یہ تضاد ملک کو کس مقام پر لاکھڑا کرے گا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے؟

"آج دنیا دو بحرانوں سے گزر رہی ہے۔ ایک طرف عالمی حدت دوسری طرف دہشت گردی۔ مجھے یقین ہے کہ ہم مسائل کا حل تلاش کر سکتے ہیں ۔ تیرے راستے سے میرا راستہ زیادہ صحیح ہے, یہی احساس ہمیں تصادم کی طرف لے جا رہا ہے۔ توسیع پسندی ہمیں تصادم کی طرف لے جا رہی ہے۔ توسیع پسندی مسائل کا حل نہیں ہے۔ ہمیں اپنے ضمیر کوبلند کرنے کی ضرورت ہے۔ وقت کی پکار ہے کہ اگر 21 ویں صدی میں انسانیت کی فلاح و بہبود کرناہے تو وید وں کی طرف لوٹیں "۔
مندرجہ بالا خیالات وزیر اعظم نریندر مودی کے ہیں ، جس کا اظہار انہوں نے چودہ مئی کو مدھیہ پردیش کے شہر اجین میں کمبھ میلے میں ‘ زندگی کے صحیح راستے ‘ موضوع پر منعقد سہ روزہ سمینار کے اختتامی اجلاس میں کیا ۔ انہوں نے کہا کہ میرا راستہ، دوسرے لوگوں کے راستے سے بہتر ہونے کا خیال دنیا کو تصادم کی طرف لے جا رہا ہے۔ اس موقع پر 51 نکات کا کمبھ اعلامیہ جاری کیا گیا جس پر انہوں نے مزید کہا کہ اعلامیے کے یہ نکات نہ صرف ہندوستان میں بلکہ پوری دنیا میں نئی بحث شروع کریں گے۔ وزیر اعظم کی اس تقریر نے سماجی و سیاسی امور میں دل چسپی لینے والوں کو ان کے قول و عمل کا نئے سرے سے جا ئزہ لینے کے لیے متوجہ کیا ہے ، یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ وزیر اعظم شہریوں کو جس جانب متوجہ کر نے کی کوشش کر رہے ہیں ،اپنے دور اقتدار میں ان اصولوں کو اپنانے میں ان کی کیا کوشش رہی ہے ، ذرا غور کریں وزیر اعظم جب یہ اعلامیہ جاری کر رہے تھے تو اس وقت ہندوستان کا صدیوں قدیم دوست ملک نیپال جو کبھی ہندو راشٹر ہوا کرتا تھا کا کوئی سرکاری مہمان نظر نہیں آیا، اس تقریب کے مہمان خصوصی سری لنکا کے صدر متر ی پالا سری سینا تھے ۔
وزیر اعظم نے اپنی پوری تقریر میں جا بجا یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ موجودہ دور کے انسانی مسائل کا حل ویدوں میں موجود ہے ۔ جس توسیع پسندی کی ذہنیت کو وزیر اعظم مسترد کرتے ہوئے دنیا کو خبر دار کر رہے ہیں خود ملک میں ایک خاص نظریے کی سیاسی بالادستی قائم کرنے کے لیے حد سے گزرنے کی راہ پر گامزن ہیں ، دیگر افکار و نظریات کے تئیں عدم برداشت کی لہر مودی حکومت کی پہچان بن کر ابھری ہے ۔ اگر توسیع پسندانہ ذہنیت کا جائزہ لیا جائے تو اس ذہنیت کے بدترین شکار تو سب سے زیادہ بی جے پی کے ہی لوگ ملیں گے ۔ حالیہ واقعہ اتر اکھنڈ کا ہے کہ کس طرح مرکزی حکومت نے وہاں اپنی حکومت کے قیام کی انتہائی گھٹیا کوشش کی اس سے قبل یہ لوگ ناکام کوشش ، بہار اور شمال مشرق میں کر چکے ہیں ۔ اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کے لیے خود وزیر اعظم بعض اوقات بے حد بے قرار اور بے قابو ہوجاتے ہیں اور اپنے سیاسی حریفوں کو شکست دینے کے لیے وہ سب کچھ بیٹھتے ہیں جو ان کے عہدے سے مطابقت نہیں رکھتا، ابھی کیرل کا واقعہ بالکل تازہ ہے ، وہاں ایک انتخابی ریلی کے دوران ان پر سیاسی انتقام کا جذبہ اس قدر حاوی ہو گیا کہ جناب ملک کی واحد صد فیصد خواندہ ریاست کیرالا کو صومالیہ سے بھی بدتر قرار دے ڈالا، یہ توسیع پسندانہ نظریے کی تکمیل کی کوشش نہیں تو اور کیا ہے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے دور اقتدار میں ہی ملک نے اپنا ایک دیرینہ رفیق کھو دیا ، نیپال اب ہمارے خلاف کمر کس کر کھڑا ہے اوراب تو باقاعدہ چین کی گود میں جا بیٹھا ہے ، بھلا بتائیں یہ مودی جی کی ناکام حکمت عملی نہیں تو اور کیا ہے ؟ وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ ہمیں اپنے ضمیر کو بلند کر نے کی ضرورت ہے ، اگر وہ اس کا صحیح معنوں میں جائزہ لیں تو پائیں گے کہ وہ جس سیاسی خیمے کی قیادت کر رہے ہیں اس میں ضمیر کی رمق کس قدر پائی جاتی ہے ؟ خود ان کی کابینہ کے کئی وزراء کے ذریعے دیے گئے غیر ذمہ دارانہ بیانات ، اور جارحانہ طرز عمل نے ملک کے امن پسند عوام میں بے چینی پیدا کر دی ہے ۔
پڑوسی ممالک ، چین ، او رپاکستان کے تعلق سے یو پی اے حکومت کو بات بات میں کوسنے والے مودی جی یہ بتائیں کہ انہوں نے گزشتہ دو برس میں تعلقات کی بہتری کے لیے کیا اقدامات کیے اور نتائج کیا رہے؟
وزیر اعظم اپنی پوری تقریر میں ویدوں اور اپنیشد کے شلوک بار بار دہراتے رہے ، اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ ہندوستان کی ترقی اور بھلائی اسی میں ہے کہ یہاں کی عوام ویدوں سے رہنمائی حاصل کرے ، وہ یہ بھول گئے کہ وہ ایک ایسے ملک کے وزیر اعظم ہیں جہاں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں، اور ملک کا اپنا کوئی دھرم نہیں ہے بحیثیت وزیر اعظم انہیں کسی خاص نظریے کی یکطرفہ تبلیغ سے بچنا چاہیے ، وہ ایک سیکولر ملک کے وزیر اعظم ہیں، انہیں یہ کہنا چاہیے کہ یہ ملک 125 کروڑ ہندستانیوں کا ہے، سبھی اپنے اپنے اپنے مذہبی تعلیمات کی روشنی میں ملک کوآگے لے جانے میں اپنا کردار ادا کریں ۔ موصوف ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ” ہم اس ثقافت سے نکلے ہوئے لوگ ہیں جہاں ایک فقیر بھیک مانگنے کے لئے جاتا ہے تو اس کے منہ سے نکلتا ہے ‘جو دے اس کا بھی بھلا جو نہ دے اس کا بھی بھلا’۔ یہ معمولی بات نہیں ہے۔ یعنی ہماری بنیادی فکر یہ ہے کہ سب کا بھلا ہو سب کی بہبود ہو” ۔ لیکن ہم جب وزیر اعظم کے اس بیان کے تناظر مییں حالات کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ جس ‘سنگھ پریوار ‘ کے وزیر اعظم ایک رکن ہیں اسی پریوار کے لوگ دوسروں کی مذہبی آزادی کو چھیننے کے لیے ملک گیر مہم چلاتے ہیں ، گھر واپسی پروگرام ترتیب دیتے ہیں ۔ایک دن قول وعمل کا یہ تضاد ملک کو کس مقام پر لاکھڑا کرے گے ہم تصور بھی نہیں کرسکتے ؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔