یکساں سول کوڈکے مطالبہ کے پیچھے کیاسازش ہے؟ (تیسری قسط)

ایک دلت دانشوروی .ٹی.راج شیکھرکامدلل اورجامع تبصرہ

ترتیب: عبدالعزیز
منونے ایساہی کہاہے۔ ہندومذہب نے عورت کی بہتری کی طرف کبھی خیال نہیں کیا۔برہمن کہتاہے کہ خوداپنے اورگائے کے علاوہ ہرکوئی شودر(برہمن کاغلام) ہے ۔ برہمن عورت بھی شودرہے توبرہمن افسر، ماہرقانون اوراخبارنویس کی عقلی دلیل کے ساتھ سوچنے کی ضرورت نہیں ۔ چرچے کے وسیلے اس کے اخلاقی تعلیمات کے باعث جوہرمسلمان کومعلوم ہوتے ہیں، مسلمان اس کے شکنجے سے دورہیں۔اورہرروزاس کے بیسوں غلام اسلام قبول کرکے اس کے جال سے آزادہورہے ہیں۔ اس کی یہ آرزوہے کہ یاتویہ قانون ختم کردیاجائے تاکہ مسلمان بھی دوسروں کی طرح تکالیف کاشکارہوجائیںیااس قانون کوخودبھی اپنالے تاکہ مسلم پرسنل لاء کی خوبیوں کااُسے بھی فائدہ ہو۔لیکن مسلمان نہ ہی اپناقانون بدلنے والے ہیں اورنہ کامن سول کوڈکے روپ میں ہندوؤں کودینے والے ہیں۔ چاہے ای .ایم.ایس.نمبودری پد جیسے سوشلسٹ برہمن کتنی بھی دھمکیاں دے لیں۔
مسلم پرسنل لاء دنیامیں پہلاقانون ہے جس نے شادی کومقدس بندھن کے بجائے ایک عقدکے روپ میں پیش کیاجس میں اس عقدکوتوڑنے کاموقع ہے ۔ جب اس سے دونوں فریقوں کوفائدے کے بجائے نقصان پہنچتاہے ۔اسلام ہی وہ مذہب ہے جس نے دنیامیں سب سے پہلے عورت کووراثت کاحق دیا۔ آج دنیاکاہرقانون شادی کوعقدتسلیم کرتاہے ، جس میں طلاق کاجوازہے ۔ مسلمانوں کی سوسائٹی اعلیٰ درجے کی اخلاقی حیثیت رکھتی ہے ۔ اس کابڑاسبب ایک سے زیادہ شادیاں ہے اورمحض شادی کاعقدہونانہیں۔اسلام زناپرشدت سے غضبناک ہے ۔
جادوگرعورتیں:
اسلامی قانون ساتویں صدی میں مرتب ہوا۔ اس صدی اوربیسویں صدی کے درمیان لاکھوں غیرمسلم عورتیں جادوگرہونے کی سزامیں یاتوپانی میں ڈبودی گئیں ہیںیاآگ میں جلادی گئی ہیں۔ چونکہ یوروپ کے قوانین میں طلاق یازیادہ شادیوں کاجوازنہیں تھاتوشوہروں نے داشتائیں رکھنااورناپسندیدہ بیویوں پر’’جادوگری‘‘کاالزام دیناشروع کیا۔ اس قانون کوچرچ ، حکومت اورسماج نے منظورکیاتھا۔ جادوگری کے الزام کے لئے ثبوت کے لئے یہ طریقہ تھاکہ ملزمہ کے ہاتھ پاؤں باندھ کرپانی میں ڈال دیاجاتاتھا، جس میں وہ ڈوب کریقینامرجاتی تھی۔ تب پادری اس کواس الزام سے بری کرکے بخشش کی دعامانگتے ۔اگراتفاقاًوہ ڈوب کرنہ مرتی تواس سے اس کے جادوگرہونے کاثبوت لیاجاتاتھاکہ اس کے پاس شیطانی قوت ہے ، جس کے زورسے وہ ڈوب نہ سکی ۔ ایسی حالت میں اس کوسزامستحق قراردیاجاتا۔اورسزایہ تھی کہ اس کولکڑیوں کے انبارپرزندہ جلادیاجا۔ اس طریقہ سے یااُس طریقے سے ، جیسے ہی کسی عورت پر’’جادوگری‘‘کاالزام لگایاجاتاہے تواس کی موت یقینی تھی۔ یہ ہے وہ طریقہ جویوروپ میں رائج تھا، جس سے ناپسندیدہ بیویاں ہٹائی جاتی تھیں۔ یہ کہنے کے بجائے کہ ’’میں نے تم کوطلاق دی‘‘ مردیہ کہتاکہ ’’میری بیوی جادوگرہے ‘‘۔اس سے دوفائدے تھے ، موجودہ بیوی کوہٹانااوردوسری بیوی پانا۔
اُلٹی شہوانیت:
ہندوستان میں عورت کودوسرے ملکوں کی بہ نسبت زیادہ مجبوررکھاگیاہے ۔ اس لئے کہ یہ ظلم ہندومذہب اوررواج کے تحت جائزہے ۔ رامؔ کے باپ دسرتھؔ کی تین رانیوں کے علاوہ ہزاروں بیویاں تھیں۔ محض بے وفائی کے شک پررامؔ نے اپنی بیوی سیتاؔ کونکال باہرکیاتھا۔ کرشنؔ کی رادھاؔ ، اس کی بیوی نہ تھا۔ زیادہ ترآریائی خداایسے زناکارتھے جواُلٹی شہوانیت پرلگے ہوئے تھے ۔ اس طرح کئی کئی شادیاں کرنا، بیوی کوچھوڑدینا، داشتائیں رکھنا، زنااورزنابالجبراوریہاں تک کہ ایک ایک عورت کے کئی کئی شوہروں کاہونا۔ (جیساکہ دروپدی کے پانچ پانڈوشوہرتھے)کسی بھی مندرکوچلے جایئے اوراس کاثبوت آپ کودیواروں پرکھداہواملے گا۔ رجنیشؔ کاکہناہے کہ ہندومت کادوسرانام جنسی آزادی ہے ۔ ہندوؤں کے دماغ پرجنسیت کااتناضرورہے کہ وہ مردکے آلۂ تناسل (لنگایالنگ)کی پوجاکے روپ میں مقدم ہوکررہ گئی ہے ۔ ایک ایسارواج جوکسی اورمذہب میں رائج نہیں۔لیکن اونچی ذاتی اِن خداؤں کی پوجامیں لگے ہوئے ہیں جنہوں نے ایسے ایسے برے کام کئے ہیں۔اورآج بیسویں صدی میں کوئی کام کرتاہے تواس کوجرم خیال کرتے ہیں۔ تعزیرات ہندلکھتے ہوئے لارڈمیکالے ؔ نے اگرمسلمانوں کے جرائم کے قانون کوبنیادبنایانہ ہوتاتوبہت سارے جرائم جیسے زنا، زنابالجبر، کئی کئی شادیاں، جوّ ا، فحاشی وغیرہ ہندوستان میں جرم نہ ہوتے ۔ کھتری کی بیوہ پریہ لازم تھاکہ ستی کی طرح شوہرکی لاش پرجل کرمرجائے ۔اوربرہمن بیوہ اپناسرمونڈھ کرگوشہ نشینی پرمجبورتھی۔ لیکن شودرکی بیوہ پرکسی قسم کی کوئی رکاوٹ نہ تھی۔ عام ہندی ، ہندوستانی زبان میں بیوہ اوربدکارعور ت دونوں کے لئے ایک ہی لفظ ’’رانڈ‘‘ ہے۔ اس طرح ایک شودرکی بیوہ گویارنڈی بھی ہے ۔ دیوداسی طریقہ ایک ایساہی رنڈی بازی کاطریقہ ہے جوہندومت نے جائزرکھاہے جوآج بھی استعمال ہوتاہے ۔اوراچھوت عورتیں اُس کی شکارہیں۔ ان عورتوں سے مندرکے پجاری مزے لوٹتے ہیں، جن کے لئے عورت اورروپیہ اچھوت نہیں ہے ۔ اس قسم کاجنسی پاگل آج مسلمانوں کواخلاق کی تعلیم دینے کی کوششیں کررہاہے ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ مردنے ہروقت ہرمقام پرعورت سے جنسی لذت کے لئے غلط فائدہ اُٹھایاہے اوراپنے اوپرکوئی ذمہ داری نہیں لی ہے ۔ یہاں تک کہ خوداپنی ہی ناجائزاولادکی بھی ذمہ داری نہیں لی ہے ۔ سوائے چین اورروس جیسے سوشلسٹ ملکوں کے ، امریکہ میں بھی جودنیاکاسب سے مالدارملک ہے عورت کانچلادرجہ ہے ۔ ایک مالدارشہوت پرست ، کاہل اورآرام پسندمردکے لئے یہی سب سے اچھی بات ہوسکتی ہے کہ صرف ایک قانونی بیوی کی ذمہ داری ہواوراس کے اطراف طرح طرح کی عورتیں، ماتحتوں ، ساتھیوں ، سیلس گرلس ، کال گرلس، گانے والیاں، ناچنے والیاں اورفنکاروں وغیرہ کے روپ میں گھومتی پھرتی ہیں۔ زیادہ ترآریائی خدااس قسم کے زمرے میں آتے ہیں۔لیکن اسلام ان سب کوحرام قراردیتاہے ۔ وہ مردکوشادی کے بغیرجنسی ملاپ پردُرّے مارتاہے ۔ اس کومجبورکرتاہے کہ وہ عورت کوجوکچھ بھی وہ چاہتی ہے ، مہرکے روپ میں اداکرے ۔ عورت کی اوراس کے بچوں کی دیکھ بھال کرے ، اوراس کے بچوں کووراثت میں بھی حق ہے ۔ عورت کوطلاق بھی دیدے تب بھی بچوں کاوراثت میں حق ہے ۔ اس طرح وہ ہراس عورت کے تحفظ کاذمہ دارہے ، جس سے وہ جنسی تعلقات رکھناچاہتاہو۔ مسلم پرسنل لاء کایہی مقصدہے ۔ اس طرح حضرت محمدؐ عورت کے مددگارہوئے ہیں۔ اس لئے مسلم پرسنل لاء عورت کاتحفظ کرتی ہے اورعورت کے وقارکوبڑھاتی ہے ۔(Alfred Guillaume-Islam, Pengnins, 1954, Page 71)
مسلمان مردکے علاوہ دوسری ہستی جواس قانون سے تکلیف محسوس کرسکتی ہے وہ پہلی بیوی ہے ۔لیکن اچھے صحت مندسماج کے بنانے کے لئے ہرکسی کوکچھ نہ کچھ قربانی دینی پڑتی ہے ۔اورحضرت محمدؐکی اخلاقی تعلیم کااثراُن کی اُمت کی عورتوں پراتنازیادہ ہے کہ وہ اس بات کوزیادہ پسندکرتی ہیں کہ اُن کاشوہراُن پرسوکن لائے ، بجائے اس کے کہ ایک گنہگارزناکارہو۔اسلامی شریعت ، اخلاق اورعبادت سے بچنے کے لئے مسلمان دلیلوں کااورمنطق کاسہارانہیں لیتے ۔ جون کی سخت گرمیوں میں بھی پندرہ سولہ گھنٹے تک ایک قطرہ پانی پئے بغیررمضان کے روزے رکھناایک مثال کے طورپربتایاجاتاہے ۔ حضرت محمدؐنے کہاکہ ’’تمام حلال چیزوں میں خداکے اورمیرے نزدیک سب سے مکروہ طلاق ہے ۔‘‘اس لئے مسلمان طلاق کاحق استعمال نہیں کرتے۔
ہم ہندووکیلوں، ججوں اورمفکروں کوجارج برنارڈشا کی کتاب Getting Marriedتمہیدکے مطالعے کی نصیحت کرتے ہیں اورپھرانہیں چیلنج کرتے ہیں کہ اگران سے ہوسکے توکوئی نئی دلیل لے کرآگے آئیں۔ اسلام میں ایک سے زیادہ شادیوں کاجوازسرمایہ کی تقسیم کاایک بڑاسبب رہاہے ۔دوسری اوربعدکی بیویاں ہمیشہ غریب گھروں کی رہی ہیں اوراُن کے مہرپہلی سے بڑھ کررہے ہیں اوروہ بھی ٹھوس غیرمنقولہ جائیدادکے روپ میں ۔ یہ بھی ایک سبب ہے کہ سرمایہ داری اپنی تمام برائیوں کے ساتھ کسی بھی مسلم ملک میں قدم نہ جماسکی۔اورمالداراورغریب کے درمیان اتنازیادہ فرق نہیں رہ سکاہے کہ جتناکہ دوسرے غیرکمیونسٹ ملکوں میں ہے ۔
کسی مذہب نے بھی عورت اورمردکے درجے کوبرابرنہیں کیا، صرف سوشلزم کے تحت عورت کی کمزوری سے ناجائزفائدہ اُٹھانے کی روک تھام اوربرابری کے درجہ کاوجودہے ۔لیکن ہمارے ہندوجنونی سوشلزم میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے بلکہ صرف مسلمانوں کوپریشان کرناچاہتے ہیں۔ ان کواپنے منہ کی کھانی پڑے گی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔