اتحادِ امت کی ایک اہم بنیاد- داعیانہ کردار کی بحالی

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
اختلاف و انتشار موجودہ دور میں امتِ مسلمہ کی شناخت بن گیا ہے۔ یہ اختلاف عقائد کی بنیاد پر بھی ہے اوررسم ورواج کی بنیاد پر بھی۔مختلف فقہی مسالک سے ان کی وابستگی نے بھی ان کے درمیان اونچی اونچی دیواریں کھڑی کر دی ہیں۔ سیاسی تنازعات نے بھی ان کے دلوں میں کدورتیں پیدا کر دی ہیں اور وہ ایک دوسرے کو برداشت کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔یہ اختلافات ہی ان کو زوال و انحطاط کے کھڈ میں گرادینے، انھیں نا کامی سے دوچار کرنے اور ان کی ہوا اکھاڑ دینے کے لیے کافی تھے،مزید ستم یہ ہوا کہ ان کے دشمن ان کے خلاف متحد ہو گئے ہیں اور انہیں صفحۂ ہستی سے مٹادینے کے لیے رات دن ایک کیے ہوئے ہیں۔یہ صورت حال ہمیں عالمی سطح پر نظر آتی ہے اور ملکِ عزیز بھی یہی منظرنامہ پیش کر رہا ہے۔عالمِ عرب ان دنوں میدانِ جنگ بنا ہوا ہے۔بڑی طاقتیں تیسری عالمی جنگ کی تیاری میں ہیں، بگل بجا چاہتا ہے، مہرے سیٹ کردیے گئے ہیں۔ملک شام میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی ہے۔دیگر مسلم ممالک میں شیعی سنی تنازعہ عروج پر ہے۔نہیں کہا جا سکتا کہ کب یہ چنگاری شعلۂ جوالہ بن جائے اور پوری مسلم دنیا کو جلا کر خاکستر کردے۔ہندوستان میں بھی امتِ مسلمہ، جو پہلے ہی سے مختلف دھڑوں میں بٹی ہوئی تھی، اب غیروں نے اسے مسلکی بنیادوں پر مزید تقسیم کرنے کی منصوبہ بندی کر لی ہے اور اس کا کھلم کھلا اظہار بھی کر رہے ہیں۔ امت اپنے دشمنوں کی سازشوں سے بے پروا ان کے جال میں پھنستی جا رہی ہے اور آپس میں دست و گریبان اور کشت و خون کا بازار گرم کیے ہوئے ہے۔
امت مسلمہ کو اتحاد و اتفاق کا حکم دیا گیا تھا اور اختلاف و تفرقہ سے بچنے کی تاکید کی گئی تھی:وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّہِ جَمِیْعاً وَلاَ تَفَرَّقُواْ(آل عمران:103)انھیں ’جسدِ واحد‘ سے تشبیہ دی گئی تھی، جس کے کسی ایک حصے میں کانٹا چبھے تو پورا بدن بے خوابی،بخار اور درد و اذیت کا شکار ہو جاتا ہے۔( صحیح مسلم) انھیں ہوشیار کیا گیا تھا کہ اگر تم باہمی تنازعات سے نہیں بچے تو تمھیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا اور تمھاری ہوا اکھڑ جائے گی: وَلاَ تَنَازَعُواْ فَتَفْشَلُواْ وَتَذْہَبَ رِیْحُکُمْ (الانفال:46)لیکن ان صریح ہدایات و تنبیہات کو امت کی اکثریت نے پیش نظر نہیں رکھا، چنانچہ ان کے عواقب سے دوچار ہوئی اور ان کے لازمی اثرات ظاہر ہوئے۔
امت کا فریضۂ منصبی دعوت الیٰ اللہ(انسانوں کواللہ کی طرف بلانا) ہے۔اقامتِ دین،اظہارِ دین، شہادتِ حق اورامر بالمعروف و نہی عن المنکر وغیرہ اس کی مختلف تعبیریں ہیں۔مسلمانوں کو’خیر امت‘ کے امتیازی لقب سے مشرّف کرتے ہوئے انھیں ان کی اسی ذمے داری کی یاددہانی کرائی گئی تھی:
کُنتُمْ خَیْْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّہِ(آل عمران:110 )
’’دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘
امت ایک عرصہ تک اپنے اس فریضۂ منصبی کو ادا کرتی رہی۔اس نے راہِ حق سے بھٹکے انسانوں تک اللہ کا پیغام پہنچایا اور انھیں سیدھی راہ دکھائی۔جن سرکش انسانوں نے اپنے جیسے انسانوں کو اپنا غلام بنا رکھا تھا، انھیں للکارا، ان کی خدائی کو چیلنج کیا اور ان کی سرکوبی کرکے خلقِ خدا کو ان کے چنگل سے نجات دی۔ ان مظلوم و بے بس انسانوں نے ان کا احسان مانا اور دنیا کی قیادت و سیادت ان کے سپرد کی۔ایک طویل عرصے تک مشرق و مغرب میں ان کی حکم رانی قائم رہی۔ان کی حدودِ مملکت میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔لیکن جب وہ اس فریضے سے غافل ہو گئے، اسے پس پشت ڈال دیا،ان کی توجہ دوسرے معاملات کی طرف ہو گئے، دنیا کی رنگینیوں نے انھیں مسحور کر لیا،ان کے درمیان دین کے جزئی اور فروعی امور اصل قرار پائے اور ان کے اختلاف پر ان کے درمیان تلواریں نکل پڑیں تو ان کی قوت پارہ پارہ ہو گئی، ان کا شیرازہ منتشر ہوگیا اور ذلت و محکومی ان کا مقدّر ٹھہری۔
دین نام ہے عقائد، عبادات اور معاملات سے متعلق چند تعلیمات اور احکام کا۔ان میں سے کچھ بنیادی اور اصولی ہیں تو کچھ جزئی اور فروعی۔جس طرح بنیادی امور کو فروعی بنا دینا غلط ہے ،اسی طرح فروع و جزئیات کو اصل سمجھ بیٹھنا اور ان کو ایمان و کفر کی بنیاد قرار دینا بھی بے اعتدالی اور غلو پسندی کا مظہر ہے۔صحیح رویّہ یہ ہے کہ جس عقیدہ اور عمل کا جو مقام ہو اسے وہی مقام دیا جائے اور اس میں ادنیٰ سی بھی کمی بیشی نہ کی جائے۔دین کی بنیادی تعلیمات قرآن و حدیث میں کھول کھول کر بیان کر دی گئی ہیں اوراللہ کا شکر ہے کہ امت کی غالب اکثریت ان پرمتفق ہے اوران کے سلسلے میں ان کے درمیان اتحاد پایا جاتا ہے۔ دین کے جو احکام فروعی نوعیت کے ہیں، ان میں امت کے اہلِ رائے و دانش کے درمیان اختلافات موجود ہیں اور ایسا ہونا فطری ہے۔اختلاف اگر فطری دائرے میں ہو تو یہ مذموم نہیں ہے، بلکہ یہ ا فرادِامت کے حق میں بہتر ہے، کیاں کہ اس سے فکر و عمل کی راہیں کھلتی ہیں، احکامِ شریعت پر عمل کرنے میں آسانیاں پیدا ہوتی ہیں اور ایک دوسرے کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
ضروری ہے کہ امت کا یہ شعور بیدار کیا جائے کہ وہ اتحاد اور اختلاف کے حدود سے آشنا ہو۔جن معاملات میں اختلافی آرا کی گنجائش ہو ان میں سب کو ایک رائے پر جمع کرنے کی کوشش نہ کی جائے، بلکہ ہر ایک کو اپنی اپنی رائے کی مطابق عمل کرنے کی آزادی دی جائے۔اس کا ایک طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ افرادِ امت کے درمیان اتحاد کے بنیادی نکات کو خوب ابھار کر پیش کیا جائے۔ ان کے سامنے یہ حقیقت واضح کی جائے کہ جب وہ سب اللہ واحد اور اس کے تمام رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں،ان کادین ایک، ان کا قرآن ایک، ان کی منفعت اور ان کا نقصان ایک،تو پھر وہ باہم افتراق و انتشار کا شکار کیوں ہوں۔
امت کے درمیان اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کا ایک ذریعہ یہ ہو سکتا ہے کہ اس کے تمام افراد کو ایک مشن سے جوڑ دیا جائے۔مشن کی وحدت ان کے اختلافات کو ختم کر دے گی یا ان میں بڑی حد تک کمی آجائے گی۔وہ سب مل کر اس مشن کے لیے فکر مند ہوں گے،اس کے لیے تگ و دو کریں گے، اسے کام یاب کرنے کی جدّوجہد میں مصروف ہوں گے، اس راہ میں آنے والی رکاوٹوں کو دور کرنے کی تدابیر اختیارکریں گے،اس راہ میں ایک دوسرے کا تعاون کریں گے۔ایسا کرنے سے ان میں دوریاں کم ہوں گی، ان کے درمیان بغض و نفرت کا خاتمہ ہوگا اوراتحاد و اتفاق کو فروغ ملے گا۔
امت مسلمہ کا فرض منصبی قرآن کی اس آیت میں بیان کیا گیا ہے:
وَلْتَکُن مِّنکُمْ أُمَّۃٌ یَدْعُونَ إِلَی الْخَیْْرِ وَیَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَأُوْلٰءِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ(آل عمران:104)
’’ تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی ہونے چاہییں جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیتے رہیں اور برائیوں سے روکتے رہیں۔ جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے۔ ‘‘
امر بالمعروف و نہی عن المنکرکو ا س آیت میں امت کی ذمے داری قرار دیا گیا ہے۔یہ ذمے داری پوری امت کی ہے یا اس کے چند افراد کی؟اس سلسلے میں علماء کا اختلاف ہے۔ بعض اس کام کو تمام افرادِ امت پر فرض عین قرار دیتے ہیں اور بعض فرضِ کفایہ کہتے ہیں، یعنی اگر چند افراد اس کام کو انجام دیں تو بقیہ سب سے اس کی فرضیت ساقط ہو جائے گی۔اس صورت میں بھی پوری امت پراس کی فکر رکھنا اوراس کے لیے ایک گروہ کو تیا رکرنا لازم قرار پاتا ہے۔(اس موضوع پر تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے مولانا سید جلال الدین عمری کی تصنیف’ معروف و منکر‘،مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی) ۔اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلاَ تَکُونُواْ کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُواْ وَاخْتَلَفُواْ مِن بَعْدِ مَا جَاءَ ہُمُ الْبَیِّنٰتُ وَأُوْلٰءِکَ لَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْم(آل عمران:105)
’’کہیں تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور کھلی کھلی واضح ہدایات پانے کے بعد پھر اختلافات میں مبتلا ہوئے۔ جنھوں نے یہ روش اختیار کی وہ سخت سزا پائیں گے۔‘‘
امت کو دعوت الیٰ اللہ کا حکم دینے کے فوراً بعد انھیں اختلاف و تفرقہ سے بچنے کی تاکید کی جارہی ہے۔ اس سے جہاں اس بات کااشارہ ملتا ہے کہ اگر امت دعوت کے کام سے پہلو تہی برتے گی تو اس کے درمیان اختلافات ابھر آنا عین متوقع ہے، وہیں اس سے یہ بھی نتیجہ نکلتا ہے اگر امت کے درمیان اختلافات موجود ہوں تو کارِدعوت کی انجام دہی کے ذریعے ان اختلافات کو ختم کیا اور ان پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ناظم المعہد الاسلامی العالی حیدر آباد و سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا نے اپنے ایک مضمون میں بجا طور پر لکھا ہے:
’’انسان کے سامنے جب کوئی اہم کام نہیں ہوتا تو وہ غیر اہم کام میں الجھ جاتا ہے۔ اس کی صلاحیتوں کے اظہار کے لیے جب کوئی مثبت اور تعمیری میدان مہیّا نہیں ہوتا تو وہ منفی اور تخریبی کاموں8 میں لگ جاتا ہے۔ مسلمانوں سے ایک بہت بڑا فریضہ دعوتِ دین کا متعلق ہے کہ وہ برادرانِ وطن تک اللہ کے دین کو پہنچائیں اور ادیانِ باطلہ کی ایسی خوب صورتی کے ساتھ تردید کریں جس سے اختلاف و نفرت پیدا ہونے کے بجائے لوگوں میں قبولیت کا جذبہ بیدار ہو۔ یہ بات ممکن بھی ہے اور جو لوگ تھوڑا بہت اس کام کو کر رہے ہیں اس کے نتائج بڑے ہی بہتر اور امید افزا سامنے آرہے ہیں۔ اگر مسلمان اپنے باہمی اختلا فات میں پہلو تہی سے کام لیں اور اختلاف بڑھانے والی باتوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے دعوتِ دین کی طرف متوجہ ہوں تو ان کو اپنی کاوشوں اور صلاحیتوں کے استعمال کے لیے ایک بہتر میدان مل جائے گا، ان کی قوتیں صحیح سمت میں خرچ ہوں گی اور اس سے ان شاء اللہ اس ملک کی تاریخ میں ایک نیا انقلاب کروٹ لے سکتا ہے۔‘‘

تبصرے بند ہیں۔