے۔ کیا ان باتوں میں تضاد نہیں ہے؟ ویسے بہت اچھا ہے کہ یوگا روزگار پیدا کرنے کا ذریعہ بنے لیکن یہ پیغام دینا کہ یوگا کوئی مفت میں دستیاب چیز ہے مجھے لگتا ہے کہ وزیر اعظم کو اپنی باتوں پر پھر سے غور کرنا چاہئے۔ بغیر استاد کے سب کے لئے یوگا کرنا ممکن نہیں ہوتا ہے۔ بہت سے یوگا گورو وں اور یوگا کیمپوں کے لئے باقاعدہ فیس لگتی ہے۔ بڑے بڑے گورو وں نے یوگا کے پیکیج بنائے ہیں جو کافی مہنگے ہیں۔ اس لئے یوگا کو لے کر بھی وہی امتیاز قائم ہے جو معاشرے میں دیگر باتوں کو لے کر ہے۔ جس کے پاس پیسہ ہے یوگا اسی کے لئے دستیاب ہے۔

وزیر اعظم کی صحت کے بیمے، صحت اور تندرستی  کی ضمانت والی بات اور سدگر جگی واسودیو، سوامی نرجنانند جی کی باتوں میں اتنا فرق کیوں ہے۔ گورو لوگ کیوں کہہ رہے ہیں کہ یوگا کو صحت و تندرستی میں مت سمیٹيے، وزیر اعظم کیوں بار بار اسے صحت اور ویل نیس میں محدود کررہے ہیں؟ صحیح بات یہ ہے کہ یوگا اب صرف یوگا نہیں رہا۔ یہ مذہبی، سیاسی پیکیج کا حصہ بن چکا ہے۔

وزیر اعظم نے یہ بھی کہا ہے کہ یوگا حصول کی راہ نہیں ، نجات کا راستہ ہے۔ چھوڑ نے اور دینے کا راستہ ہے۔ آج کا متوسط طبقہ یوگا کی طرف متوجہ ہوا ہے۔ اس نجات نہیں وصولی چاہئے۔ طرز زندگی یوگا سے نہیں اقتصادی پالیسیوں میں تبدیلی سے بدلتی ہے۔ اقتصادی مسائل میں پھنسا انسان یوگا سے نجات نہیں پا سکتا ۔

ایک مسئلہ اور ہے۔ کئی لیڈروں اور وزراء کے لئے یہ خلوص کا دکھاوا اور ذاتی ترویج  کا ذریعہ بھی بن گیا ہے۔ نائب گورنر کرن بیدی کی سیلفی تصویر یوم یوگا کے مقصد کو ہلکا کرتی ہے۔ کرن بیدی ہی نہیں تمام عوام بھی یوگا کے بعد سیلفی کے لئے وزیر اعظم کے پاس بھگدڑ مچانے لگتے ہیں۔ ان کی مقبولیت سے حسد نہیں ہے مگر اس میں کیا شک ہے کہ سیلفی نفسیاتی عارضے کی صورت بھی ہے۔ میں بھی سیلفی سے پریشان رہتا ہوں۔

اگر پہلے سے یوگا عوام میں  بڑے پیمانے پر نہیں پہنچا ہوتا تو آج کسی اسٹیڈیم میں ہزاروں کی تعداد میں جمع کرنے کے لئے لوگ نہیں ملتے۔ اچھا ہے کہ اس کا زیادہ پھیلاؤ ہو رہا ہے۔ مگر فرید آباد میں رام دیو کے پروگرام کے راستے میں بی جے پی کے قومی صدر امت شاہ کے پوسٹر کیوں لگے تھے؟ یوگا جب مذہبی نہیں ہے، بھارتی نہیں ہے تو یہ سیاسی کس طرح ہونے لگا؟ ہمارے نمائندے امت وِج نے جب رام دیو سے پوچھا تو کہنے لگے کہ یہ تو لوگوں کا پیار ہے۔ پر بابا کیوں نہیں کہہ سکے کہ پھر تو یوگا فیل ہے۔ اگر یوگا کرتے وقت آپ اپنے تجارتی اور سیاسی کردار کو کچھ دیر کے لئے ترک نہیں کر سکتے تو پھر آپ بتائیے ایک اسٹیڈیم میں ہزاروں لاکھوں کے ہجوم کی ہلچل میں یوگا کی یکسوئی کس طرح حاصل کر سکے ہوں گے۔ سیاسی پوسٹر لگانے والوں کی نیت یوگا میں تھی یا مہم میں تھی؟

مرکز سے لے کر ریاستی حکومتوں تک نے یوگا اشتہارات پر کروڑوں روپے خرچ کئے ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر ٹی وی کے لئے بنایا گیا  آسنوں کا اشتہارکہیں زیادہ بامعنی اور پرکشش لگا۔  لیکن زیادہ تر اشتہارات اپنی معنویت ثابت کرنے کے لائق نہیں تھے۔ پورا زور ایک دن کے انعقاد کے بہانے سے ہفتے بھر کے اشتہار پرہو جاتا ہے۔ اس کے بجائے آسنوں کے اشتہارات کو سال بھر چلانا چاہئے جو بہتر طریقے سے بنائے گئے ہیں۔ حکومت کو غور کرنا چاہئے کہ 50 سے زائد وزراء کو الگ الگ مقامات پر بھیج کر وہ اضافی طور سے کیا حاصل کرنا چاہتی تھی۔ کیا یہ کام یوگا گورو نہیں کر سکتے تھے؟ کوئی یوگا ٹیچرنہیں کر سکتا تھا؟ وزراء کی موجودگی یوگا کو سرکاری بنا رہی تھی یا نہیں؟

یوگا اگر سادگی کا طرز عمل ہے تو پھر یوم یوگا کے موقع پر شکوہ و عظمت اور مخلصی کا دکھاواکیوں ہوتا ہے۔ یوگا کی وکالت کرنے والے کچھ وزیر اور لیڈر فٹ لگتے ہیں باقی کے جسموں کو دیکھ کر لگتا نہیں کہ مناسب طریقے سے یوگا کرتے بھی ہوں گے۔ ضروری ہے کہ حکومت کے وزیر خود کو یوگا میں مہارت حاصل کریں۔ احتیاط رکھنی چاہئے کہ وہ یوگا کے نمائندے بن کر جا رہے ہیں وزیر نہیں۔ سخت جسم بنائیں اور طرز عمل میں سادگی لائیں۔ یوگا اگر سچ کہنے کی ہمت دیتا ہے اور ان کا یقین یوگا میں ہے تو انہیں سچ ہی کہنا چاہئے بھلے ہی وزارت کا عہدہ جاتا رہے!

یوگا آپسی اختلافات و تضادات کو ہوا دینےکا ذریعہ نہیں ہے بلکہ خود کو سادھنے کی ریاضت ہے۔ ہم سب کی زندگی تضادات سے گھری ہے۔ یہ جتنے حکومت میں ہیں اتنے ہی صحافی میں ہیں۔ میں خود یوگا کرتا ہوں۔ آس پاس ہلکی سی آواز بھی یوگا سے توجہ بھٹکا دیتی ہے۔ اسٹیڈیم، پارک اور کیلاش کھیر کے ساتھ گاتے ناچتے ہوئے پروگراموں کو اگر یوگا ثابت کیا جا سکتا ہے تو پھر کیا کہا جائے اور کس سے کہا جائے؟ بہتر ہے عوام کے اتنے پیسے خرچ کرنے کے بعد یوگا کرنے کے لئے کہا جا رہا ہے تو کر لیا جائے۔ آپ کو افسوس نہیں ہوگا۔

یوگا کے بارے میں تمام تشریحات کو پڑھيے۔ ایک سے ایک گورو بتاتے ہیں کہ یہ طرز زندگی ہے۔ وزیر اعظم نے ٹھیک کہا کہ یہ ایثار کرنے کے لئے ہے مگر یہ بات ان کی ہی جملہ اقتصادی پالیسیوں سے میل نہیں کھاتی ہے۔ اس میں ان کا کوئی قصورنہیں ہے مگر کیا یہ سچ نہیں ہے کہ موجودہ معیشت حد درجہ صارفیت  پر ہی مبنی ہے؟ ہماری سیاست کا شعار اور یوم یوگا پرصرف کی جانے والی رقم وہ طرز عمل نہیں ہیں جن کی وکالت یوگا کرتا ہے۔ فی زمانہ یوگا کی شناخت سیاست دانوں سے وابستہ ہوتی جا رہی ہے۔ تو سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ پھر سیاست میں یوگا کی ایک بھی علامت کیوں نہیں دکھائی دیتی؟ سب کچھ چھوڑ دینے کے ارادے سے یوگا کرنے والا لیڈر جب سیاست کے میدان میں جاتا ہے تو سب کچھ حاصل کرنے کی دوڑ میں کیوں لگ جاتا ہے؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔