یکساں سول کوڈ کے نفاذ کاشوشہ

 یکساں سول کوڈ یوپی اسمبلی انتخابات کا بھاجپائی ایجنڈہ تو نہیں؟

ڈاکٹراسلم جاوید

اس سے پہلے کہ مسلم پرسنل لاء اوریکساں سول کوڈ کی گمراہ کن سازش پر آ ئین ہند کی روشنی میں کچھ بات کی جائے، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان اہداف اور منصوبوں پر بات کی جائے جس نے مودی کا میک اپ اتار دیا ہے اور ان کے وعدوں اورعہدو پیمان کی ساری سچائی ملک کے ایک ایک شہری کے سامنے آئینہ کی طرح روشن گئی ہے اورمودی جی کا اصلی روپ پوشیدہ نہیں رہ سکاہے۔
مودی جی نے عام انتخابات 2014سے قبل ہی کشمیر سے کنیا کماری تک لوگوں کو گجرات کا ترقی ماڈل دکھاتے ہوئے کہا تھا کہ ملک کے خزانے کو اگر کرپشن ،منی لانڈرنگ ،بیرون ملک جمع کئے جارہے کالے دھن سے بچانا ہے تو بی جے پی بنام ’مودی‘یعنی میری قیادت میں دے دیجئے۔ہم اقتدار ملتے ہی ملک کی تقدیر بدل دیں گے ،سب کو یکساں ترقی دینے اور اپنی زندگی کو معیاری بنانے کیلئے جی جان کی بازی لگا دیں گے۔اقتدار ملنے کے فوراً بعدبیرون ملک جمع کالے دھن کوواپس لائیں گے اوراس رقم کو راست طور پر ہم سبھی غریبوں کے اکاؤنٹ میںپہنچادیں گے ،جس سے سارے غریب خاندانوں کے اکاؤ نٹ میں تقریباً 5لاکھ روپے جمع ہوجائیں گے۔وزیر اعظم نریندر مودی کے اسی پرفریب وعدوں کو سچ خیال کرتے ہوئے راتوں رات لکھ پتی بننے کا خواب دیکھنے والے ہندوستانیوں نے اپنی ساری وفاداری اور ووٹنگ کا حق وزیر اعظم نریندر مودی کے ہاتھوں میں ڈال دیا ۔مگر چند ماہ کے اندر ہی بی جے پی کے قومی صدر امت شاہ نے ایک کانفرنس میں ببانگ دہل یہ بات کہی کہ انتخابات میں عوا م سے کئے جانے والے سبھی وعدے وفا کرنے کی نیت سے نہیں کئے جاتے ،لہذا سوئس بنکوں میں موجود کالے دھن کو ہندوستان واپس لاکر غریبوں کے اکاؤنٹ میں 5لاکھ روپے پہنچا نے کا وعدہ بھی صرف سیاسی فریب تھا ۔اس کے بعد مہنگائی کے ناگ نے اتنا خطرناک پھن ابھارا کہ چند ماہ کے اندر ہی ملک کے غریب عوام کی کمر ٹوٹنے لگی،دال غریب کی تھالی سے غائب ہو گئی اورستم بالائے ستم یہ کہمودی کے تکنیکی انقلاب نے بے روزگاری کی ایسی چپت لگائی کہ مزدور طبقہ بے بس ہوگیا اور روزگار کے فقدان نے انہیں شہروں سے گاؤں کی جانب لوٹنے پر مجبور کردیا۔نتیجہ کار مرکزی حکومت کے ڈھائی سال پورے ہوگئے اور اب تک کوئی قابلِ تعریف کام انجام نہیں پاسکا،نہ غریبوں سے کیا جانے والاایک بھی وعدہ مودی کو یاد رہ سکا ،بلکہ اس کے بجائے آئے دن حالات سخت سے سخت اور سنگین ترہورہے ہیں۔ایسی صورت حال میں اگر کہیں اسمبلی انتخابات عمل میں لائے جائیں تو غریبوں کے ذریعہ اٹھائے جانے والے سوالوں کامودی جی اور ان کی بھگوابریگیڈ کے پاس کوئی جواب ممکن نہیں ہوسکتا ۔یہ بھی ایک سیاسی اصول ہے کہ کسی بھی جمہوری ملک میں ایجنڈوں اور وعدے کے بغیر انتخابی میدان میں اتر نا’ اپنی موت آپ مرنے کے مترادف ہوتاہے‘ ۔لہذا بی جے پی اپنی پرانی روش پر لوٹ آ ئی ہے ،اور پارٹی کے یرقانی لیڈران نفرت پھیلانے والے اپنے زہر آلود بیانات کے ذریعہ تفرقہ پھیلانے میں جٹ گئے ہیں ،خوف و ہراس کا ماحول قائم کرکے شہریوں کو ڈرا سہما کررکھا جارہا ہے،اب اپنی ناکامیوں پر پر دہ ڈالنے اور حکومت کو موردِ الزام بننے سے بچانے کیلئے مرکزی حکومت نے دھرم کے نام پر پاکھنڈ کی راہ اختیار کرلی ہے۔اس وقت بی جے پی اور فسطائی طاقتوں کے دفاتر میں یو پی اسمبلی انتخابات میں عوام کے سامنے جانے کیلئے ایجنڈوں کے تانے بانے تیار کئے جا رہے ہیں۔فسطائیت زدہ بی جے پی کو کوئی ایسا ایجنڈہ ہی نہیں سوجھ رہا ہے، جسے لے کر وہ انتخابی معرکہ میں صف آرائی کرسکے ۔چونکہ ماضی میں کئے گئے ترقی کے سارے بھاجپائی وعدے کا فریب اب راز نہیں رہ سکا ہے ،لہذا پولرائزیشن ہی ایک ایسی ڈگر ہے جس پر چل کربی جے پی اپنی کشتی کو پار لگا سکتی ہے۔اسی مجبوری کی وجہ سے یکساں سول کوڈ کو بی جے پی اپنے خاص ایجنڈے کے طور اختیار کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔دو ہفتہ قبل ایودھیا میں ’’شری رام‘‘میوزیم اور اس سے پہلے یکساں سول کوڈ کے نفاذ کو سیاسی کارڈ کی شکل میں اچھال دیا گیا ہے۔مگر اس سے بی جے پی کا کیا بھلا ہوگا اس کا جواب تو ناگپور میں واقع’’ سیکنڈ پی ایم او‘‘ سے ہی مل سکتا ہے۔مودی کو یہ بات یاد رہنی چاہئے کہ یکساں سول کوڈ اگر کسی آسان چڑیا کا نام ہوتا تو اسے امریکہ اور دیگر یوروپی ممالک میں کب کا نافذ کیا جا چکا ہوتا۔ کامن سول کوڈ کے نفاذ کی ضد اورقانونی اڑ چنوں کی وجہ سے ہی ماضی میں وزیر قانون اور آ ئین ہند کے معمار ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈ کو اپنی وزارت تک گنوانی پڑی تھی۔قبل ازیں 1950میں نرسومالی اور ممبئی حکومت کے مابین مقدمہ کے فیصلے سے ہی اس یکساں کوڈ کے نفاذ کی جانب قدم بڑھا دئے گئے تھے۔ بعد ازاں ’’زہراخاتون بنام محمد ابراہیم الہ آباد ، سرلا مدوگل بنام حکومت ہند، محمد احمد خان بنام شاہ بانو بھوپال، دانیال لطیفی بنام حکومت ہند اور 6جولائی 2015میں ہندو ماں بنام عیسائی بچہ ‘‘جیسے فیصلوں میں ہر مرتبہ ججوں نے یکساں سِول کوڈ کی حمایت کی اور دستور کے بنیادی حقوق کی دفعہ 14اور 15کا حوالہ دیتے ہوئے Article 44 کے نفاذ کا مطالبہ کیا ۔ ان میں سے کوئی بھی فیصلہ بادی النظر میں خلافِ قانون نہیں ہے، لیکن ہر فیصلہ یا تو خلافِ شریعت ہے یا اس میں خواتین کے حقوق کی دہائی دے کر شریعت پر حملہ کیا گیا ہے۔ ایک بین الاقوامی ماہنامہ’ ’جنر ل لاء منترا‘‘ کی دوسری جلد کے پانچوے شمارے میںمعروف قانون داں’’ ڈاکٹر پرمندر کور ‘‘نے اس موضوع پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان تمام مقدمات کا بنظرِ غائر جائزہ لینے سے اندازہ ہوتا ہے کہ پچھلی کئی دہائیوں سے ایک سوچے سمجھے منصوبہ بند کے تحت مگر انتہائی غیر محسوس انداز سے یکساں سِول کوڈ کے نفاذ کی کوشش مسلسل جاری ہے۔ ملک کے عوام اور دانشورتک اسے محسوس نہیں کر پارہے ہیں۔ حالاں کہ چند سماجی تجزیہ نگاروں نے اس جانب اشارہ ضرور کیا ہے کہ عدالت کے ذریعے اٹھائے گئے یہ سوالات کسی منظم سازش کا حصہ لگتے ہیں۔گزشتہ ایک ماہ سے طلاق ثلاثہ کیخلاف محاذ کھولا گیا ہے اور اسے غلط قراردیتے ہوئے اس کے خلاف حکومت ہند نے عدالت میں حلف نامہ بھی داخل کردیاہے ۔ طلاق کو بہانہ بناکر دراصل یہ شریعتِ اسلامی کو نشانہ بناناچاہتے ہیں ،تاکہ ’’یونیفارم سول کوڈ ‘‘نافذ کیا جاسکے ،اور اس کے ذریعہ مذہبی آزادی اور عمل آوری کے اختیارات سلب کرلئے جائیں اور سب کو ایک رنگ میں رنگ دیا جائے ،یقیناًیہ حکومت کا بہت ہی خطرنا ک اقدام ہے ،وہ اس کے ذریعہ اپنی دیرینہ آرزو پورا کرنا چاہتی ہے کہ مسلمان اپنے تشخص اور امتیاز کے ساتھ نہ جی پائیں اور وہ بھی یکساں سول کوڈ کے زمرہ میں آجا ئیں ۔یہ بات بھی قابل غور ہے کہ لاکھ پابندیاں عائد کی جائیںمگر جن مسلمانوں کو اپنا مذہب اپنی جانوں سے زیادہ عزیز ہے، وہ کسی بھی صورت میں اپنی شریعت سے روگردانی کرنے کی جرأت نہیں کرسکیں گے۔اس میں بھی اب کوئی چیز پوشیدہ نہیں رہ گئی ہے کہ یکساں سول کوڈ کے نفاذ یا طلاق ثلاثہ کا مسئلہ خالص سیاسی منفعت پسندی کا حصہ ہے۔یہاں مصلحت کا تقاضہ یہ ہے کہ دیگر اقلیتوں کو محاذ آرائی میں آ گے رکھا جائے اور مسلمانوں کو اسی صف میں دوسری لائن اختیار کرنی چاہئے۔ورنہ ہماری دھینگا مشتی ،بیان بازیاں ،مظاہرے اور کانفرنسیں بی جے پی کو اس کے سیاسی منصوبے کی تکمیل تک لے جانے کاذریعہ بن سکتی ہیں۔وقت انتہائی نازک اور حساس ہے ،فرقہ پرست عناصر کا منشا یہی ہے کہ کسی طرح بھی بی جے پی پولرائزیشن کی سازش کو کامیابی تک پہنچا نے میں کامیاب ہوجائے اور اس کیلئے اگر کچھ لے دے کر بھی مسلم قیادتوں کو مشتعل کیا جاسکے تو یہ مہنگا سودا نہیں ہوگا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔